چاند ديكھنے كا حكم
سوال
كيا لوگوں كے ليے رمضان كا چاند ديكھنا فرض ہے ؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
علماء كى ايك جماعت رمضان كى پہلى رات چاند ديكھنے كو واجب قرار ديتى ہے، اور اگر كوئى شخص بھى اس رات چاند نہ ديكھے تو سب لوگ گنہگار ہونگے، يہ احناف كا قول ہے.
اور بعض فقھاء كہتے ہيں كہ چاند ديكھنا مستحب ہے.
مجمع الانھار ميں مذكور ہے كہ:
" انتيس شعبان اور انتيس رمضان كو لوگوں كے ليے چاند ديكھنا فرض كفايہ ہے، اور حكمران كے ليے واجب ہے كہ وہ اس كا لوگوں كو حكم دے " مختصر.
ديكھيں: مجمع الانھار ( 1 / 238 ).
اور الفتاوى الھنديۃ ميں ہے:
" انتيس شعبان كو مغرب كے وقت لوگوں كے ليے چاند ديكھنا واجب ہے، اگر تو انہيں چاند نظر آ جائے تو ہ روزہ ركھيں، اور اگر آسمان ابر آلود ہو تو وہ شعبان كے تيس يوم پورے كر ليں " انتہى.
ديكھيں: الفتاوى الھنديۃ ( 1 / 197 ).
اور فتح القدير ( 2 / 313 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اور كشاف القناع ميں لكھا ہے:
( اور تيس شعبان كى رات لوگوں پر رمضان كا چاند ديكھنا فرض ہے ).
ديكھيں: الكشاف القناع ( 2 / 300 ).
روزہ ركھنے كى احتياط كے ليے چاند ديكھنا مستحب ہے، تا كہ اختلاف سے بچا جا سكے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم شعبان ميں وہ كچھ كرتے جو اس كے علاوہ كسى ميں نہ كرتے تھے، پھر رمضان كا چاند ديكھ كر روزہ ركھتے "
اسے دار قطنى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفوعا ثابت ہے كہ:
" رمضان كے ليے شعبان كا چاند تلاش كرو "
اسے ترمذى نے روايت كيا ہے. انتہى.
اور اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 678 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: يعنى چاند كو مطلع جات اور اس كى منازل ميں تلاش كر كے اسے شمار كرو اور احاطہ ضبط ميں لاؤ، تا كہ تم حقيقى طور پر رمضان كے چاند كو پانے ميں بصيرت پر رہو، اور اس ميں سے كچھ رہ نہ جائے " انتہى.
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" چاند ديكھنا ايك ايسا امر ہے جس كے ساتھ بعض عبادات كے اوقات مرتبط ہيں، تو اس ليے مسلمانوں كو چاند ديكھنے كى كوشش اور جدوجھد كرنى چاہيے، اور تيس شعبان كى رات كو تو چاند ديكھنا متاكد ہے، تا كہ ماہ رمضان كا علم ہو سكے، اور اسى طرح تيس رمضان كى رات بھى چاند ديكھنا چاہيے تا كہ شوال كا علم ہو سكے، اور تيس ذوالقعدۃ كى رات كو چاند ديكھا جائے تا كہ ذوالحجہ كى ابتدا كا علم ہو، تو يہ تين ماہ ايسے ہيں جن كے ساتھ اركان اسلام ميں سے دو اركان كا تعلق ہے، اور وہ روزے اور حج ہيں، اور اس ليے بھى كہ عيد الفطر اور عيد الاضحى كى تحديد ہو سكے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاند ديكھنے پر ابھارا ہے، اسى سلسلہ ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" روزے چاند ديكھ كر ركھو، اور چاند ديكھ كر ہى عيد الفطر مناؤ، اور اگر آسمان ابر آلود ہو تو پھر شعبان كے تيس روز پورے كرو "
اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مہينہ انتيس راتيں ہيں، تم چاند ديكھے بغير روزہ نہ ركھو، اور اگر آسمان ابر آلود ہو تو پھر تيس پورے كرو "
پہلى حديث نے رمضان كے روزے چاند ديكھ كر يا پھر شعبان كے تيس روز پورے كرنے كے بعد روزے ركھنے واجب كيے، اور شوال كا چاند ديكھ كر يا پھر رمضان كے تيس روزے پورے كرنے كے بعد عيد الفطر منانى واجب كى اور دوسرى حديث نے رمضان المبارك كا چاند ديكھنے، يا پھر شعبان كے ايام پورے كرنے سے قبل روزہ ركھنا منع كيا ہے.
اور ايك حديث ميں رمضان المبارك كى بنا پر شعبان كا چاند خيال سے ديكھنے كا حكم ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رمضان كے ليے شعبان كا چاند ديكھنے كى كوشش كرو "
اور ايك حديث شعبان كے مہينہ كا خيال ركھنے كا كہتى ہے تا كہ رمضان المبارك كو صحيح ضبط كيا جا سكے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم شعبان ميں وہ كچھ كيا كرتے جو كسى اور ميں نہ كرتے، اور پھر رمضان كا چاند ديكھ كر روزہ ركھتے، اور اگر آسمان ابرآلود ہوتا تو پھر ( شعبان كے ) تيس يوم پورے كرتے اور پھر روزہ ركھتے "
اس كى شرح ميں شارحين كہتے ہيں:
" يعنى: رمضان المبارك كے روزہ ركھنے كى حفاظت كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم شعبان كے ايام شمار كرنے كا تكلف كيا كرتے تھے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى اور آپ كى وفات كے بعد بھى صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم رمضان المبارك كا چاند ديكھنے كا اہتمام كيا كرتے تھے.
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" لوگوں نے چاند ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو چاند نظر آنے كى خبر دى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى روزہ ركھا اور دوسروں كو بھى روزہ ركھنے كا حكم ديا "
اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ہم مكہ اور مدينہ كے درميان عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سفر ميں تھے تو ہم نے چاند ديكھا، اور ميں بہت تيز نظر والا تھا تو ميں نے چاند ديكھا، ميرے علاوہ كوئى شخص بھى چاند ديكھنے كا گمان نہيں كرتا تھا، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
تو ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو كہنے لگا: كيا آپ نہيں ديكھ رہے ؟ تو انہيں نظر نہيں آ رہا تھا "
اور احناف نے تيس شعبان كى رات كو رمضان كا چاند ديكھنا فرض كفايہ قرار ديا ہے، اگر وہ ديكھ ليں تو روزہ ركھيں، وگرنہ وہ شعبان كے تيس ايام پورے كريں؛ كيونكہ جس كے بغير فرض پورا نہ ہوتا ہو تو وہ بھى واجب اور فرض ہوتا ہے.
اور حنابلہ كہتے ہيں:
روزہ كى احتياط اور اختلاف سے اجتناب كے ليے چاند ديكھنا مستحب ہے، اور اس مسئلہ ميں ہميں مالكيہ اور شافعيہ كى كوئى صراحت نہيں ملى " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 23 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا اگر كوئى مسلمان بھى رمضان اور شوال كا چاند ديكھنے كا اہتمام نہ كرے تو سب مسلمان گنہگار ہونگے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" رمضان يا شوال كا چاند ديكھنا صحابہ كرام كے دور سے چلا آ رہا ہے، كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى كا قول ہے:
" لوگوں نے چاند ديكھا اور ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بتايا كہ ميں نے چاند ديكھا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى روزہ ركھا، اور لوگوں كو روزہ ركھنے كا حكم ديا "
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا طريقہ سب سے كامل اور پورا و بہتر ہے " انتہى.
ماخوذ از ( 48 ) سوالا فى الصوم سوال نمبر ( 21 ).
ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ رمضان اور شوال اور ذوالحجہ كا چاند ديكھنا فرض كفايہ ہے، كيونكہ اس كے ساتھ اركان اسلام ميں سے دو ركن روزہ اور حج كا تعلق ہے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ