سوال
ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
سوال
ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
سوال
کیا نصف شعبان کی رات کو جشن منانا جائز ہے؟ صرف اس لئے کہ کچھ ممالک میں یہ رسم ثقافتی وراثت کا درجہ حاصل کرچکی ہے، وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے ملکوں میں کچھ لوگ بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، جو ہمارے ہاں صرف اس لئے ہے کہ رمضان کا مہینہ قریب آگیا ہے، چنانچہ اگر جشن بچوں میں مٹھائی تقسیم کرنے کی شکل میں ہو تو کیا اس رات جشن منانے میں کوئی حرج ہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
نصف شعبان کی رات جشن منانا جائز نہیں ہے، چاہے یہ جشن اس رات قیام اللیل ، ذکر الہی، یا تلاوت قرآن کی شکل میں ہو، یا کھانا کھلانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کی صورت میں ہو۔
اس لئے کہ صحیح سنت نبوی میں اس رات کو عبادات یا خاص رسم ورواج کیساتھ منسلک کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ چنانچہ نصف شعبان کی رات دیگر راتوں کی طرح ہی ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
اس اللہ تعالى كى تعريف ہے جس نے ہمارے ليے دن كو مكل كيا، اور ہم پر اپنى نعمتيں پورى كيں، اور اس كے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام ہو جو توبہ اور نبى رحمت ہيں.
اما بعد:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ ميں نے آج كے دن تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنا انعام بھر پور كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں ﴾المائدۃ ( 3 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ كيا ان لوگوں نے ( اللہ تعالى كے ) ايسے شريك ( مقرر كر ركھے ) ہيں جنہوں نے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ تعالى كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں ﴾الشورى ( 21 ).