ایسے خاوند سے کس طرع کا سلوک کیا جائے جومخرب الاخلاق جنسی فلمیں دیکھتا ہے اوربیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا

 

 

 

 

مشکل یہ ہے کہ کچھ سالوں سے خاوند مجھے حقیر سمجھ رہا ہے اورمیرے جسمانی حقوق بھی ادا نہیں کررہا حتی کہ بوسہ تک چھوڑ رکھا ہے ، اورگندی قسم کی جنسی فلمیں دیکھتا رہتا ہے ، میری اولاد بھی ہے میرے خیال میں اس کا حل طلاق نہیں ( اولاد کی وجہ سے ) تواب آپ بتائيں کہ اس کا حل کیا ہو سکتا ہے ؟
میں اس معاملہ میں اپنے خاوند کے ساتھ بات کرنے میں جھجک محسوس کرتی ہوں ۔

الحمد للہ
اول :

سوال کرنے والی مسلمان بہن آپ اپنے خاوند سے اس معاملہ میں بات کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں ، اس لیے اسے حل کرنے کے لیے اس سے بات چیت ہی سب سے زيادہ بہتر اوراچھی چيز ہے ۔

آپ اسے وعظ ونصیحت کریں ، اوراسے کوئي اچھی اوربلیغ بات کہیں ، اسے اللہ تعالی کے عذاب اوراس کی ناراضگي یاد دلائيں ، جہنم کے عذاب سے خوف دلائيں ، اسے آپ اہل وعیال کے متعلق امانت اورذمہ داری کا احساس کرائيں اوریاد دلائيں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اورہر ایک سے اس کی رعایا کے بارہ میں سوال ہوگا ادمی اپنے گھروالوں کا ذمہ دار ہے اوروہ اپنی اس رعایا کے بارہ میں جوابدہ ہوگا ) ۔

اوراس کا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ اسے بتائيں کہ جو کچھ وہ آپ کےساتھ کررہا ہے وہ گناہ اورمعصیت ونافرمانی ہے ، اوراس قسم کی مخرب الاخلاق اورخبیث قسم کی فلموں کا مشاہدہ اسے اللہ تعالی اوراس کے ذکر سے دور کردے گا ، ہوسکتا ہے اس سے اس میں نرمی پیدا ہوجائے اورنصیحت حاصل کرے ۔

آپ اس سے ایسا سلوک حکمت اورمصلحت کومدنظر رکھتے ہوئے کئي ایک بار کریں ، اگروہ پھر بھی آپ کی بات تسلیم نہ کرے توپھر آپ کے خیال میں جولوگ اس مسئلہ میں کچھ فائدہ مند ہوسکتے ہیں ان سے تعاون اورمدد حاصل کریں مثلا اہل علم ، اوراس کے رشتہ دار و اقربا میں سے اچھے قسم کے لوگ جواصلاح پسند ہوں یا پھر اس کے وہ دوست جن کی بات وہ رد نہیں کرتا ۔

دوم :

آپ کوشش کریں کہ اسے چندایک تقریروں اورعلمی دروس کی کیسٹیں سنائيں چاہے وہ ڈاریکٹ ہوں یا ان ڈایریکٹ طریقے سے ، اورآپ اسے کچھ اسلامی کتب بھی پیش کریں جواس موضوع میں ہوں ہوسکتا ہے اس سے ہی اس کا دل نرم ہوجائے اوروہ حق کی طرف پلٹ آئے ۔

سوم :

اوراگریہ سب کچھ بھی فائدہ مند ثابت نہ ہوسکے توپھر آپ اپنے اوراس کے خاندان میں سے ایک ایسے شخص کو منصف مقرر کریں جس کے بارہ میں آپ سمجھتی ہوں کہ ان کی دخل اندازی کی بنا پر تعلقات اچھے ہوں گے اوروہ اس برائي اورگناہ اورشر سے دور ہوجائے گا اوروہ لوگ اصلاح پسندبھی ہونے ضروری ہيں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کافرمان ہے :

{ اوراگرتم خاوند ، بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف محسوس کرو توایک منصف مرد والوں میں سے اورایک عورت کے گھروالوں میں سے مقرر کرو ، اگریہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تواللہ تعالی دونوں میں ملاپ کرا دے گا ، یقینا اللہ تعالی پورے علم والا پوری خبروالا ہے } النساء ( 35 ) ۔

اگران دونوں منصفوں نے اصلاح کرنی چاہی توہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کے درمیان ملاپ کرائے اورآپ کوخیروبھلائي اوراطاعت پر اکٹھا ہونے کی توفیق دے ، اورآپ دونوں کے درمیان خاوند بیوی کی طرح اچھے طریقے سے محبت پیدا کرے اورآپ کواکٹھا کردے ۔

چہارم :

اوراگر یہ منصف بھی تم دونوں کے درمیان اتفاق پیدا نہ کرسکیں توپھر اگر آپ صبر اوربرداشت کرسکیں تواپنے خاوند پرمندرجہ ذیل حل پیش کریں :

کہ وہ دوسری شادی کرلے اورآپ اس کے ساتھ ہی رہیں چاہے وہ آپ کے پاس نہ بھی آئے اورآپ کے جسمانی حقوق نہ بھی ادا کرے لیکن شرط یہ رکھیں کہ وہ ان گناہوں اورمعاصی کوترک کر دے اورآپ اپنی اولاد سمیت اس کے پاس ہیں رہیں اوروہ آپ پر خرچہ کرتا رہے تواس میں بھی کوئي حرج نہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراگرکسی عورت کواپنے خاوند کی بددماغی اوربے پرواہی کا خوف ہو تودونوں آپس میں جو صلح کرلیں اس میں کسی پر کوئي گناہ نہیں ، اورصلح بہت ہی بہتر اوراچھی چيز ہے } النساء ( 128 ) ۔

یہاں پر اصلاح اورصلح کے کئي ایک معنی ہیں : جس میں سے یہ بھی ہے کہ :

بیوی خاوند کواس بات کی اجازت دے دے کہ وہ اس کی باری کسی اوربیوی کودیتی ہے اوراس کےبدلے میں وہ اسے اپنی عصمت میں ہی باقی رکھے ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

ام المومنین سودہ بنت زمعۃ رضي اللہ تعالی عنہا جب بوڑھی ہوگئيں توانہوں نے اپنی باری والا دن عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوھبہ کردیا ، تو سودہ رضي اللہ تعالی عہنا کی باری والے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضي اللہ تعالی کے پاس رہتے تھے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4914 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1463 )

اورسودہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک تھیں ۔

اوراگریہ حل یا اسی طرح کا کوئي اورحل پیش کرنے پر بھی آپ کے درمیان اتفاق اورجمع نہ ہوسکے اورآپ میں صبر وتحمل کی استطاعت نہ ہوتو پھر طلاق کی سوچ اس وقت ہونی چاہیے جب آپ یہ یقین کرلیں کہ اس شخص کےساتھ رہنا علیحدگی سے زيادہ نقصان دہ ہے توپھر ہم یہ کہيں کہ آپ اس حالت میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف آئيں :

{ اوراگر خاوند اوربیوی دونوں جدا ہوجائیں تواللہ تعالی اپنی وسعت سے ہر ایک کوبے نیاز کردے گا اوراللہ تعالی بڑی وسعت اورحکمت والا ہے } النساء ( 130 ) ۔

آپ کے اس معاملہ کی صعوبت اورمشکل اس بات کی متقاضي ہے کہ آپ حتمی طور پر اللہ تعالی سے رجوع کریں اوراس سے توفیق اورتعاون طلب کریں کہ وہ آپ کوکوئي صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

ہم آپ کوایک بار پھر یہ یاد دلائيں گے کہ خاوند کونصیحت کرنا اوراسے صحیح راستے کی طرف لانے کی کوشش کرنا ہر حالت میں واجب ہے اللہ تعالی آپ کی حفاظت ونگہبانی فرمائے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ