خاوند كى اجازت كے بغير اپنے والدين اور رشتہ داروں كو ملنے جانا
خاوند نے بيوى كو زدوكوب كيا تو وہ اپنے كچھ بچوں كو لے كر كرايہ كے مكان ميں چلى گئى اور ڈيڑھ برس سے وہ كرايہ كے مكان ميں رہ رہى ہے اور خاوند كو كرايہ پر مكان لينے كا علم بھى تھا بيوى كے اس عمل كا شرعى حكم كيا ہے ؟
بيوى اگر اپنے كسى رشتہ دار يا والدين كو ملنے جائے يا پھر ان كى تقريبات ميں شركت كے ليے اكيلى جائے تو كيا حكم ہوگا ؟
الحمد للہ :
اگر بيوى خاوند كى اجازت سے كرايہ كے مكان ميں رہ رہى تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر وہ نفسياتى مرض كے شكار خاوند كى مار سے بچنے كے ليے ايك محفوظ گھر ميں جا كر رہنے لگے تو بھى كوئى حرج نہيں.
ليكن اصل يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے باہر نہيں جا سكتى، اور اگر بغير اجازت گھر سے جاتى ہے تو وہ نافرمان اور بددماغ كہلائيگى، اور ايسا كرنے پر اسے گناہ بھى ہوگا، ليكن اس سے كئى حالات ميں مجبورى كى بنا پر استثناء ہوگا، فقھاء كرام نے اس كى كئى ايك مثاليں بيان كى ہيں.
مثلا جب بيوى كوئى چيز پيسنے يا روٹى پكانے يا ضرورى چيز خريدنے جس كے بغير چارہ نہيں ہے، يا پھر گھر منہدم ہونے كے خدشہ كى بنا پر باہر چلى گئى تو كوئى حرج نہيں "
ديكھيں: اسنى المطالب مع حاشيتہ ( 3 / 239 ).
اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:
" بيوى كا گھر سے خاوند كى اجازت كے بغير باہر نكلنا حرام ہے، يا پھر كسى ضرورت كے باہر جانا، ليكن اگر كوئى كھانا وغيرہ لانے كے ليے نہ ہو تو وہ خود جا سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 271 ).
اس سے والدين اور رشتہ داروں كو ملنے اور مختلف قسم كى سماجى تقريبات ميں شريك ہونے كے حكم كا بھى علم معلوم كيا جا سكتاہے، اس ليے بيوى كو اس كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير نہيں جانا چايے، چاہے بيوى اپنے خاوند كے ساتھ رہتى ہو يا ايك عليحدہ اور مستقل گھر ميں رہ رہى ہو.
فقھاء كرام خاص كر والدين سے ملنے كے بارہ ميں اختلاف ركھتے ہيں، كہ آيا خاوند كو اسے والدين سے ملنے كے ليے جانے سے روكنے كا حق حاصل ہے يا نہيں، اور اگر خاوند جانے سے روكے تو كيا بيوى كو اس ميں بھى خاوند كى اطاعت كرنا ہو گى يا نہيں ؟
احناف اور مالكى حضرات كہتے ہيں كہ خاوند كو روكنے كا حق حاصل نہيں ہے.
ليكن شافعى اور حنابلہ كہتے ہيں كہ خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے، اور بيوى كو اس سلسلہ ميں خاوند كى اطاعت كرنا ہوگى، اس ليے وہ والدين كو بھى خاوند كى اجازت كے بغير ملنے نہيں جا سكتى، ليكن خاوند اسے والدين سے بات چيت اور ان كى زيارت سے نہيں روكنے كا حق حاصل نہيں، ليكن اگر بيوى كا اپنے والدين كو ملنے ميں خاوند كو كوئى نقصان اور ضرر كا خدشہ ہو تو ضرر كو دور كرنے كى بنا پر روك سكتا ہے.
ان نجيم حنفى كہتے ہيں:
" مثلا گر عورت كا خاوند بوڑھا ہو اور وہ خدمت كا محتاج ہو اور خاوند اپنى بيوى كو والد كى ديكھ بھال كرنے سے منع كرے تو بيوى كو چاہيے كہ وہ اس ميں خاوند كى بات نہ مانے، چاہے باپ كافر ہو يا مسلمان، فتح القدير ميں يہى ہے.
ہم نے جو بيان كيا ہے اس سے يہى پتہ چلتا ہے كہ صحيح يہى ہے اور فتوى بھى اسى پر ہے كہ عورت كو اپنے والدين اور محرم رشتہ داروں كو ملنے كے ليے جانے كا حق ہے، عورت ہر جمعہ كے دن خاوند كى اجازت كے بغير اپنے والدين كو ملنے جائيگى، اور محرم رشتہ داروں كو سال ميں ايك بار اور اجازت كے بغير جائيگى " انتہى
ديكھيں: البحر الرائق ( 4 / 212 ).
اور التاج و الاكليل على متن خليل مالكى فقہ كى كتاب ميں درج ہے:
" العتبيۃ ميں ہے: خاوند اپنى بيوى كو اس كے والدين يا بھائى كے گھر جانے سے نہيں روك سكتا، خاوند كے خلاف يہى فيصلہ كيا جائيگا، ليكن ابن حبيب اس كى مخالفت كرتے ہيں.
ابن رشد كہتے ہيں: يہ اختلاف تو اس نوجوان بيوى كے متعلق ہے جس سے امن ہو، ليكن زيادہ عمر كى عورت كے بارہ ميں كوئى اختلاف نہيں، اس كے بارہ ميں يہى فيصلہ كيا جائيگا كہ وہ اپنے والدين اور بھائى كو ملنے جائے، ليكن نوجوان لڑكى جس سے خطرہ ہو اور غير مامونہ ہو اس كے ليے اجازت كے بغير جانا جائز نہيں كا فيصلہ ہوگا " انتہى
ديكھيں: التاج و الاكليل على متن خليل ( 5 / 549 ).
المتجالۃ: اس بوڑھى اور زائد عمر كى عورت كو كہتے ہيں جس كے بارہ ميں مردوں كى چاہت نہ رہے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 294 ).
شافعى فقھاء ميں سے ابن حجر المكى كہتے ہيں:
" اگر عورت والد سے ملنے ياحمام جانے كے ليے مجبور ہو تو وہ خاوند كى اجازت سے باپرد ہو كر پورى حشمت كے ساتھ باہر جائيگى، اور چلنے ميں بھى اپنى آنكھيں نيچى ركھےگى، دائيں بائيں نظريں نہيں دوڑائےگى، وگرنہ دوسرى صورت ميں وہ نافرمانى كہلائيگى " انتہى
ديكھيں: الزواجر عن اقتراف الكبائر ( 2 / 78 ).
اور شافى كتب " اسنى المطالب " ميں درج ہے:
" خاوند كے ليے بيوى كو والدين كى عيادت اور ان كے جنازہ ميں شريك ہونے سے روكنے كا حق حاصل ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ مت روكے " انتہى
ديكھيں: اسنى المطالب ( 3 / 239 ).
امام احمد رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت كى والدہ بيمار ہے اور خاوند تيمار دارى كے ليے نہيں جانے ديتا تو كيا كرے ؟
امام احمد رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس پر ماں سے زيادہ خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اجازت دے دو تو اور بات ہے " انتہى
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 47 ).
اور حنابلہ كى كتاب " الانصاف " ميں درج ہے:
" خاوند سے عليحدہ ہونے كے مسئلہ ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت كرنا لازم نہيں، اور اسى طرح خاوند كو چھوڑ كر وہ انہيں بغير اجازت ملنے بھى نہيں جا سكتى، بلكہ خاوند كى اطاعت كا زيادہ حق ہے.
ديكھيں: الانصاف ( 3 / 47 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
خاوند كى اجازت كے بغير بيوى كا والدين كو ملنے اور اجازت كے بغير وہاں رات بسر كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور خاوند كى اطاعت پر اپنے والد كى اطاعت كو ترجيح دينا كيسا ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" بيوى كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير والدين يا كسى دوسرے كو ملنے جانا جائز نہيں، كيونكہ اس پر خاوند كا يہ حق ہے، ليكن اگر كوئى شرعى سبب اور جو اسے جانے پر مجبور كرتا ہو تو وہ بغير اجازت جا سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 165 ).
والدين كو ملنے كے ليے خاوند كى اجازت سے شرط كى دليل صحيحين ميں واقعہ افك والى حديث ہے، جس ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي:
" كيا آپ مجھے اپنے والدين كے پاس جانے كى اجازت ديتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4141 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2770 ).
اور عراقى رحمہ اللہ " طرح التثريب " ميں لكھتے ہيں:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا يہ كہنا كہ: " كيا آپ مجھے اپنے والدين كے پاس جانے كى اجازت ديتے ہيں " اس عبارت ميں يہ بيان ہوا ہے كہ بيوى خاوند كى اجازت كے بغير والدين كے پاس نہ جائے، ليكن انسانى حاجت ميں اجازت كى ضرورت نہيں، جيسا كہ اس حديث ميں واد ہے " انتہى
ديكھيں: طرح التثريب ( 8 / 58 ).
ليكن اس كے باوجود خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كو اس كے والدين اور دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملنے كى اجازت دے، اور اسے انہيں ملنے سے مت روكے، صرف اگر ملنے ميں يقينى نقصان اور ضرر ہوتا ہو تو پھر روكا جا سكتا ہے.
كيونكہ بيوى كو اس كے والدين اور محرم رشتہ داروں سے روكنے ميں قطع تعلقى ہوتى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى باعث وہ اپنے خاوند كى مخالت كرنا شروع كر دے اور خاوند كى بات ہى نہ مانے.
اور اس ليے بھى كہ جب اسے اس كے والدين سے ملنے كى اجازت دى جائيگى اور وہ اپنے دوسرے محرم رشتہ داروں كو ملنے جا سكےگى تو اسے خوشى حاصل ہوگى، اور خيالات اچھے ہونگے، اور اس كى اولاد بھى خوش ہوگى، اور ان سب كا فائدہ خاوند اور خاندان كو ہى ہوگا.
اور سوال ميں جو يہ بيان ہوا ہے كہ وہ اپنے كسى بچے يا بچى كے ساتھ جاتى ہے، يہاں ہم يہ تنبيہ كرنا چاہيں گے كہ جہاں محرم كى موجودگى كى ضرورت ہوگى وہاں صرف چھوٹے بچے يا بچى كى موجودگى كافى نہيں ہے، بلكہ شرعى مصلحت كو مدنظر ركھتے اور اسے پورا كرتے ہوئے محرم كا ہونا ضرورى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم نے بيان كيا ہے كہ محرم كے ليے بالغ اور عاقل ہونا شرط ہے، لہذا جب مرد پندرہ برس كا ہو جائے يا پھر اس كے زيرناف بال اگ آئيں، يا پھر احتلام وغيرہ كى حالت ميں منى خارج ہو جائے تو وہ بالغ شمار ہوگا، اور جب وہ عقل و دانش ركھتا ہے تو اس كا محرم بننا صحيح ہوگا ... "
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 1121 ).
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے اور سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ