اذان كا جواب ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا
مؤذن اذان دے رہا ہو اور جب وہ اشھد ان محمدا رسول اللہ پر پہنچے اور اس كے جواب سننے والے نے بھى يعنى ميں نے اشھد ان محمدا رسول اللہ كہا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجا تو مجھے ايك شخص نے كہا يہ بدعت ہے، تو كيا يہ كلام صحيح ہے دليل كے ساتھ بيان كريں ؟
ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آنے پر درود اس ليے پڑھا كہ ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك حديث سن ركھى ہے جس كا معنى يہ ہے:
" جس كے پاس ميرا نام ليا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو وہ بخيل ہے "
جناب مولانا صاحب ميں اس حالت ميں كيا كروں، برائے مہربانى مفيد جواب سے نوازيں ميں تھك گيا ہوں كيا ميرا يہ فعل بدعت شمار ہو گا ؟
الحمد للہ:
شرعى دعاؤں اور اذكار ميں جن كا كسى معين حال كے ساتھ تعلق ہو انہيں اسى طرح ادا كرنا واجب ہے جس طرح كتاب و سنت سے ثابت ہيں، اس ميں كوئى زيادتى يا كمى نہيں كى جا سكتى.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اذكار كے الفاظ توقيفى ہيں، اور اس كے خصائص و اسرار بھى ہيں جن ميں كوئى كسى قسم كا قياس داخل نہيں ہو سكتا، اس ليے جس طرح الفاظ وارد ہيں اسى طرح ا نكى ادائيگى كرنا واجب ہے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 112 ).
اس قاعدہ اور اصول كى دليل براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ كى وہ حديث جس ميں بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے انہيں سوتے وقت ايك دعا پڑھنے كے ليے سكھلائى تو انہوں نے اس كے كچھ الفاظ ميں تبديلى كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ٹوكتے ہوئے فرمايا كہ وہى الفاظ كہو جو ميں نے تجھے سكھائے ہيں حديث درج ذيل ہے:
براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم سونے كے ليے اپنے بستر پر جاؤ تو نماز كے وضوء كى طرح وضوء كر كے اپنے دائيں پہلو پر ليٹ جاؤ پھر يہ دعا پڑھو:
" اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ "
اے اللہ ميں اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا، اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديا، اور اپنا چہرہ تيرى طرف پھير ليا تيرى رغبت كرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے نہ تجھ سے پناہ كى جگہ ہے اور نہ كوئى بھاگ كر مگر تيرى طرف، ميں تيرى كتاب پر ايمان لايا اور تيرے نبى پر ايمان لايا جسے تو نے بھيجا "
اگر تمہيں اس رات موت آ جائے تو تم فطرت پر ہو، اور يہ كلمات تمہارے آخرى كلمات ہوں اس كے بعد كسى سے بات مت كرو، براء بن عازب بيان كرتے ہيں تو ميں نے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے دہرائى اور جب اللھم آمنت بكتابك الذى انزلت پر پہنچا تو ميں نے اس كے بعد رسولك كہہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں كہو و نبيك الذى ارسلت "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 247 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2710 ).
سنت اور بدعت كے متعلق سلف رحمہ اللہ كى طريقہ ہميشہ احتياط ہے، اور ثابت شدہ سنت پر عمل كا التزام كرنا، اور بدعت ميں پڑنے سے خوفزدہ رہنا.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت پر اقتصار كرنا بدعت ميں اجتھاد كرنے سے بہتر ہے " انتہى
اسے طبرانى نے معجم الكبير ( 10 / 208 ) ميں روايت كيا ہے.
اسى ليے بعض صحابہ كرام نے مشروع عمل سے زيادہ كرنے والے شخص كو روكا؛ نافع بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے چھينك مارى تو كہنے لگا: الحمد للہ و السلام على رسول اللہ پاس ہى ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيٹھے ہوئے تھے وہ كہنے لگے:
" اور ميں كہتا ہوں: الحمد للہ و السلام على رسول اللہ، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسے نہيں سكھايا بلكہ انہوں نے ہميں سكھايا كہ ہم چھينك كے بعد " الحمد للہ على كل حال " كہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2738 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كرام كو دعائيں الفاظ كے ساتھ سكھاتے، اور انہيں اسى طرح حفظ كرانے كى كوشش كرتے جس طرح اللہ نے انہيں وحى كيا تھا، اور جس طرح وہ انہيں قرآن مجيد كى سورۃ سكھاتے اسى طرح دعائيں بھى تا كہ وہ اللہ كے ہاں اس كى بركت اور فضيلت حاصل كر سكيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے يہ تشھد اس طرح سكھائى جس طرح قرآن مجيد كى سورۃ سكھائى جاتى ہے اور ميرا ہاتھ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دونوں ہاتھوں كے درميان تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6265 ).
ان دعاؤں ميں اذان كا جواب بھى شامل ہے جس كى تعليم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دى، كئى ايك احاديث ميں اس كا ذكر ملتا ہے، يہ سب احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ جس طرح مؤذن كہتا ہے وہى الفاظ كہنے كا التزام كرنا چاہيے اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ بغير كسى زيادتى اور نقصان كے اسى طرح كہنا چاہيے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم اذان سنو تو مؤذن كى طرح تم بھى كہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 611 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 383 ).
اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب مؤذن اللہ اكبر اللہ اكبر كہے تو تم ميں ايك اللہ اكبر اللہ اكبر كہے، پھر مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ كہے تو وہ بھى اشھد ان لا الہ الا اللہ كہے، پھر مؤذن اشھد ان محمدا رسول اللہ كہے تو وہ بھى اشھد ان محمدا رسول اللہ كہے، پھر مؤذن حي على الصلاۃ كہے تو وہ لاحول و لا قوۃ الا باللہ كہے، پھر مؤذن حي على الفلاح كہے تو وہ لاحول و لا قوۃ الا باللہ كہے، پھر مؤذن اللہ اكبر اللہ ا كبر كہے تو وہ بھى اللہ اكبر اللہ اكبر كہے، پھر مؤذن لا الہ الا اللہ كہے تو وہ بھى لا الہ الا اللہ دل سے كہے تو جنت ميں داخل ہو گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 385 ).
سوال كرنے والے بھائى ذرا آپ بھى ميرے ساتھ غور كريں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مؤذن كا جواب دينے كى تعليم كس طرح تفصيل كے ساتھ دى، يہ اس بات كى دليل ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں جو سكھايا اور جس كى تعليم دى ہے بغير كسى زيادتى و نقصان كے اس كا التزام كرنا چاہيے، وگرنہ اس سارى تفصيل اور بيان كا كوئى فائدہ ہى نہيں رہتا!
اور پھر صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مقصود بھى سمجھ ليا اسى ليے وہ اسى كا التزام كرتے تھے جس كى انہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تعليم دى تھى، اور وہ الفاظ ميں كوئى اجتھاد نہيں كرتے تھے.
امام بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ عيسى بن طلحہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ہم معاويہ رضى اللہ تعالى عنہم كے پاس گئے تو مؤذن نے نماز كے ليے اذان كہى اور اللہ اكبر اللہ اكبر كہا تو معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اللہ اكبر اللہ اكبر كہا، مؤذن نے اشھد ان لا الہ الا اللہ كہا تو معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى اشھد ان لا الہ الا اللہ كہا مؤذن نے كہا: اشھد ان محمدا رسول اللہ تو معاويہ رضى اللہ نے بھى اشھد ان محدا رسول اللہ كہا.
يحى كہتے ہيں ہمارے ايك دوست نے ہميں بتايا كہ جب مؤذن نے حي على الصلاۃ كہا تو معاويہ رضى اللہ نے لا حول و لا قوۃ الا باللہ كہا، پھر كہنے لگے ہم نے تمہارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم وسلم سے اسى طرح سنا ہے "
سنن الكبرى للبيھقى ( 1 / 409 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ مؤذن كى اذان كا جواب ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كى زيادتى نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ نہيں سكھايا، اور اسى طرح صحابہ كرام نے سے بھى كسى ايك سے ثابت نہيں كہ انہوں نے اذان كے جواب ميں كچھ زيادہ كيا ہو.
ہر مسلمان شخص اس پر ايمان ركھتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا افضل ترين قرب والا عمل ہے اور بہترين اطاعت ہے، ليكن يہ ہے كہ اذكار اور دعاؤں كى جگہ مشروع ہے، اس ليے اس ميں زيادتى اور حد سے تجاوز نہيں كرنا چاہيے.
ابن قيم رحمہ اللہ نے " جلاء الافھام " ميں وہ سب مقام ذكر كيے ہيں جہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا مشروع ہے، اور ان ميں درج ذيل مقام بھى ذكر كيے ہيں:
" تشھد ميں، اور دعا قنوت كے آخر ميں، اور نماز جنازہ ميں اور خطبہ ميں، اور دعاء كے وقت، اور ان ميں انہوں نے اذان كے دوران ذكر نہيں كيا، بلكہ مؤذن كى اذان كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجا جائيگا.
ديكھيں: جلاء الافھام ( 327 - 445 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" اگرچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا افضل ترين قرب والا عمل ہے، اور اللہ كو بہت زيادہ محبوب ہے، ہر دعا اور ذكر كى كوئى جگہ مقرر اور مخصوص ہے، اس كے قائم مقام كوئى اور نہيں ہو سكتى، علماء كا كہنا ہے كہ اسى ليے ركوع اور سجود ميں اور ركوع كے بعد كھڑے ہو كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود نہيں پڑھا جا سكتا " انتہى
ديكھيں: جلاء الافھام ( 1 / 424 ).
جى ہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كى بہت زيادہ تاكيد اور تشديد بيان ہوئى ہے اس ميں بہت سارى احاديث وارد ہيں جن ميں چند ايك درج ذيل ہيں:
حسين بن على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كے پاس ميرا ذكر كيا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو وہ شخص بخيل ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3546 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 1 / 35 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس شخص كا ناك خاك ميں ملے جس كے پاس ميرا ذكر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3545 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ليكن علماء كرام نے ان احاديث كى شرح اور ان كے مقاصد بيان كيے ہيں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آنے پر درود پڑھنے كو واجب كہتے جب بھى نام آئے درود پڑھنا چاہيے انہوں نے ان احاديث پر عمل كيا ہے؛ كيوكہ بعد و شقاوت اور بخل كا وصف اور خاك آلود ہونے كى دعا، اور جفاء و سختى يہ سب الفاظ وعيد كا تقاضا كرتے ہيں، اور وعيد وجوب ترك كرنے كى علامت ہے.
جو وجوب كے قائل نہيں انہوں نے اس كے كئى ايك جواب ديے ہيں:
يہ ايسا قول ہے جو نہ تو كسى صحابى سے معروف ہے اور نہ ہى كسى تابعى سے، بلكہ يہ قول اپنى اختراع ہے، اگر اپنے عموم پر ايسا ہوتا تو مؤذن جب اذان ديتا ہے تو اس كے ليے بھى لازم ہوتا اور اسى طرح سننے والے پر بھى اور پڑھنے والے پر بھى جب قرآن مجيد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام گزرے، اور اسلام ميں داخل ہونے والے كے ليے بھى لازم ہوتا كہ جب وہ كلمہ پڑھے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجے، تو اس طرح يہ مشقت اور حرج كى بات تھى حالانكہ شريعت مطہرہ تو آسان ہے اس نے ايسا حكم نہيں ديا.
اور پھر جب اللہ تعالى كا نام آنے كى صورت ميں تو زيادہ حق ركھتا ہے كہ اللہ جل شانہ كى ثنا كرنى واجب ہو، حالانكہ انہوں نے اس كو واجب نہيں كہا.
احناف ميں سے قدورى وغيرہ نے مطلقا كہا ہے كہ جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے آپ پر درود بھيجنے كے وجوب والا قول اجماع كے مخالف ہے جو اس قائل كے قول سے قبل منعقد ہو چكا ہے؛ كيونكہ كسى بھى صحابى سے يہ منقول نہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مخاطب كرتے ہوئے اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليك كے الفاظ كہيں ہوں، اور اگر ايسا ہوتا تو سننے والا دوسرى عبادت كے ليے فارغ ہى نہيں ہو سكتا.
انہوں نے ان احاديث كا جواب يہ ديا ہے كہ:
يہ احاديث مبالغہ اور تاكيد پر دلالت كرتى ہيں، اور اس شخص كے متعلق ہيں جس كى عادت بن چكى ہو كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود نہ پڑھتا ہو " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 168 - 169 ).
تو پھر اس موضوع كے متعلق جتنى بھى احاديث وارد ہيں ان سے مراد مشروع جگہ مراد ہونگى، يا پھر ان مجالس ميں جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام ليا جائے، اس سے يہ مراد اور مقصود نہيں كہ جب بھى كلمہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے تو درود پڑھنا واجب ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ " جلاء الافھام " ميں جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے درود پڑھنے كے وجوب كے قائل كا رد كرتے ہوئے رقمطراز ہيں:
" پہلا:
يہ تو معلوم ہے جس ميں كوئى شك نہيں كہ سلف صالحين جو قدوہ و نمونہ ہيں ان ميں سے كوئى ايك بھى ہر بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آنے پر درود نہيں پڑھتا تھا كہ جب بھى آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے تو وہ اس كے ساتھ درود ملاتا ہو، اور يہ ان كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مخاطب كرنے كے وقت ہوتا تھا يہ ايك ايسى دليل ہے جس كو ذكر كرنے كى بھى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ وہ آپ كو مخاطب كرتے ہوئے " اے اللہ تعالى كے رسول " كے الفاظ پر ہى انحصار كيا كرتے تھے، كبھى ہو سكتا ہے كسى نے صلى اللہ عليك كے لفظ بولے ہوں، اور يہ احاديث ميں ظاہر اورا كثر ملتا ہے كہ وہ يہى الفاظ كہا كرتے تھے اور اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا جب بھى نام آئے تو ان پر درود پڑھنا واجب ہوتا تو ان كے ترك كرنے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں ٹوكتے اور اس پر انكار ضرور كرتے.
دوسرا:
اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كانام آنے پر ہر بار درود پڑھنا واجب ہوتا تو يہ ظاہر ترين واجبات ميں شامل ہوتا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے اپنى امت كے ليے ضرور بيان فرماتے جس سے قطعى طور پر عذر جاتا رہتا اور حجت قائم ہو جاتى.
تيسرا:
وجوب كا قول نہ تو كسى صحابى سے اور نہ ہى كسى تابعى سے معروف ہے، اور نہ ہى يہ معروف ہے كہ ان ميں سے كسى ايك نے يہ كہا ہو.
چوتھا:
جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے تو درود پڑھنا واجب ہوتا تو مؤذن پر بھى واجب تھا كہ جب وہ اشھد ان محمدا رسول اللہ كہے تو وہ صلى اللہ عليہ وسلم كہتا، اور اذان ميں ايسا كرنا مشروع نہيں چہ جائيكہ اسے واجب كہا جائے.
پانچواں:
اسى طرح اذان سن كر جواب دينے والے پر بھى واجب ہوتا كہ وہ اشھد ان محمدا رسول اللہ سن كر صلى اللہ عليہ وسلم كہتا حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سننے والے يہ حكم ديا ہے كہ وہ بھى مؤذن كى طرح ہى كہے، يہ اس بات كى دليل ہے كہ وہ ان كلمات " اشھد ان لا الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ " پر ہى اقتصار كرے، كيونكہ يہى مؤذن كى مثل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: جلاء الافھام ( 1 / 393 - 394 ).
اور كتب شافعيہ كى كتاب " تحفۃ المحتاج " ميں درج ہے:
" اگر نمازى نے كوئى ايسى آيت تلاوت كى يا سنى جس ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا نام ہو اور وہ آپ پر درود پڑھتے ہوئے صلى اللہ عليہ وسلم كہے تو مصنف ( امام نووى ) كے فتوى كے مطابق اس كا يہ درود پڑھنا مستحب نہيں " انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 2 / 65 ).
اور حافظ ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ " الفتاوى الفقھيۃ الكبرى " ميں رقمطراز ہيں:
" ان سابقہ احاديث جيسى ہى اور دوسرى احاديث بھى وارد ہيں، اور ہم ان ميں سے كسى حديث ميں بھى يہ بيان نہيں ہوا كہ اذان سے قبل اور اذان ميں اشھد ان محمدا رسول اللہ كے بعد درود پڑھا جائے، اور ہمارے نزديك ہمارے آئمہ كى كلام ميں ايسا بيان نہيں ہوا.
تو پھر ان دونوں ميں سے ہر ايك جگہ درود پڑھنا سنت نہ ہوا، اس ليے جو شخص بھى ان دونوں مقام پر اس كے سنت ہونے كا اعتقاد ركھتے ہوئے درود پڑھے تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا جائيگا اور روكا جائيگا، كيونكہ اس نے بغير كسى دليل كے اسے مشروع كيا ہے، اور جو بغير دليل كے كوئى كام مشروع كر لے اسے اس سے روكا جائيگا اور منع كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 1 / 131 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى ہے:
" اور اسى طرح بعض لوگ اذان ميں " لا الہ الا اللہ " كہتے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كا اضافہ كرتے ہيں اور اذان كے ساتھ يہ بھى بلند آواز سے كہتے ہيں، يا پھر لاؤڈ سپيكر ميں كہتے ہيں يہ جائز نہيں بلكہ بدعت بھى ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 10 / 334 ).
ليكن اگر سننے والا بعض اوقات ايسا كر لے اور اس كى عادت نہ بنائے اور التزام نہ كرے، اور اسے حالت كے ساتھ مقيد اذكار شمار نہ كرتا ہو، يا پھر اسے اذان كے مشروع جواب ميں شمار نہ كرتا ہو تو ہم اميد ركھتے ہيں كہ اس ميں كوئى حرج نہيں، اور ان شاء اللہ يہ معاملہ بدعت كى حد تك نہيں پہنچتا.
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ