دم کرنے کی فضیلت اور دم کے لئے دعائیں

سوال

انسان خود اپنے آپ کو دم کرے تو اس کی کیا فضیلت ہے؟ اور اس کے کیا دلائل ہیں؟ نیز جب کوئی اپنے آپ کو دم کرے تو کیا کہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان خود اپنے آپ کو دم کرے تو یہ جائز عمل ہے، بلکہ یہ سنت حسنہ بھی ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنے آپ پر دم کیا اور اسی طرح بعض صحابہ کرام نے بھی اپنے آپ پر دم کیا ہے۔

جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھتے اور [اپنے اوپر]تھوک کی آمیزش والی پھونک مارتے، تاہم جب آپ کی تکلیف اور بڑھ گئی تو میں آپ پر معوذات پڑھتی اور پھر آپ کی برکت کی وجہ سے آپ ہی کا ہاتھ آپ پر پھیر دیتی تھی" اس حدیث کو امام بخاری: (4728) اور مسلم : (2192)نے روایت کیا ہے۔

جبکہ صحیح مسلم: (220) کی روایت جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر ہزار ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جو اس امت میں سے بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے، ان کے بارے میں فرمایا: (وہ دم نہیں کرتے ہوں گے اور نہ ہی کرواتے ہوں گے، وہ بد شگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں)

تو یہاں پر "وہ دم نہیں کرتے" کے الفاظ راوی کا وہم ہیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نہیں ہے؛ اسی لیے جب امام بخاری نے اس حدیث کو (5420) میں بیان کیا تو اس میں یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں پر ان لوگوں کی اس لیے مدح سرائی فرمائی کہ وہ کسی سے دم نہیں کرواتے یعنی کسی سے دم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے، دم بھی دعا ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے وہ کسی سے بھی اس کا مطالبہ نہیں کرتے، ایک روایت میں "وہ دم نہیں کرتے" کے الفاظ ہیں جو کہ غلط ہیں؛ کیونکہ کوئی کسی کو دم کر دے یا اپنے آپ کو دم کرے تو یہ نیکی کا کام ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود اپنے آپ کو دم کرتے تھے اور دوسروں کو بھی دم کر دیا کرتے تھے، تاہم کسی سے اپنے اوپر دم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے تھے؛ کیونکہ اپنے آپ کو دم کرنا یا کسی اور کو دم کرنا اپنے لیے دعا یا دوسرے کے لئے دعا کے قبیل سے ہے، اور دوسروں کے لئے یا اپنے لیے دعا کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لیے کہ تمام کے تمام انبیائے کرام اللہ تعالی سے دعائیں کرتے تھے اور اسی سے مانگتے تھے، جیسے کہ اللہ تعالی نے آدم، ابراہیم، موسی اور دیگر انبیائے کرام کے واقعات میں ذکر فرمایا ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى (1 / 182)

[ان اضافی الفاظ کے بارے میں]ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ لفظ حدیث کے متن میں داخل کر دیا گیا ہے، جو کہ راوی کی غلطی ہے۔" ختم شد
حادی الأرواح ( 1 / 89 )

دم کرنا مفید ترین ذرائع علاج میں شامل ہے، اس لیے مؤمن کو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔

دوم:

جب کوئی مسلمان اپنے آپ یا کسی دوسرے کو دم کرنا چاہے تو اس کے لئے متعدد شرعی دعائیں ہیں ، ان میں سے عظیم ترین سورت فاتحہ اور معوذات ہیں۔

اس کی دلیل ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : " نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کچھ صحابہ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ دوران سفر انہوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا اور چاہا کہ اہل قبیلہ ان کی مہمانی کریں مگر انہوں نے اس سے صاف انکار کر دیا۔ اسی دوران میں اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ انہوں نے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ اس پر کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو، چنانچہ وہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو! ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی علاج معالجے کاذریعہ ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں دم تو کرلیتا ہوں، لیکن واللہ !تم لوگوں سے ہم نے اپنی مہمانی کی خواہش کی تھی تو تم نے اسے مسترد کر دیا تھا، اب میں بھی دم نہیں کروں گا جب تک تم ہمارے لیے کوئی عطیہ مقرر نہیں کرو گے۔ آخر انہوں نے بکریوں کے ریوڑ کے عوض انہیں راضی کر لیا۔ چنانچہ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے)ایک آدمی گیا اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرتے ہوئے تھتکارنے لگا تو وہ شخص ایسا روبہ صحت ہوا کہ گویا اس کے بند کھول دیے گئے ہوں، پھر وہ اٹھ کر چلنے پھر نے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے کوئی

بیماری تھی ہی نہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ان کا بکریوں کا مقررہ عطیہ ان کے حوالے کر دیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپس میں کہنے لگے۔ اسے تقسیم کر لو۔ لیکن دم کرنے والے نے کہا: ابھی تقسیم نہ کرو تاوقتیکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچ کر اس واقعے کا تذکرہ کریں اور معلوم کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: (تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے؟ ) پھر فرمایا:  (تم نے ٹھیک کیا۔ انہیں تقسیم کر لو، بلکہ اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔ ) یہ کہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسکرا دیے۔ "
اس حدیث کو امام بخاری: (2156) اور مسلم : (2201)نے روایت کیا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھتے اور [اپنے اوپر]تھوک کی آمیزش والی پھونک مارتے، تاہم جب آپ کی تکلیف اور بڑھ گئی تو میں آپ پر معوذات پڑھتی اور پھر آپ کی برکت کی وجہ سے آپ ہی کا ہاتھ آپ پر پھیر دیتی تھی" اس حدیث کو امام بخاری: (4175) اور مسلم : (2192)نے روایت کیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ میں "نفث" کے الفاظ ہیں جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ تھوک کی آمیزش کے ساتھ ہلکی سی پھونک مارنا، دوسرے مطلب کے مطابق تھوک کی آمیزش ضروری نہیں، مزید تفصیل کے لئے امام نووی کی شرح مسلم دیکھیں، حدیث نمبر: (2192) کے تحت۔

سنت میں مذکور مسنون دعائیں:

صحیح مسلم : (2202) میں عثمان بن ابو العاص سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شکایت کی کہ جب سے وہ مسلمان ہوئے ہیں انہیں اپنے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے؛ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (اپنے جسم کی اس جگہ پر ہاتھ رکھو جہاں تمہیں درد محسوس ہوتا ہے اور تین بار "بسم اللّٰہ"کہو، پھر سات بار کہو:  أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ  [ترجمہ: میں اللہ تعالی کی عزت اور قدرت الہی کے ذریعے پناہ چاہتا ہوں اس تکلیف سے جو میں محسوس کرتا ہوں اور جس کا مجھے خدشہ ہے] ) امام ترمذی نے اس حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ: "عثمان بن ابو العاص کہتے ہیں کہ: میں نےایسے ہی کیا اور کہا تو اللہ تعالی نے میری اس تکلیف کو ختم کر دیا، میں پھر ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اور دیگر لوگوں کو یہی الفاظ کہنے کی تلقین کیا کرتا تھا۔" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی : (1696) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دم کرتے ہوئے فرماتے تھے: (تمہارے جد امجد [یعنی: ابراہیم علیہ السلام ] ان الفاظ کے ذریعے اسماعیل اور اسحاق کو دم کیا کرتے تھے:  أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ [ترجمہ: میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے ذریعے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ہر شیطان سے ، ہر زہریلے جاندار سے اور ہر نظر بد سے۔]) اس حدیث کو امام بخاری: (3191) نے روایت کیا ہے۔

اس دعا کے عربی لفظ: "هَامَّةٍ" کی میم کو تشدید کے ساتھ پڑھنا ہے، اور اس سے مراد ہر قسم کا ایسا زہریلا جانور ہے جس کے زہر سے موت واقع ہو جاتی ہے۔

اور " عَيْنٍ لاَمَّةٍ " سے مراد ہر ایسی نظر ہے جو کہ دوسروں کو لگ جاتی ہے اور اس سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہے۔ دیکھیں: تحفۃ الاحوذی۔

واللہ اعلم

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ