دین حق کی تلاش کرنے والی کے شکوک شبہات

میں غیرمسلم عورت ہوں لیکن اسلام کا بہت زيادہ اہتمام کرتی ہوں بحث وتمحیث کے دوران میرے سامنے کچھ معلومات آئيں جنہوں نے مجھے حیرت زدہ کردیا وہ معلومات کعبہ اوراسلام کی اصل کے بارہ میں ہیں ۔
مجھے یہ کہا گیا ہے کہ ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام نے کعبہ سے سب بت ختم کردیے ، لیکن ایک معین بت جس کانام " الالہ " تھا ، میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ یہی وہ اسم ہے جس سے اللہ کا اسم مشتق ہے ، اوریہ الہ بت پرستی کے دورمیں چاند کا الہ تھا جس کا نشان چاند ہے ، اوریہ کہ رمضان کا مہینہ چاند کے مدار کی تحدید کرتا ہے ۔
میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ آیا اس طرح کا کوئ دین موجود تھا کہ نہیں ؟ اورکیا اسلام حقیقتا اس بت پرستی کی عادت کے ساتھ ملتا ہے ؟

الحمد للہ
اے حق کی متلاشی اوراسلام کا اہتمام کرنی والی سائلہ آپ کوخوش آمدید اھلاو سہلاو مرحبا ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ تجھے حق کوحق دکھاۓ اوراس کی اتباع و پیروی کرنے کی توفیق دے ، اورآپ کوشیطان اوراس کے شبہات اوردشمنان اسلام کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے ۔

آپ کے سوال کا جواب دینے سے قبل میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کویاد دلاتا چلوں کہ دین کی حقیقت کوجاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے مصادر اصلیہ کی طرف رجوع کیا جاۓ اوران کا مطالعہ کیا جاۓ ، اوردین اسلام کے مصادر اصلیہ ، اللہ تعالی کی کلام قرآن مجید اورسنت نبویہ جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام اوراللہ تعالی کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی ہے ۔

اوربعض اسلام کی بحث یا ریسرچ کرنے والے لوگ جس غلطی کا شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ اسلامی معلومات کوان مصادر سے حاصل کرتے ہیں جوغیرثقہ اورصحیح نہیں ہوتے ، یا پھر ان کی معلومات اسلام دشمن مقالہ نگاروں اور لالچی قسم کے مقالہ نگاروں کے مقالہ جات سے حاصل کی گئ ہوتی ہیں جواسلام کے خلاف جھوٹ پھیلاتے ہیں تا کہ عام لوگ اسلام سے نفرت کرنے لگیں اوراس سے دور بھاگیں اورلوگوں کواللہ تعالی کے راستے سے روکیں ۔

اورآپ کا کعبہ اورابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے بارہ میں سوال بہت ہی عجیب وغریب ہے وہ یہ کہ ابراہیم اوراسماعیل علیہ السلام نے کعبہ سے سب بت توڑ دیے اورایک بت باقی رکھا ، یہ ایک ایسی کلام ہے جو تاریخی حقا‏ئق کے بھی خلاف ہے اوراسے عقل بھی اصلا تسلیم نہیں کرتی ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کے حکم سے کعبہ مشرفہ کی تعمیر کرنے والے ابراہیم اوراسماعیل علیہما السلام ہی تھے تووہ بتوں کوکیسے نکالتے ؟

اورپھردوسری بات یہ ہے کہ اس میں بت ہوبھی کیسے سکتے تھے جس میں تعمیر کی نگرانی کرنے والے بھی وہ دونوں اوراسے کی تعمیر بھی اللہ تعالی کے حکم سے ہو‏ئ اورلوگوں کوبیت اللہ کے طواف اورحج کی دعوت بھی دی گئ جوکہ صرف اورصرف اللہ تعالی کی توحید کے لیے ہے ۔

بلکہ یہ بتوں کا سلسلہ توبہت بعد کی پیداوار ہے جب کچھ عرب لوگوں نے جزیرہ عربیہ سے باھر کفار کے ممالک میں قدم رکھا اورکئ ایک سفر کیے تو انہوں نے وہا ں سے اپنے ساتھ بتوں کواٹھا کرچزیرہ عربیہ میں داخل کرکے کچھ کوکعبہ کے ارد گرد رکھا اورکچھ عرصہ بعدمشرکین نے ان میں کچھ بتوں کا اوربھی اضافہ کردیا گيا حتی کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گۓ ۔

اورجب اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیا توتوحید کاسورج طلوع ہوا اوربت پرستی کا اندھیرا چھٹنا شروع ہوا اوراللہ تعالی نے مشرکون کونیست نابود کیا اورانہیں شکست و ھزیمت سے دوچارکرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفتح نصیب فرمائ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت ان سب بتوں کوتوڑ کربیت اللہ کوان سے پاک صاف کردیا اورکعبہ پھر اپنی اسی حالت پرلوٹ آیا کہ اس میں توحید کا پرچار ہونے لگا اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جانے لگی جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام کے دورمیں تھا ۔

ذیل میں ہم آپ کے سامنے بیت اللہ کی تعمیر کا قصہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی بیان کرتے ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورجب ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے میرے رب تواس جگہ کو امن و سلامتی والا شہر بنا اوریہاں کے باشندوں کوجو اللہ تعالی اورقیامت کے دن پرایمان رکھنے والے ہوں پھلوں سے روزیاں عطا فرما ، اللہ تعالی نے فرمایا : میں کافروں کوبھی تھوڑا بہت فائدہ دوں گا پھرانہیں آگ کے عذاب کی طرف بے بس کردوں گا اوریہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے ۔

ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام کعبہ کی بنیادیں اور دیواريں اٹھاتے جاتے تھے اورکہتے جا رہے تھے کہ ہمارے پروردگار ! تو ہم سے قبول فرما توہی سننے والا جاننے والا ہے ۔

اے ہمارے رب ! ہمیں اپنا مطیع اورفرمانبردار بنالے اورہماری اولاد میں بھی ایک ایسی جماعت کواپنی اطاعت گذار رکھ اورہمیں اپنی عبادت سکھا اورہماری توبہ قبول فرما ، توتوبہ قبول کرنے والا اوررحم وکرم کرنے والا ہے ۔

اے ہمارے رب ! ان میں انہیں میں سے ایک ایسا رسول بھیج دے جوان کے پاس تیری آيتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھاۓ اورانہیں پاک کرے یقینا تو غلبہ والا اورحکمت والا ہے } البقرۃ ( 126 - 129 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورجبکہ ہم ابراھیم علیہ السلام کوکعبہ کےمکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع ، اورسجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ، اورلوگوں میں حج کی منادی کردیں لوگ آپ کے پاس پاپیادہ بھی آئيں گے اوردبلے پتلے اونٹوں پربھی وہ دور دراز کی تمام راہوں سے آئيں گے } الحج ( 26 - 27 ) ۔

کعبہ کی تعمیر کا قصہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ اس طرح ہے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما ابراھیم اوران کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام اوربیوی ھاجر رضي اللہ تعالی عنہ کے قصہ کی روایت بیان کرتے ہيں کہ :

ابراھیم علیہ السلام نے اپنی بیوی ھاجر اوردودھ پیتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کومکہ میں بیت اللہ کے قریب اورزمزم کے اوپر ایک بڑے سے درخت کے نیچے لا کر چھوڑا اوران کے پاس ایک پانی کا مشکیزہ اور کھجروں کے تھیلی رکھی جبکہ ان دنوں مکہ میں کوئ بھی نہ تھا اورنہ ہی پانی کا نام ونشان تھا ۔

جب ابراھیم علیہ السلام جانے کے لیے واپس مڑے توام اسماعیل ان کے پیچھے گئيں اورکہنے لگی اے ابراھیم آپ ہمیں اس وادی میں چھوڑ کرکہاں جارہے ہیں جہاں پر نہ کوئ انسان اورنہ ہی کوئ چيز ہے توابراھیم علیہ السلام نے کوئ توجہ نہ دی ھاجرعلیہ السلام نے کئ بار ان سے یہ پوچھا اورجب ابراھیم علیہ السلام نے توجہ نہ دی تووہ کہنے لگيں :

کیا آپ کواللہ تعالی نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟ توابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالی کا حکم یہی ہے ، ھاجر کہنے لگی پھر اللہ تعالی ہمیں ضائع نہيں کرے گا اورواپس اسماعیل علیہ السلام کے پاس آگئيں توابراھیم علیہ السلام چل پڑے اورجب گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں سے وہ انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے توقبلہ رخ ہوکرہاتھ اٹھاۓ اور یہ دعا مانگنے لگے :

اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد کو بے آب وگياہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس چھوڑا ہے ، اے ہمارے رب تا کہ وہ نما زقائم کریں اورلوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اورانہيں پھلوں سے رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکرگزار ہوں ۔

اسماعیل علیہ السلام کی والدہ بیٹے کودودھ پلاتی رہی اورخود وہ پانی اورکھجوریں کھاتی رہی حتی کہ وہ پانی کا مشکیزہ ختم ہوگیا اب وہ بھی پیاس سے نڈھال ہوئيں اوربچہ بھی بھوکا رہنے لگا توماں نے دیکھا کہ بیٹا لوٹ پوٹ ہونے لگا ہے تواسے دیکھا نہ گیا اوروہ سب سے قریبی پہاڑی صفا پرچڑھ دوڑي اور اوپر جاکر دیکھنے لگي کہ آیا کوئ نظر آتا ہے ۔

جب وہاں کوئ نظر نہ آیا تووہاں سے نیچے اتری اورایک مشقت کرنے والے کی طرح اپنا ایک پلو اوپر اٹھایا اوردوڑنے لگيں حتی کہ وادی کی دوسری جانب آ کر مروہ پہاڑي چڑھ کر ادھر ادھر دیکھا کہ آیا کوئ شخص نظر آتا ہے جب وہاں بھی کوئ نظر نہ آیا توپھر صفا پرچڑھ گئيں اوراس طرح سات چکر لگاۓ ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفا مروہ کے درمیان یہ لوگوں کی سعی ہے اورجب ھاجر علیہا السلام نے مروہ پردیکھا تو ایک آواز سنی تواپنے آپ سے کہنے لگیں خاموش ، پھرغورسے سنا تووہ آواز دوبارہ بھی سنائ دی تووہ کہنے لگيں کہ

تم نے آواز سنی ہے اگرتمہارے پاس کوئ مدد کرنے والا ہے توانہوں نے اچانک زمزم والی جگہ پرایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنے پریا ایڑی سے زمین کھودی اوروہاں سے پانی نکل آیا تواسماعلی کی والدہ اسے پھیلنے سے روکنے لگيں اوراس کے ارد گرد مٹی اکٹھی کرنے لگیں اوراس سے مشکیزہ بھرنا شروع کردیا تووہ جتنا بھی اس سے لیتیں پانی اور تیزی سے فوارہ کی طرح ابلنا شروع ہوجاتا ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی ام اسماعیل علیہ السلام پررحم کرے اگروہ زمزم کواسی طرح چھوڑ دیتی اوراس سے اپنے چلو نہ بھرتیں توزمزم کا پانی ساری زمین پرپھیل جاتا ، راوی بیان کرتے ہیں کہ :

انہوں نے زمزم خود بھی پیا اوراپنے بیٹے کوبھی پلایا توفرشتہ کہنے لگا ڈرو نہیں تم ضائع نہيں ہوگے ، یقینا یہ بچہ اوراس کا باپ اس جگہ پربیت اللہ کی تعمیر کریں گے اوراللہ تعالی اس کے اہل عیال کوضائع نہیں کریں گے ، اوربیت اللہ زمین سے اونچا تھا سیلاب اس کی دائیں اوربائيں جانب سے گزر جاتا تھا ۔

اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ اسی حالت میں رہے اورکچھ مدت بعد وہاں سے جرھم قبیلہ کے لوگوں کا گزرہوا اورانہوں مکہ کی نشیبی جانب پڑاؤ کیا اوروہاں پرایک پرندہ دیکھا جوکہ فضامیں چکر لگا رہا تھا وہ آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی پرچکر لگاتا ہے اوراتنی مدت ہوگئ ہم یہاں سے گزرتے ہیں اوراس وادی میں پانی نہیں ہے

لھذا انہوں نے ایک یا دو شخص روانہ کیے کہ وہ معاملہ کی خبر لائيں توانہوں وہاں پانی دیکھا تووہ وہاں آۓ تواسماعیل علیہ السلام کی والدہ کوپانی کے پاس موجود پایا وہ آ کر کہنے لگے کیا آپ کی اجازت ہے کہ ہم یہاں پرپڑاؤ کرلیں توانہوں نے اجازت دی اورکہنے لگیں کہ پانی پرتمہارا کوئ حق نہیں ہوگا ، انہوں نے اس پراتفاق کرلیاکہ ٹھیک ہے پانی پرہمارا کوئ حق نہیں ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تواسماعیل علیہ السلام کی والدہ جوکہ ایک مدت سے اکیلی رہ رہی تھی انسانوں سے الفت پیدا ہوچکی تھی وہ پالی جرھم قبیلہ نے وہاں پرپڑاؤ کیا اوراپنے گھر والوں کوبھی بلا لیا تووہ بھی وہیں ان کے ساتھ رہنے لگے حتی کہ وہ اکٹھے رہنے لگے اوراسماعیل علیہ السلام جوان ہوگۓ اوران سے عربی زبان بھی سیکھ لی ، جب اسماعیل علیہ السلام جوان ہوۓ توقبیلہ جرھم کوبہت اچھے لگنے لگے اس طرح انہوں نے اپنے قبیلہ کی ایک عورت سےان کی شادی کردی

اس کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی والدہ فوت ہوگئيں اوراسماعیل علیہ السلام کی شادی کرلینے کے بعد ابراھیم علیہ السلام اپنے ان چھوڑے ہوۓ اہل وعیال کا پتہ کرنے کے لیے آۓ ۔۔۔

پھر اس کے بعدابراھیم علیہ السلام دوبارہ مکہ آۓ تو زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے پاس اسماعیل علیہ السلام اپنی کمان صحیح کررہے تھے جب انہوں نے ابراھیم علیہ السلام کودیکھا توجس طرح باپ بیٹے اوربیٹا باپ کوملتا ہے ملے پھر ابراھیم علیہ السلام اپنے بیٹے کوکہنے لگے :

اے اسماعیل مجھے میرے رب نے ایک حکم دیا ہے جواب میں اسماعیل علیہ السلام کہنے لگے آپ کے رب نے جوحکم دیا ہے اسے پر عمل کریں ابراھیم علیہ السلام نے کہا کیا توبھی اس میں میرا تعاون کرے گا اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا میں بھی آپ کا مکمل تعاون کروں گا ۔

ابراھیم علیہ السلام نےاونچی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ اللہ تعالی نےحکم دیا ہے کہ ہم یہاں پر بیت اللہ تعمیرکریں ، راوی بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائيں اسماعیل علیہ السلام پتھر پکڑاتے اورابراھیم علیہ السلام اس کی تعمیر کرتے حتی کہ دیواریں جب اونچی ہوگئيں تویہ پتھر لایا گيا اورابراھیم علیہ السلام اس پتھر پرکھڑے ہوکر دیواریں بناتے اوراسماعیل علیہ السلام پتھر پکڑاتے جاتے اورساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے جارہے تھے :

اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما بلاشبہ توسننے والا اورجاننےوالا ہے ۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ دیواریں بناتے گۓ‌ اوربیت اللہ کے ارد گرد چکر لگاتے ہوۓ یہ کہہ رہ رہے تھے : اے ہمارے رب ہمارا یہ عمل قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا اورجاننے والا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3113 ) ۔

توکعبہ مشرفہ کی تعمیر کے حقیقی تاریخی قصہ کے بیان کے بعد ہم آپ کے سوال کی طرف آتے ہيں :

یہ کہ اللہ تعالی کا اسم بت کے نام سے مشتق ہے ، یہ توبہت ہی عجیب اوربہت ہی انکار والی چيز ہے کہ اس خالق و عزيز و جبار اورباری کا نام کس طرح ایک مخلوق اوربت جو کہ نہ کوئ نفع اورنہ ہی نقصان دے سکتا ہے مشتق ہوسکتا ہے ؟

اللہ سبحانہ وتعالی نے مشرکوں کی مذمت کرتے ہوۓ فرمايا :

{ ان لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا جواپنے معبود بنا رکھے ہيں وہ کسی چيز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ توخود پیدا کیۓ گۓ ہیں یہ تواپنی جان کے نفع اور نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اورنہ موت و حیات کے اور نہ ہی وہ دوبارہ جی اٹھنے کے مالک ہیں } الفرقان ( 3 ) ۔

اورایک دسرے مقام میں کچھ اس طرح فرمایا :

{ تم تو اللہ تعالی کے علاوہ بتوں کی پوجا پاٹ کرہے ہو اورجھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو ، سنو ! جن جن کی تم اللہ تعالی کے سواپوجا پاٹ کر رہے ہو وہ تو تمہاری روزی مالک نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالی ہی سے روزیاں طلب کرو اوراسی کی شکر گزاری کرو اوراسی کی طرف لوٹاۓ جاؤ گے } العنکبوت ( 17 ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی نے ایک اورمقام پرابراھیم علیہ السلام کا اپنے والد اورقوم کا بتوں کی عبادت پر انکار کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ اباجان ! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے جو نہ سنیں نہ دیکھیں ؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں } مریم ( 42 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ انہیں ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ بھی سنادیں ، جبکہ انہوں نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں ہم توبرابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں ؟

یا تمہیں نفع ونقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا بلکہ ہم تو اپنے آباء واجداد کواسی طرح کرتے دیکھتے رہے آپ نے فرمایا جنہیں تم پوج رہے ہو کیا ان کی تمہيں کچھ خبر بھی ہے ؟

تم اورتمہارے پہلے باپ دادا وہ سب میرے دشمن ہيں ، سواۓ اس اللہ تعالی کے جوتمام جہان کوپالنے والا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اوروہی میری راہنمائ بھی فرماتا ہے } الشعراء ( 69 - 78 ) ۔

اورابراھیم علیہ السلام کے بتوں کے توڑنے کا ذکر کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے کـچھ اس طرح فرمایا :

{ ابراھیم علیہ السلام ) چپکے سے ان معبودوں کے پاس گۓ اورفرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں ؟ تمہيں کیا ہوگا کہ بات تک نہیں کرتے ہو ؟

پھروہ پوری قوت کے ساتھ دائيں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے ، وہ بت پرست دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوۓ تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں تم خود ہی تراشتے ہو ، حالانکہ تمہیں تمہاری بنائ ہوئ چيزوں کواللہ تعالی نے ہی پیدا کیا ہے وہ کہنے لگے اس کے لیے ایک مکان بناؤ اوراسے آگ میں ڈال دو } الصافات ( 92 - 96 )

تواس طرح اس سب کچھ کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ابراھیم علیہ السلام نے بیت اللہ کے پاس ایک بت چھوڑ دیا جس سے اللہ تعالی کا نام مشتق ہے ؟ اے سوال کرنے والی صاحبہ آپ کوعلم ہے کہ اللہ کا معنی کیا ہے اوریہ نام کس سے مشتق ہے ؟

لفظ جلالۃ ( اللہ ) فعل أَلِه يأله مألوه سے مشتق ہے اوریہ فعل اپنے اندر محبت اورعبادت کا معنی رکھتا ہے کہ عبادت کے ساتھ محبت کی جاۓ تواللہ سبحانہ وتعالی وہ معبود ہے جس کے ساتھ مومنوں کے دلوں میں محبت ہے تووہ اس سے محبت کرتے ہیں اوراس کی تعظيم کرتے اوراس کا ڈرو خوف رکھتے ہیں اوراپنی امیدیں بھی اسی سے وابستہ رکھتے ہیں ۔

اورآپ کا آخری سوال جس میں آپ نے یہ کہا کہ کیا اسلام بت پرستی اورستاروں کی عبادت سے تعلق رکھتا ہے تویہ بہت ہی زيادہ تعجب کی بات ہے جوکبھی ختم ہی نہیں ہو سکتا ، بلکہ اصل بات تویہ ہے کہ اسلام تواللہ تعالی کی توحید اوراس اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت لے کرآیا اوراس کی بت پرستی سے جنگ ہے حتی کہ وہ اسے ختم کرکے دم لے گا توپھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کا بت پرستی سے تعلق ہو ؟

ہوسکتا ہے کہ آپ نے قرآن مجید میں ھدھد کا قصہ پڑھا ہو جوکہ ایک توحید پرست تھا جس نے اپنے رب کوپہچانا اورستاروں کی عبادت کا انکار کیا اور سلیمان علیہ السلام کوملکہ یمن کے بارہ میں بتایا جسے اللہ تعالی نےنقل کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :

{ میں سبا کی ایک سچی خبر تیرے پاس لایا ہوں ، میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کررہی ہے جسے ہر قسم کی چيز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اوراس تخت بھی بڑی عظمت والا ہے ۔

میں نے اسے اوراس کی قوم کو اللہ تعالی کی عبادت چھوڑ کر سورج کوسجدہ کرتے ہوۓ پایا ، شیطان نے ان کے کام انہیں مزین کر کے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے تووہ ھدایت پرنہیں آتے ۔

کہ اسی اللہ تعالی کے لیے سجدہ کریں جوآسمانوں اورزمینوں کی پوشیدہ چيزوں کوباہر نکالتا ہے اورجوکچھ تم چھپاتے ہو اورظاہر کرتے ہو وہ سب کچھ جانتا ہے ، اس کے سوا کوئ معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے } النمل ( 22- 26 ) ۔

اوراسی طرح ابراھیم علیہ السلام کا اپنی قوم کی سورج چاند اورستاروں کی عبادت کے انکار کا قصہ بھی قرآن مجید نے سورۃ الانعام میں بیان کیا ہے ۔

اوررہا مسئلہ رمضان المبارک کے روزے کا چاند کے ساتھ تعلق اورارتباط ، تویہ اس لیے نہیں کہ ہم چاند کی عبادت کرتے ہیں لیکن روزے اس لیے رکھتے ہیں کہ چاندکے رب اورمالک نے چاندکو ہمارے لیے عبادت کرنے کے اوقات اورمعاملات کے لیے میقات بنایا ہے

ہم رمضان المبارک کا چاند اس لیے تلاش کرتے ہيں کہ ہم اس مہینہ میں اللہ وحدہ لاشریک کے لیے روزے رکھ سکیں اوراس کے بعد والے مہینہ کا چاند اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس سالانہ عبادت کے اختتام کا علم ہوسکے اور اسی طرح ہم ایام حج اوردوسری عبادات میں کرتے ہیں ۔

امید ہے کہ ہم نے جوکچھ آپ کے سامنے بیان کیا ہے اس سے آپ کے ذھن میں پیدا ہونے والے اشکال جاتے رہے ہوں گے اورتاریکی زائل ہوچکی ہوگی اور غموض کی وضاحت ہوگئ ہوگي ، آپ کے علم میں ہونا چاہیے یہ معاملہ کوئ ہنسی مذاق نہيں بلکہ ایک سیریس اورحقیقی مسئلہ ہے اوراللہ تبارک وتعالی کے ہاں تودین اسلام ہی ہے جس پراللہ تعالی اپنے بندوں کے لیے راضي ہوتا ہے اوردین اسلام کے علاوہ کوئ اوردین قبول بھی نہیں فرماتا ۔

توآپ دین حق اور ھدایت شریعت پرآجائيں اوراس پر عمل کریں اورآپ کے لیے اللہ تعالی نے جوکچھ نازل فرمایا ہے اس کی پیروی و اتباع کریں ، اوراللہ تعالی مومنوں کی ساتھ ہے ان کی مدد و تعاون فرماتا ہے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ