کیا پیدا ہونے والے بچے کی جنس معلوم کرنا غیب سے ہے

 

 

 

اس دور میں ڈاکٹروں کا یہ بتانا کہ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے یا بچی اور اللہ تعالی کے اس فرمان: "اور وہ (اللہ تعالی) ہی جو کچھ رحم میں ہے جانتا ہے" کو کیسے جمع کر سکتے ہیں؟
اور تفسیر ابن جریر میں مجاہد سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے جننے کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالی نے آیت نازل فرمائی۔ اور وہ جو قتادہ رحمہ اللہ سے بیان کیا گیا ہے؟ اور اللہ تعالی کے اس عام قول کی تخصیص کیا ہے "جو کچھ رحموں میں ہے"؟ ان سب میں جمع کیسے ہے؟

الحمد للہ
اس مسئلہ میں بات کرنے سے پہلے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ یہ بیان کردوں کہ قرآن کریم کی صریح نص کے ساتھ واقع کا کبھی بھی تعارض نہیں ہوسکتا، اور جب کسی واقع میں یہ ظاہر ہورہا ہو کہ اس میں تعارض ہے تو یا تو وہ واقع صرف دعوی ہی ہوگا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی اور یا پھر قرآن کریم اس کے تعارض میں صراحت نہیں ہوگی، کیونکہ قرآن کریم کی صراحت اور واقع حقیقی دونوں قطعی ہیں اور دو قطعی چیزوں کے درمیان تعارض کبھی بھی ممکن ہی نہیں۔

تو جب یہ واضح ہو چکا تو ہوسکتا ہے کہ یہ کہا جائے: کہ آج کے اس دور میں جدید آلات کے ساتھ رحم میں جو کچھ ہے اسے دیکھا جاسکتا ہے،بچہ یا بچی کے علم کے متعلق جو کہا گیا ہے اگر تو وہ باطل ہے پھر تو اس میں کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر اسکا آیت کے ساتھ تعارض نہیں ہے کیونکہ آیت غیبی امور پر دلالت کرتی ہے جو کہ اللہ تعالی کے علم سے متعلق ہے اور وہ پانچ چیزیں ہیں، بچے کے غیبی امور یہ ہیں، ماں کے پیٹ میں کتنی مدت رہے گا، اس کی زندگی کتنی ہے، عمل کیسے ہوں گے، رزق کتنا ہوگا، نیک بخت ہے یا بدبخت، اور مکمل ہونے سے پہلے بچہ ہے یا بچی لیکن خلقت یعنی یہ پتہ چل جانا آیا وہ بچہ ہے یا بچی تو یہ علم غیب میں سے نہیں کیونکہ اس کی خلقت مکمل ہوجانے کے بعد علم شہادۃ میں آچکا ہے اور ان تین پردوں میں چھپا ہوا ہے اگر انہیں ہٹادیا جائے تو اسکا پتہ چل جائے وہ بچہ ہے یا کہ بچی، یہ کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالی نے ایسی شعائیں پیدا کر دیں ہوں جو کہ ان اندھیروں کو پھاڑ کر اندر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور یہ پتہ چل جائے کہ بچہ ہے یا بچی اور پھر آیت میں بچے یا بچی کے علم کی تصریح نہیں اور نہ ہی سنت میں اس کا ذکر ملتا ہے

اور سائل نے جو مجاہد سے ابن جریر کا قول نقل کیا ہے، کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے جننے کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی، تو یہ قول منقطع ہے کیونکہ مجاہد رحمہ اللہ تابعیین میں سے ہے۔

اور قتادہ رحمہ اللہ کی تفسیر کو اس بات پر محمول کرنا ممکن ہے کہ اللہ تعالی کا اس علم کو اپنے لئے خاص رکھنا یہ خلقت سے پہلے ہے یعنی مکمل ہونے سے قبل لیکن خلقت مکمل ہونے کے بعد دوسرے کو بھی علم ہوسکتا ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کا سورت لقمان کی تفسیر میں یہ قول ہے: اور اسی طرح اللہ تعالی جو رحم میں پیدا کرنا چاہتا ہے اسے کوئی اور نہیں جان سکتا لیکن جب اللہ تعالی نے اس کے بچہ یا بچی اور نیک بخت یا بدبخت ہونے کا حکم دے دیا تو ان فرشتوں کو جو اس کے لئے مقرر ہیں بھی علم ہو جاتا ہے اور اسکی مخلوق سے جسے وہ چاہے اسے بھی۔اھ

اور آپ کا یہ سوال کہ "جو کچھ رحموں میں ہے" کو خاص کیا چیز کرتی ہے تو اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر تو آیت تخلیق کے بعد مذکر یا مونث کے متعلق ہے تو اسے واقع اور حس مخصص کرتی ہے، علماء اصول نے یہ ذکر کیا ہے کہ کتاب وسنت کی تخصیص یا تو نص یا اجماع یا قیاس یا حس یا عقل سے ہوتی ہے اور انکی یہ کلام معروف ہے۔

اور آیت سے مراد تخلیق سے قبل ہے تو پھر آیت کا تعارض کسی سے ہوتا ہی نہیں جو کہ مذکر ومونث کے علم میں کہا گیا ہے۔

اور اللہ تعالی کی تعریف اور شکر ہے کہ واقع میں ایسی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی جو کہ صریح قرآن کے تعارض میں ہو، اور جو کچھ مسلمانوں کے دشمنوں سے قرآن کریم میں طعن کیا ہے کہ کچھ امور جو کہ ظاہری طور پر قرآن کے تعارض میں ہیں تو یہ سب انکی کم عقلی اور کم فہمی کا شاخصانہ ہے کہ وہ قرآن کو سمجھ ہی نہيں سکے یا پھر انکی نیت میں فتور ہے لیکن اہل علم اور دین والے بحث وتمحیث کے بعد اسکی حقیقت کو پاتے ہیں جو کہ ان کے شبہات کو زائل کرتا ہے اس پر اللہ تعالی کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے اور اس کا احسان ہے۔

تو اس مسئلہ میں لوگوں کے دوگروہ ہیں اور ایک درمیانی راہ ہے۔

کچھ لوگوں نے تو قرآن کریم کے ظاہر کو لیا ہے جس میں اس کی کوئی صریح نص نہیں ملتی تو انہوں نے جو بھی اس کے خلاف ہو چاہے وہ یقینی معاملہ کیوں نہ ہو اس کا انکار کیا ہے، تو اس نے طعن کو اپنے ناقص نفس کی طرف کھینچ لیا، یا پھر قرآن میں طعن کیونکہ اس کی نظر یقینی واقع کے مخالف ہے۔

اور کچھ لوگوں نے جس پر قرآن دلالت کرتا ان سے اعراض کیا اور مادیت کے پیچھے چل نکلے تو یہ لوگ ملحد ہوگئے ۔

اور وسط اور درمیانی راہ والے لوگ یہ ہیں، انہوں نے قرآن کریم کی دلالت کو لیا اور واقع کی تصدیق کی اور یہ جان لیا کہ یہ دونوں حق ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ صریح قرآن کریم کسی ایسے ظاہر اور یقینی امر کے خلاف ہو تو انہوں نے منقول اور معقول دونوں کو جمع کیا تو اس بنا پر انکی عقلیں اور یہ دین بھی دونوں سلیم رہے، تو اللہ تعالی نے مومنوں کو اس چیز میں ہدایت دی جس حق میں وہ اختلاف کرتے تھے اور اللہ تعالی جسے چاہتا ہے سیدھے راہ کی ہدایت دیتا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو اس کی توفیق دے اور ہمیں راہ ہدایت پر چلنے والا اور چلانے والا بنائے اور اصلاح کرنے والوں کا قائد بنائے، اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ .

مجموع فتاوی ورسائل: جلد1/ صفحہ 68-70 ، فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ