رجب كى ستائيسويں رات كو اسراء و معراج كا جشن منانے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اسراءاور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانيوں ميں سے ہے جونبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم كى صداقت اوراللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتي ہے، نيز اس سے اللہ عزوجل كى حيرت کن قدرت اور اس کے اپني تمام مخلوقات پر عالى وبلند ہونے کاثبوت ملتا ہے.
اللہ تعالى نے فرمايا:
سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي بارکنا حوله لنريه من آياتنا إنه هوالسميع البصير الاسراء (1).
پاک ہے وہ اللہ تعالى جواپنے بندے کو رات ہي ميں مسجد حرام سے مسجد اقصى تک لے گيا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھي ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپني قدرت کے بعض نمونے دکھائيں، يقينا اللہ تعالى ہي خوب سننے والا اور ديکھنے والا ہے.
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو آسمان پر لے جاياگيا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے يہاں تک کہ ساتويں آسمان سے آگے گزر گئے، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائي اور پانچ وقت كى نمازيں فرض کيں، اللہ عزوجل نے پہلے پچاس وقت كى نمازيں فرض کيں تھيں،پھر ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفيف کا سوال کرتے رہے يہاں تک کہ اللہ تعالى نے اسے باعتبار فرضيت پانچ وقت كى کرديا اوراجر وثواب پچاس نمازوں ہي کا باقي رکھا، کيونکہ ہر نيكى دس گنا بڑھائي جاتي ہے لہذا اللہ تعالى ہي تمام تر نعمتوں پر حمد وشکر کا سزا وار ہے.
يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے، بلکہ اس كى تعيين ميں جو روايتيں بھي آئي ہيں محدثين کے نزديک نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہيں، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلا دينے ميں اللہ تعالى كى کوئي بڑي حکمت ضرور پوشيدہ ہے، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھي ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اسےكسىعبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئي جشن منايا اور نہ ہي اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوي يا عہد صحابہ ميں ايسي کوئي چيز ہوتي تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتي اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کيونکہ انہوں نے نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائي جس كى امت کو ضرورت تھي، اوردين کے كسى بھي معاملہ ميں کوئي کوتاہي نہ كى بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھےچنانچہ اگر اس شب ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئي شرعي حيثيت ہوتي تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے.
محبت کا تہوار ( ویلنٹائن ڈے ) منانا
محبت کا تہوار ( ویلنٹائن ڈے ) منانا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سب تعریفات اللہ رب العالمین کےلیے ہیں جوسب کا پرروردگار ہے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پردرود وسلام ہوں اوران کی آل اورسب صحابہ کرام پراللہ تعالی کی رحمتوں کا نزول ہو۔
اما بعد :
اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمارے لیےاسلام کودین اختیار کیا ہے اوروہ کسی سے بھی اس دین کے علاوہ کوئي اوردین قبول نہيں کرے گا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
{ اورجوکوئي دین اسلام کے علاوہ کوئي اوردین چاہے گا اس سے اس کا وہ دین قبول نہيں کیا جائےگا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا } آل عمران ( 85 ) ۔
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہ بتایا ہے کہ ان کی امت میں سے کچھ لوگ ایسےہونگے جواللہ تعالی کے دشمنوں کے بعض شعائر اوردینی علامات وعادات میں ان کی پیروی اوراتباع کرینگے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں اس کا ذکر ملتا ہے :
ابوسعیدخدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی بالشت بربالشت اورہاتھ برہاتھ پیروی کروگے ، حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے توتم بھی ان کی پیروی میں اس میں داخل ہوگے ، ہم نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم : کیا یھودیوں اورعیسائیوں کی ؟ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورکون ؟ ! ) امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لتتبعن سنن من کان قبلکم میں روایت کیا ہے دیکھیں صحیح بخاری ( 8 / 151 ) ۔
ویلنٹائن ڈے منانے کا حکم
سوال
ویلنٹائن ڈے منانے کا کیا حکم ہے؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
پہلی بات:
ویلنٹائن ڈے رومانوی جاہلی دن ہے، اس دن کا جشن رومانیوں کے عیسائیت میں داخل ہونے کے بعد بھی جاری رہا، اس جشن کو ایک ویلنٹائن نامی پوپ سے جوڑا جاتا ہے جسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا تھا، کفار ابھی بھی اس دن جشن مناتے ہیں، اور برائی و بے حیائی عام کرتے ہیں۔