اللہ سے سرى عادت ( مشت زنى ) ترك كرنے كا وعدہ كيا اور اسے دوبارہ كر ليا تو اس پر كيا لازم آتا ہے ؟

 

 

 

 

ميں سوال لكھ رہا ہوں اور اللہ تعالى كے حق ميں كمى و كوتاہى اور اپنے كيے پر بہت نادم ہوں ـ : وہ يہ كہ ميں ايك خبيث اور گندى عادت ( مشت زنى ) كا شكار تھا ـ اللہ آپ كو عزت دے ـ كچھ ہى عرصہ ہوا ميں نے اسے ترك كيا ہے، اللہ تعالى سے دعا كريں كہ وہ مجھے ثابت قدمى عطا فرمائے.
ميں بالكل صراحت كے ساتھ كہا كرتا تھا: ميرے رب ميں تجھ سے وعدہ كرتا ہوں كہ آئندہ اس خبيث عادت كى طرف پلٹ كر بھى نہيں ديكھوں گا" ؛ و ليكن پھر كرنے لگتا ـ اللہ كى قسم ـ ايسا اللہ تعالى كے ساتھ بطور استھزاہ نہيں كرتا تھا، بلكہ مجھے شيطان گمراہ كرتا تھا.
ميرى گزارش ہے كہ آپ يہ بتائيں كہ اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ خلافى كرنے كى بنا پر ميرے ذمہ كيا لازم آتا ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے

الحمد للہ :

سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں مشت زنى كى برى اور قبيح عادت كى حرمت بيان ہو چكى ہے، اور اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كى كيفيت بھى بيان ہوئى ہے، لھذا آپ اس سوال كا جواب ضرورى پڑھيں.

اور مسلمان شخص كے ليے لازم نہيں كہ اللہ تعالى كى كسى حرام كردہ چيز كو ترك كرنے كے ليے عہد اور نذر مانتا پھرے، بلكہ اسے تو صرف اتنا ہى كافى ہے كہ اسے اس كى حرمت كا علم ہو جائے تا كہ مسلمان شخص اس سے اجتناب كرے اور اس كے نزديك بھى نہ جائے.

اور جب وہ اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ كر لے يا پھر نذر مانے كہ وہ حرام كام كا ارتكاب نہيں كرے گا اور پھر حرام كام كا ارتكاب كر لے تو اسے حرام كام كے ارتكاب كا گناہ تو ملنا ہى ہے ليكن اس كے ساتھ ساتھ وعدہ خلافى، اور قسم توڑنے اور نذر پورى نہ كرنے كا بھى گناہ ہو گا.

اور پھر اللہ تعالى نے تو معاہدے اور عہد كو پورا كرنا واجب قرار ديا ہے ، اسى كے متعلق اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور عہد كو پورا كرو، كيونكہ عہد كے بارہ ميں باز پرس ہونے والى ہے ﴾.

جصاص رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

﴿ اور عہد پورا كرو ﴾. يعنى ـ واللہ اعلم ـ اس نے جو اللہ تعالى كے ساتھ نذر مان كر اور اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے وعدہ كيا ہے اسے پورا كرنا واجب ہے، تو اللہ تعالى نے اسے پورا كرنا لازم قرار ديا ہے، اور يہ بالكل اللہ تعالى كےمندرجہ ذيل فرمان كى طرح ہے:

﴿ اور ان ميں سے كچھ وہ ہيں جنہوں نے اللہ تعالى سے وعدہ كيا كہ اگر وہ ہميں اپنے فضل سے عطا كرے گا تو ہم صدقہ كرينگے، اور نيك و صالح لوگوں ميں سے بن جائيں گے، اور جب اللہ نے انہيں اپنے فضل سے عطا كيا تو انہوں نے اس ميں بخل كرنا شروع كرديا، اور اعراض كرتے ہوئے پھر گئے، تو اللہ تعالى نے اس كى سزا ميں ان كے دلوں ميں نفاق ڈال ديا ﴾.

ديكھيں: احكام القرآن للجصاص ( 3 / 299 ).

اور سرخسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

وعدہ پورا كرنا واجب اور ضرورى ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اللہ تعالى كے وعدہ كو پورا كرو جب تم اس سے عہد كرو ﴾.

اور وعدہ پورا نہ كرنے والے كى مذمت كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمايا:

﴿ اور ان ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو اللہ تعالى سے وعدہ كرتے ہيں ﴾ الآيۃ ...

ديكھيں: المبسوط ( 3 / 94 ).

اور جس نے بھى اللہ تعالى كے ساتھ كسى فعل كے كرنے كا عہد كيا اور پھر وہ عمل نہ كيا، يا اللہ تعالى سے وعدہ كيا كہ وہ عمل نہيں كرے گا اور پھر وہ عمل كر ليا تو اس پر وعدہ توڑنے كا گناہ ہو گا اور اس كے ذمہ قسم كا كفارہ ہے، لہذا عہد قسم اور نذر كے مترادف ہے.

اور جس نے بھى ان دونوں كو توڑا اس كے ذمہ قسم كا كفارہ ہے، اور قسم كا كفارہ يہ ہے:

غلام آزاد كرنا، يا دس مسكينوں كو كھانا ديا، يا انہيں لباس دينا، ان ميں سے كوئى ايك اختيار كرے، اور جو ان تينوں ميں سے كوئى ايك نہ پائے يا اس كے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ شخص تين يوم كےروزے ركھے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر كوئى شخص يہ كہے كہ: ميرے اوپر اللہ كا عہد اور ميثاق ہے كہ ميں يہ كام ضرورى كرونگا، يا وہ يہ كہے: اللہ كا وعدہ اور اس كا ميثاق كہ ميں يہ كام ضرورى كرونگا، تو يہ قسم ہے، اور اگر وہ يہ كہے: اللہ كا عہد اورميثاق ميں يہ كام ضرورى كرونگا، اور اس نے نيت عہد كى كى تو يہ قسم ہو گى؛ كيونكہ اس نے اللہ كى صفات ميں سےايك صفات كے ساتھ قسم كى نيت كى ہے.

ديكھيں: الغنى لابن قدامہ المقدسى ( 9 / 400 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عہد اور عقود قريب المعنى ہيں، يا متفق المعنى ہيں، لہذا اگر كوئى شخص يہ كہتا ہے كہ:

ميں اللہ تعالى سے عہد كرتا ہوں كہ اس برس حج كرونگا، تو يہ نذر اور عہد اور قسم ہے.

اور اگر وہ يہ كہتا ہے كہ: ميں زيد سے كلام نہيں كرونگا، تو يہ قسم اور عہد ہے نہ كہ نذر.

لہذا قسم نذر كا معنى ركھتى ہے، نذر يہ ہے كہ وہ اللہ تعالى كے قرب كے ليے كوئى عمل لازم كر لے جس كا پورا كرنا لازم اور ضرورى ہے، اور يہ معاہدہ اور عہد اور وعدہ ہے، كيونكہ اس نے اللہ تعالى كے ليے اس چيز كا التزام كيا ہے جو اللہ تعالى نے اس سے طلب نہيں كى.

ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 5 / 553 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما، اور امام مالك، عطاء، زہرى، نخعى، شعبى، يحيى بن سعيد رحمہم اللہ تعالى كا بھى يہى قول ہے، جيسا كہ " المدونۃ" ميں مذكور ہے.

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 579 - 580 ).

جواب كا خلاصہ:

آپ كے ذمہ قسم كا كفارہ ہے كيونكہ آپ نے اللہ تعالى كے ساتھ كيا ہوا عہد توڑا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو تقوى اور ہدايت اور عفت و عصمت اور غنى سے نوازے.

واللہ اعلم .

.

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ