كيا بيوى بچوں كو اپنے سے دور ركھنا لازم ہے تا كہ وہ كفريہ ممالك ميں نہ رہيں ؟
ميں مسلمان ہوں اور ايك اسلامى ملك كى مسلمان خاتون سے شادى كى ہے، ميں نہيں چاہتا كہ بيوى اور بچے كفريہ ملك ميں رہائش اختيار كريں، ميں خود امريكہ ميں كام كرتا ہوں جہاں ميرى پيدائش ہوئى ہے، اور تقريبا مجھے تين برس تك يہيں كام كرنا ہے تا كہ ميں مستقبل كى كوئى پلاننگ كر سكوں، اس كے بعد ہى ميں كسى اسلامى ملك ميں تعليم حاصل كر سكتا ہوں، اور اس اسلامى ملك ميں رہ سكتا ہوں جہاں كى ميرى بيوى ہے، ان شاء اللہ.
ميرا سوال يہ ہے كہ اگر ميں اپنى بيوى كو واپس جا كر اپنے اسلامى ملك ميں رہنے پر مجبور كرتا ہوں اور خود يہاں امريكہ ميں رہوں ( اور يہاں ويزٹ پر مجھے ملنے كے ليے آنے سے منع كروں ) اور جتنى دير ميں يہاں رہتا ہوں بچوں كى تربيت اسلامى ملك ميں ہى ہو، ميں ہر سال صرف دو ماہ كے ليے انہيں ملنے جايا كروں تو كيا ايسا كرنا حرام تو نہيں ؟
اور كيا ميرے ليے واجب ہے كہ ميں اسے اپنے ساتھ رہنے كى اجازت دوں حالانكہ يہ ملك كفريہ اور بہت ہى برائى اور فحاشى سے اٹا ہوا ہے ؟
اور كيا بيوى كو ميرا فيصلہ قبول كرنا واجب ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ آپ اس موضوع كے متعلق كتاب و سنت سے دلائل بھى ديں ہو سكتا ہے اس سے ہميں اس موضوع كو سمجھنے ميں اور آسانى ہو جائے
الحمد للہ:
اول:
كفريہ ممالك ميں رہائش اختيار كرنے ميں كوتاہى سے كام نہيں لينا چاہيے، كيونكہ وہاں رہنے كے نتيجہ ميں مسلمان كے دين اور اس كے عقيدہ پر غلط اثر پڑتا ہے، اور اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كے مابين رہائش اختيار كرنے سے بچنے كا كہا ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں ہر اس مسلمان شخص سے برى ہوں جو مشركوں كے درميان رہائش اختيار كرتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ليكن كچھ ايسے حالات ہيں جن ميں مسلمان شخص كے ليے كفريہ ممالك ميں رہائش اختيار كرنا جائز ہوگا، ليكن اس ميں بھى كچھ شروط و قيود پائى جاتى ہيں: كہ مسلمان شخص كے دين اور عقيدہ پر كوئى اثر نہ پڑے، اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13363 ) اور ( 27211 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
دوم:
آپ كو چاہيے كہ اپنے بيوى بچوں كو اپنے پاس ركھ كر ان كى تعليم و تربيت اور ديكھ بھال كرنے، اور اپنے آپ كو ان كى بنا پر فتنہ وفساد سے محفوظ ركھنےكى مصلحت اور ان كا اس كفريہ ممالك ميں رہنے كے نتيجہ ميں جو خرابى پائى جاتى ہے كہ ان كے دين اور اخلاق ميں بگاڑ پيدا ہونا ممكن ہے اس ميں مقارنہ ضرور كريں.
اور يہ بھى مدنظر ركھيں كہ آپ كا اس پرفتن معاشرے ميں اكيلا رہنا كيسا ہوگا، اور اس كے ساتھ ساتھ آپ اپنے گھر والوں سے بھى مشورہ ضرور كريں اور پھر كسى فيصلہ تك پہنچے، اور پھر آپ دونوں اللہ كے تقوى و پرہيزگارى كى رغبت ركھتے ہوئے وہ اختيار كريں جو اللہ كو راضى كرنے كا باعث بنے.
اس طرح اگر آپ كو يہ راجح معلوم ہو كہ انہيں اس ملك سے دور ركھنا ہى افضل و بہتر ہے تو انہيں ان كے اسلامى ملك بھيج ديں تو اس ميں آپ پر كوئى حرج نہيں ہوگا، اور آپ كى بيوى كو آپ كا فيصلہ مانتے ہوئے آپ كى اطاعت كرنا ہو گى.
كيونكہ معصيت و نافرمانى كے علاوہ ہر كام ميں بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنى لازم ہے اس كے كتاب و سنت ميں بہت سارے دلائل پائے جاتے ہيں، جن ميں سے چند ايك ذيل ميں ديے جاتے ہيں:
مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں مروى ہے كہ حصين بن محصن بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك كام كے ليے آئى جب وہ اپنى ضرورت سے فارغ ہوئيں تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:
" كيا تم شادى شدہ ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: جى ہاں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنے خاوند كے ليے كيسى ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كوتاہى نہيں كرتى، الا يہ كہ ميں عاجز ہو جاؤں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم يہ خيال ركھو كہ تم اس كے ہاں كيسى ہو ؟
كيونكہ وہ تمہارا خاوند تمہارى جنت اور جہنم ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 18233 ) علامہ البانى رحمہ اللہ صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو جيد كہا ہے.
آلوہ: كا معنى يہ ہے كہ ميں اس كے حق ميں كسى قسم كى كوتاہى نہيں كرتى.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورت كے ليے جائز نہيں كہ خاوند كى موجودگى ميں خاوند كى اجازت كے بغير روزہ ركھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5195 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا كہتے ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنے خاوند كى اطاعت واجب ہے تو پھر اس سے بھى اہم اشياء ميں اس كى اطاعت بالاولى واجب ہوگى، جس ميں اولاد كى تعليم و تربيت اور گھر كى اصلاح وغيرہ دوسرے واجب كردہ حقوق شامل ہيں " انتہى
ديكھيں: آداب الزفاف ( 282 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 43123 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب فتنہ و فساد سے امن والى جگہ ہو تو خاوند كا اپنى بيوى سے دور جانے ميں كوئى حرج نہيں، اور اگر بيوى اسے چھ ماہ سے زائد عرصہ دور رہنے كى اجازت دے تو كوئى حرج نہيں، ليكن اگر بيوى اپنے حقوق كا مطالبہ كرے اور اسے آنے كا كہے تو پھر خاوند كے ليے چھ ماہ سے زائد غائب رہنے كا حق نہيں ہے.
ليكن اگر كوئى عذر ہو مثلا بيمار ہو يا كوئى اور عذر تو پھر ضرورت كو خاص احكام حاصل ہيں، بہر حال اس ميں حق بيوى كا ہے، جب وہ اجازت دے دے اور وہ امن و امان والے علاقے ميں ہو تو خاوند پر كوئى گناہ نہيں، چاہے زيادہ عرصہ بھى غائب رہے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 106 ).
واللہ اعلم .
.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ