عيسائيوں كے عقيدہ فدا كے متعلق ايك عيسائى سے بات چيت
مسلمان اس انكار پر كيوں مصر ہيں كہ مسيح عليہ السلام ہمارى خلاصى كروانے اور فدا ہو نے كے ليے آئے تھے ؟
الحمد للہ:
نصارى كے ہاں عقيدہ فدا ايك اساس اور بنيادى عقيدہ كي حيثيت ركھتا ہے ان كا كہنا ہے كہ عيسى عليہ السلام كو سولى پر لٹكا ديا گيا، حتى كہ وہ سارے دين كي شرط ہى ركھتے ہيں كہ جب يہ عقيدہ صحيح نہ ہو، انگريز كارڈنل منيج اپنى كتاب " كہنوت الابديۃ " ميں كہتا ہے:
( اس حيرانگى والى بحث كي اہمت پوشيدہ نہيں ہے كيونكہ اگر واقعى حقيقتا مسيح عليہ السلام كى موت سولى پر نہيں ہوئى تو پھر چرچ كا عقيدہ اساسى طور پر ہى منہدم ہو جاتا ہے كيونكہ جب مسيح عليہ السلام كو موت سولى پر نہ آئى ہو نہ تو ذبيحہ اور نہ ہى نجات پائى جائے گى اور نہ ہى تثليث كا عقيدہ باقى رہے گا..... تو پولس اور اس كے حوارى اور سب چرچ يہ دعوى كرتے ہيں كہ جب مسيح عليہ السلام فوت نہيں ہوئے تو پھر قيامت بھى نہيں ).
اور پولس كا يہ فيصلہ كہ ( اگر مسيح عليہ السلام نہيں ہوئے تو پھر ہمارے يہ انجيل كے سارے درس اور وعظ كرنے باطل ہيں اور تمہارا يہ ايمان بھى باطل ). ديكھيں: كورنثوس ( 1 / 14 - 15 )
اور انہوں نے تثليث ميں جو خبط كر ركھا ہے اور اس كا جو مفہوم ہے اس كے مابين اور اس توحيد كے مابين جس كا فيصلہ عہد قديم نے كيا ہے كے مابين كس طرح موافقت قائم كريں گے. اس كي تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 12628 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
اور اسى طرح سولى كے بارہ ميں جو تفصيلات ہيں اس ميں ان كى ديوانگى بھى اور عقيدہ فداء كےبارہ ميں اسے وہ اصل اور اس كي علت شمار كرتے ہيں. اس كى تفصيل كے ليے بھى سوال نمبر ( 12615 ) كا جواب ديكھيں.
ہم كہتے ہيں كہ ہر اس شخص كو جو اللہ تعالى كى طرف سے نازل كردہ وحى كے نور سے دور ہٹے گا اسے اس طرح كى لازم ديوانگى اور خبط لاحق ہو گا اور اسے عقيدہ فداء ميں خبط لاحق ہو جائے گا .
تو كيا فداء ہونا سارى بشريت كے ليے خلاصى اور چھٹكارا ہے، جيسا كہ يوحنا كہتا ہے:
( نيك اور پاكباز يسوع مسيح عليہ السلام باپ كے ہاں سفارشى ہے اور وہ ہمارى خطاؤں كا كفارہ ہے ہمارى خطاؤں كا كفارہ ہى نہيں بلكہ سارے جہان كي خطاؤں كا بھى كفارہ ہے ) ديكھيں: رسالۃ يوحنا الاولى ( 2 / 2 )
يا يہ كہ وہ جو ايمان لائے اور اعتماد كرے اس كے ساتھ خاص ہے:
( جو ايمان لائے اور اعتماد كرے وہ چھٹكارا حاصل كرے گا اور جو ايمان نہيں ركھتا وہ پكڑا جائے گا ) ديكھيں: مرقس ( 16 / 16 ).
مسيح عليہ السلام كي سيرت اور ان كے اقوال پر غور وفكر اور تدبر كرنے والا شخص پورى وضاحت اور روشنى كى طرح يہ ديكھے گا كہ مسيح عليہ السلام كي دعوت بنى اسرائيل كے ليے تھى اور اس نے اپنى دعوت و تبليغ كے برسوں كے دوران اپنے شاگردوں كو بنى اسرائيل كے علاوہ كسي اور كو دعوت دينے سے منع كيا، تو اس بنا پر يہ ضرورى اور واجب ہے كہ خلاصى اور چھٹكارا بھى انہيں كے ساتھ ہى خاص ہو، اور اس كنعانى عورت كے قصہ ميں بھى ہم يہى ديكھتے ہيں جس نے انہيں يہ كہا تھا كہ :
( جناب اے ابن داود مجھ پر رحم كريں ، ميرى بيٹى بہت زيادہ مجنون اور پاگل ہے اور وہ ايك كلمہ بھى جواب نہيں ديتى، تو اس كے شاگرد اس كي طرف متوجہ ہوئے اور يہ كہتے ہوئے مطالبہ كرنے لگے: اس سے صرف نظر كريں كيونكہ يہ عورت ہمارے پيچھے چيختى پھرتى ہے تو انہوں نے جواب ديا: ميں تو صرف بنى اسرائيل كے گمراہ لوگوں كي طرف بھيجا گيا ہوں، لھذا وہ عورت آئي اور اس كو سجدہ كرتے ہوئے كہنے لگى جناب ميرى مدد كريں تو اس نے جواب ديا اور كہا: يہ كوئي اچھى بات نہيں كہ بچوں كى روٹى ليكر كتوں كے سامنے پھينك دى جائے ) ديكھيں: انجيل متى ( 15 / 22 - 26 ).
تو مسيح عليہ السلام نے اس كنعانى عورت كي بيٹى كو شفايابى سے نہيں نوازا حالانكہ وہ اس كي قدرت ركھتے تھے، تو پھر وہ سب بشريت كي خلاصى كس طرح كروائيں گے؟
اور كيا يہ خلاصى اور چھٹكارا صرف آدم عليہ السلام كي پہلى غطلى سے ہے يا كہ ہمارى سب خطاؤں كے ليے عام ہے؟
بلاشبہ كوئي ايك بھى كسى دوسرے كا گناہ نہيں اٹھاتا، اور نہ ہى اپنے آپ كو كسي پر فدا كرتا ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا بھى ارشاد ہے :
{كوئي بھى بوجھ اٹھانے والا كسى دوسرے كا بوجھ نہيں اٹھائے گا اگر كوئي گراں بار دوسرے كو اپنا بوجھ اٹھانے كے ليے بلائے گا تو وہ اس ميں سے كچھ بھى نہ اٹھائے گا اگرچہ وہ قرابت دار ہى كيوں نہ ہو، ميں تو صرف انہى كو آگاہ كر سكتا ہوں غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہيں اور نمازوں كي پابندى كرتے ہيں اور جو بھى پاك ہو جائے وہ اپنے نفع كے ليے ہى پاك ہو گا اور اللہ تعالى ہى كى طرف لوٹنا ہے} فاطر ( 18 ) .
اور تمہارى كتاب مقدس كى نصوص نے تو يہ مقرر كيا ہے كہ : ( جو نفس غلطى اور خطا كرے گا وہى مرے گا بيٹا باپ گناہ ميں سے كچھ بھى نہيں اٹھائے گا اور نہ ہى باپ بيٹے كا گناہ اٹھائے گا، نيك شخص كي نيكى اس پر ہے اور برے شخص كي برائى برے شخص پر ہى ہے ) ديكھيں: حزقيال ( 18 / 20 - 21 ) .
لھذا كوئي موروثى غلطياں اور خطائيں نہيں ہيں: ( اگر ميں نہ آيا ہوتا اور ان سے كلام نہ كى ہوتى تو ان پر كوئي خطا نہ ہوتى، ليكن اب ان كے ليے ان كي غلطيوں اور خطاؤں ميں كوئى عذر نہيں ہے.. اگر ميں نے ان كے سامنے وہ اعمال نہ كيے ہوتے جس طرح كے اعمال كسى نے بھى نہيں كيے تو ان كے ليے كوئي غلطى اور خطاء نہ ہوتى، ليكن اب انہوں نے ديكھ ليا ہے اور اس كے باوجود وہ مجھے ناراض كيا اور ميرے والد كو بھى ناراض كيا ہے ) يوحنا ( 15 / 22 - 24 ) .
اورجب وہاں كوئي غلطى اور خطا ہو چاہے وہ غلطى بندے نے كى ہو يا پھر وہ آدم عليہ السلام سے وارث بنا ہو يا اس كے علاوہ اپنے آباء اجداد ميں سے ( ؟ !! ) تو پھر يہ غلطى اور خطا توبہ سے كيوں نہ ختم ہوئى اور مٹى ؟ !
ايك توبہ كرنے والے سے آسمان والے اتنے خوش ہوتے ہيں جتنا كہ ايك چرواہا اپنے گمشدہ مينڈھے كے مل جانے پر ہو، اور ايك عورت اپنے گمشدہ درہم كے حاصل ہو جانے پر خوش ہو اور ايك باپ اپنے بھاگے ہوئے بيٹے كے گھر واپس آجانے پر خوش ہو .
( ايك خطاكار اور غلطى كرنے والے كي توبہ سے آسمان ميں اسقدر خوشى ہوتى ہے جو ننانوے نيك اشخاص جنہيں توبہ كي ضرورت نہ ہو كى خوشى سے بھى زيادہ ہے ) لوقا ( 15 / 1 - 31 ) .
اور پھر اللہ تعالى نے توبہ كرنے والوں كے ساتھ توبہ كي قبوليت كا وعدہ كر ركھا ہے:
( لھذا جب ايك شرير شخص اپنى كى ہوئى غلطيوں اور خطاؤں سے باز آجاتا اور رجوع كر ليتا اور ميرے سارے فرائض پر عمل كرنا شروع كرديتا ہے اور حق اور عدل انصاف كرتا ہے تو وہ زندہ رہتا ہے مرتا نہيں، اس نے جو غلطياں اور معصيت كى ہوتى ہيں وہ اس پر ذكر نہيں كى جاتيں، اس نے جو نيكياں كي ہوتى ہيں وہ زندہ رہتى ہيں ) حزقيال ( 18 / 21 - 23 ) اور ديكھيں: اشيا ( 55 / 7 ) .
بغير توبہ اور اعمال صالحہ كيے نسب پر ہى بھروسہ كرنا فساد اور ہلاكت كى ايك قسم ہے ؛ كيونكہ جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے كہ " جس كے عمل نے اسے پيچھے ركھا اسے اس كا نسب تيز نہيں چلا سكتا" ديكھيں صحيح مسلم حديث نمبر ( 2699 ) .
اور يوحنا معدان ( يحي عليہ السلام ) نے بھى تمہيں يہى سكھايا:
( اے سانپوں كى اولاد تمہيں آنے والے غضب سے بھاگنا كس نے سكھايا، تم ايسا پھل دو جو تمہارى توبہ پر دليل بن سكے، اور تم اپنے آپ كو يہ نہ كہو كہ ہم ابراہيم عليہ السلام كي اولاد ہيں، ميں تمہيں كہتا ہوں: بلاشبہ اللہ تعالى اس پر قادر ہے كہ وہ ان پتھروں سے ابراہيم عليہ السلام كى اولاد پيدا كردے؛ يہ درختوں كے تنوں پر كلہاڑا ہے، لھذا جس درخت كا بھى تنا كاٹ كر آگ ميں پھينك ديا جائے وہ پھل نہيں ديتا ) متى ( 3 / 7 - 11 ) .
بلاشبہ اور يقينا توبہ كرنے والے كے گناہوں كا بخشنا تو اللہ جل جلالہ رحم كرنے والے بر الرحيم كے ہي شايان شان ہے نہ كہ ذبح اور صليب اور خون بہانے كے لائق كتاب مقدس تو يہى كہتى ہے:
( ميں تو رحمت چاہتا ہوں نہ كہ ذبيحہ، كيونكہ ميں اس ليے نہيں آيا كہ نيك لوگوں كو دعوت دوں بلكہ اس ليے آيا ہوں كہ خطا كاروں كو توبہ كى دعوت دوں ) انجيل متى ( 9 / 13 ) .
اور اسى ليے پولس كہتا ہے كہ:
( ان كے ليے خوشخبرى جن كے گناہ بخش ديے گئے اور ان كي غلطيوں پر پردہ ڈال ديا گيا، اس شخص كے ليے خوشخبرى ہے رب جس كي غلطياں شمار نہ كرے ) روميۃ ( 4 / 7 - 8 ) .
ہمارا اس پر ايمان ہے كہ اگر اللہ تعالى اپنے بعض بندوں ان كي خطاؤں اور غلطيوں كي توبہ كے ليے اپنے آپ كو قتل كرنے كا حكم ديں تو يہ ان پر كوئي زيادہ نہيں، اور نہ ہى اللہ سبحانہ وتعالى كي رحمت اور نيكى كے منافى ہے، بلكہ جب بنى اسرائيل نے اللہ تعالى كو عياں اور واضح طور پر ديكھنے كا مطالبہ كيا تو اللہ تعالى نے انہيں اس كا حكم ديا تھا، ليكن اس وقت كوئي كسي دوسرے كے بدلے ميں قتل نہيں كيا جائے گا بلكہ آدمى اپنے گناہوں كى پاداش ميں قتل ہو گا نہ كہ كسى دوسرے كے گناہوں كى پاداش ميں، اور يہ اس بوجھ اور طوق ميں سے تھا جو اللہ تعالى نے اس مرحوم امت سے دور كيا .
اور موروثى گناہ كے نظريہ كو باطل كرنے كے ليے وہ نصوص بھى ہيں جن ميں اس كا بيان ہے كہ ہر انسان اپنے اعمال كا مسئول ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب ميں فرمايا :
{جس نے بھى اعمال صالحہ كيے وہ اس كے نفس كے ليے ہيں اور جس نے كوئي برائي كي اس كا وبال بھى اسى كے اوپر ہے، اور تيرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہيں كرتا} فصلت ( 46 ) .
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
{ہر نفس اپنے اعمال كے بدلے گروى ہے} المدثر ( 38 ).
اور اسى طرح تمہارى كتاب مقدس ميں بھى ہے كہ:
( تم كسى پر ظلم نہ كرو تا كہ تم پر بھى ظلم نہ كيا جائے، كيونكہ جيسا كرو گے ويسا بھرو گے، اور جيسا تولو گے ويسا ہى تمہارے ليے تولا جائے گا ) متى ( 7 / 1 - 2 ).
( كيونكہ انسان اپنے باپ كي بزرگى ميں فرشتوں كے ساتھ آئے گا اور اس وقت ہر ايك كو اس كے اعمال كے مطابق بدلہ ديا جائے گا ) متى ( 16 / 27 ) .
اور مسيح عليہ السلام نے اعمال صالحہ اور نيكى كي اہميت اجاگر كرتے ہوئے اپنے شاگرد كو كہا:
( ہر وہ شخص جو مجھے يارب يارب كہتا ہے وہ آسمان ميں داخل ہونے والا نہيں ، بلكہ جو ميرے باپ جو آسمان ميں ہے كے ارادہ پر عمل كرے، بہت لوگ اس دن مجھے كہيں گے، يارب يارب، كيا ہم نے تيرے نام كے بيٹے نہيں بنے، اور تيرے نام سے شيطانوں كو نكالا، اور تيرے نام سے ہم نے بہت سى قوتيں بنائيں، تو اس وقت ميں انہيں وضاحت كے ساتھ كہوں گا: ميں تو تمہيں قطعا جانتا بھى نہيں، اے معصيت و نافرمانى كرنے والو مجھ سے دور ہو جاؤ ) متى ( 7 / 20- 21 ) .
اور اس جيسا ہى قول ہے:
( انسان كا بيٹا اپنے فرشتوں كو بھيجے گا تو وہ اس كے آسمان ميں سب پائے جانے والے سب جھوٹوں اور گناہ كرنے والوں كو جمع كر كے آگ كى گہرائى ميں پھنك دينگے ) متى ( 13 / 41-42 ).
تو اس فداء اورخلاصى كے متعلق تو اس نے انہيں كوئي بيان نہيں كيا جس كے ساتھ وہ اس مصيبت سے چھٹكارا حاصل كريں.
اور روز قيامت تو صرف اعمال صالحہ كرنے والے لوگ ہى كامياب ہونگے اور نجات حاصل كرينگے، جبكہ برائى كرنے والوں كو جہنم كي طرف ہانكا جائے گا اور مسيح عليہ السلام انہيں كوئي چھٹكارا اور خلاصى نہيں دلائيں گے نہ ہى كوئي اور:
( ايك ايسا گھڑى آئے گى جس ميں سب قبروں والے اس كي آواز سنيں گے لھذا جنہوں نے اعمال صالحہ كيے ہونگے وہ قيامت كى زندگى كى جانب اور جنہوں نے گناہ كيے ہونگے وہ ذلت و اہانت كي جانب اٹھ كھڑے ہونگے ) يوحنا ( 5 / 28 - 29 ).
(جب انسان كا بيٹا اس كي بزرگى اور سب فرشتوں كے ساتھ آئے گا اور پاكباز لوگ اس كے ساتھ ہونگے تو وہ اپنى بزرگى والى كرسى پر بيٹھے گا اور پھر بائيں طرف والے لوگوں سے بھى كہے گا: اے لعنتيو جاؤ ہميشہ كے ليے اس آگ كي طرف چلے جاؤ جو شيطان اور اس كے حواريوں كے ليے تيار كى گئى ہے ) متى ( 25 / 31 - 42 ) .
اور مسيح ان سے كہيں گے: (اے سانپوں ازدہوں كي اولاد تم جہنم كي ذلت سے كيسے بھاگو گے) متى ( 23 / 33 ) .
اور اڈولف ہرنگ كا ملاحظہ ہے كہ شاگردوں كے رسائل خلاصى اور چھٹكارا كے عقيدہ سے خالى ہيں بلكہ اس نے تو خلاصى اور چھٹكارا اعمال كے ساتھ قرار ديا ہے كہ اعمال ہونگے تو خلاصى ہوگى جيسا كہ رسالہ يعقوب ميں ہے:
( ميرے بھائيو! اگر كوئى يہ كہے كہ: اس كا ايمان تو ہے ليكن اس كے اعمال نہ ہوں تو كيا اس كا ايمان اسے خلاصى اور چھٹكارا دلانے پر قادر ہے؟ اگر اعمال نہ ہوں تو ايمان بھى ذاتى طور پر مردہ ہے.. ايمان اعمال كے بغير ميت اور مردہ ہے ) يعقوب ( 2 / 14 - 20 ) اور ( 1 / 22 - 27 )
اور پٹرس كہتا ہے: ( ميرے خيال ميں اللہ تعالى حقيقت ميں كسى كو بھى كسى ايك پر فضيلت نہيں ديتا، لھذا جو كوئى بھى اس سے ڈرے چاہے وہ كسى بھى امت سے تعلق ركھتا ہو اور بھلائى اور خير كے كام كيے وہ اس كے ہاں مقبول ہے ) اعمال الرسل ( 10 / 34 - 35 ).
مسيح عليہ السلام اور ان كے حواريوں كے اقوال ميں اس طرح كے اقوال بہت زيادہ ہيں.
اور سچ فرمايا ہے اللہ تعالى و عظيم نے:
{اے لوگو! بلا شبہ ہم نے تمہيں نے ايك ہى مرد وعورت سے پيدا كيا ہے اور تمہارے كنبے اور قبيلے اس ليے بنا ديے كہ تم ايك دوسرے كو پہچانو، يقينا تم ميں سے اللہ تعالى كے ہاں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ ڈرنے والا ہو، يقين جانو كہ اللہ تعالى دانا اور باخبر ہے} الحجرات ( 13 )
تعجب اس پر ہے كہ وہ پولس جس نے خود ناموس كي مخالفت كا اعلان كيا اور اعمال كے بے فائدہ ہونے كا اعلان كيا اور كہا كہ خلاصى اور چھٹكارا تو ايمان كے ساتھ ہو گا، اس نے ہى ذاتى طور پر اعمال صالحہ كي اہميت كو دوسرے مواقع پر اجاگر كيا ہے اس كا كہنا ہے:
( انسان جو كچھ كاشت كرتا ہے وہى كچھ كاٹے گا ... لھذا اعمال خير كرنے ميں سستى اور كاہلى سے كام نہ لے كيونكہ ہم اسے اس كے وقت ميں كاٹيں گے ) غلاطيۃ ( 6 / 7 ) .
اور اس كا يہ بھى كہنا ہے:
( ہر كوئي اپنے كام كے مطابق ہى اجرت حاصل كرے گا ) كونثوس ( 1 ) 3 / 8 ) .
اس موضوع كے متعلق تفصيل ديكھنے كے ليے ديكھيں ڈاكٹر منذر السقار كي كتاب " ھل افتدانا الميسح على الصليب .
اور اسى طرح، لھذا آپ كے سامنے اس تناقض كا كوئى حيلہ نہيں سوائے اس كے اپنى عقل اور سمجھ كو ختم كردو، اور اپنے آپ كو جھوٹى خواہشات كى بيمارى لگا لو، جس طرح عقيدہ تثليث اور توحيد ميں كيا گيا ہے، اور آپ كو اسى كي نصيحت G R سٹوٹ نے اپنى كتاب " المسيحيۃ الاصليۃ " ميں كرتے ہوئے كہا ہے:
( ميں اس موضوع كو اس صريح اعتراف سے قبل شروع كرنے كي جسارت نہيں كرتا كہ اس كا بہت زيادہ حصہ تو مخفى اور پوشيدہ ہى رہے گا.... اور تعجب كي بات ہے كہ ہمارى كمزورسى عقليں اس كا ادراك كيوں نہيں كرسكتيں، ايك دن ايسا ضرور آئے گا جس ميں حجاب اتار ديا جائے گا اور سب كچھ حل ہو جائے گا اور مسيح كو اس طرح ديكھو كے جس طرح وہ تھا !!
تو پھر يہ كيسے ممكن ہے كہ اللہ تعالى مسيح ميں حلول كر گيا ہو، اس دوران كے مسيح ہمارى وجہ سے غلطى كرے، يہ ايسى بات ہے جس كا ميں جواب نہيں دے سكتا، ليكن اس كي اس نے يہ دونوں حقيقتيں ايك دوسرے كے ساتھ ركھى ہيں، اور ميں اس فكر كو مكمل تسليم كرتا ہوں جس طرح يہ قبول كيا ہے كہ يسوع ناصرى وہ انسان اور الہ ايك ہى شخص ميں ہے... اور اگرچہ ہم اس تناقض كو حل نہيں كر سكتے، يا اس راز كے رموز كو كھول نہيں سكتے، تو پھر يہ ضرورى ہے كہ ہم اس حق كو اسى طرح قبول كريں جس طرح مسيح اور اس كے شاگردوں نے اعلان كيا ہے كہ اس نے ہمارے خطاؤں كو بھى اپنے ذمہ لے ليا ہے ) ديكھيں: المسيحيۃ الاصليۃ صفحہ نمبر ( 110 - 121 ) يہ سعود الخلف كي كتاب " اليہوديۃ و النصرانيۃ " سے نقل كيا گيا ديكھيں صفحہ نمبر ( 238 ) .
جى ہاں ہم اور تم بھى عنقريب مسيح عليہ السلام كو اسى طرح ديكھيں گے جس طرح وہ تھے؛ وہ اللہ كے مقرب بندوں ميں سے ايك مقرب بندہ اور اس كے بھيجھے ہوئے انبياء ميں سے ہيں، اور اس دن جب حجاب اتر جائيں گے مسيح عليہ ہر اس شخص سے برات كا اظہار كريں گے جس نے بھى انہيں اللہ تعالى كے علاوہ الہ اور معبود بنا ركھا تھا، يا پھر ان كي طرف ايسى بات منسوب كي جو انہوں نے نہيں كہى تاكہ وہ اس وقت يہ جان لے كہ وہاں كو ئى بھيد ہے اور نہ ہى پہيلى:
فرمان بارى تعالى ہے:
{اور وہ وقت بھى قابل ذكر ہے جب كہ اللہ تعالى فرمائے گا كہ اے عيسى بن مريم ! كيا تو نے ان لوگوں سے يہ كہا تھا كہ مجھ كو اور ميرى ماں كو بھى اللہ تعالى كے علاوہ معبود اور الہ بنا لو! عيسى عليہ السلام عرض كريں گے كہ ميں تو تجھ كو منزہ سمجھتا ہوں ، مجھ كو كسى بھى طرح يہ زيبا نہ تھا كہ ميں ايسى بات كہتا جس كے كہنے كا مجھ كو كوئي حق نہيں، اگر ميں نے كہا ہو گا تو تجھ كو اس كا علم ہو گا، تو تو ميرے دل كے اندر كى بات بھى جانتا ہے اور ميں تيرے نفس ميں جو كچھ ہے اس كو نہيں جانتا، تمام غيبوں كا جاننے والا تو ہى ہے.
ميں نے تو ان سے اور كچھ نہيں كہا مگر صرف وہى جو تو نے مجھ سے كہنے كو فرمايا تھا كہ تم اللہ تعالى كي بندگى اختيار كرو جو ميرا بھى رب ہے اور تمہارا بھى رب ہے، ميں ان پر اس وقت تك گواہ رہا جب تك ميں ان ميں رہا، اور پھر جب تو نے مجھ كو اٹھا ليا تو تو ہى ان پر مطلع رہا، اور تو ہر چيز پر پورى خبر ركھتا ہے.
اگر تو ان كو سزا دے تو يہ تيرے بندے ہيں اور اگر تو ان كو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حكمت والا ہے.
اللہ تعالى ارشاد فرمائے گا كہ يہ وہ دن ہے كہ جو لوگ سچے تھے ان كا سچا ہونا ان كے كام آئے گا اور ان كو باغات مليں گے جن كے نيچے سے نہريں جاريں ہونگى جن ميں وہ ہميشہ ہميشہ رہينگے، اللہ تعالى ان سے راضى اور وہ اللہ تعالى سے راضى اور خوش ہيں ، يہ بڑى كاميابى ہے.
اللہ تعالى ہى كي سلطنت آسمانوں اور زمينوں ميں ہے اور ان چيزوں كى جو ان ميں موجود ہيں اور وہ ہر چيز پر پورى قدرت ركھتا ہے} المائدۃ ( 116 - 120 )
تو كيا وقت ختم ہو جانے سے قبل كوئى سوچ بچار اور تدبر ہے؟ اور كيا سيدھے اور صحيح كلمہ كي طرف رجوع كرسكتے ہو؟ اس وقت سے قبل جس ميں نہ تو كوئي حجاب ہو گا اور نہ كوئي ہير پھير:
فرمان بارى تعالى ہے:
{آپ كہہ ديجئے كہ اے اہل كتاب ايسى انصاف والى بات كي طرف آؤ جو ہم اور تم ميں برابر ہے كہ ہم اللہ تعالى كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كريں اور نہ اس كے ساتھ كسى كو شريك بنائيں، نہ تو اللہ تعالى كو چھوڑ كر آپس ميں ہى ايك دوسرے كو رب بنائيں، پس اگر وہ اعراض كرليں تو تم كہہ دو كہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہيں} آل عمران ( 64 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ