اسلام اور غلامى

 

 

 

 

ميں نے نصرانى مبلغوں سے دين اسلام كى بہت زيادہ مذمت سنى ہے اور وہ اسلام پر يہ الزام لگاتے ہيں كہ دين اسلام نے غلامى كو جائز قرار ديا ہے، جس ميں انسان كى آزادى اور انسانى حقوق پر زيادتى ہے، تو ان لوگوں كو ہم كيا جواب ديں ؟

الحمد للہ:

نضرانيت كى تبليغ كرنے والوں، اور دين اسلام سے روكنے والوں كى جانب سے غلامى جيسے موضوع كو چھيڑنا اور اس كے متعلق مختلف قسم كے سوالات اٹھانا ان چيزوں ميں شامل ہوتا ہے جس سے ايك عقل و دانش ركھنے والے شخص كى رگ حميت اور غضب بھڑكتى ہے، اور ان سوالات كے پيچھے چھپى ہوئى غرضوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں.

اس ليے كہ يھويدت اور نصرانيت ميں غلامى تو ظالمانہ صورت ميں مقرر اور ثابت ہے، اور ان كى كتابيں اس كے متعلق كلام اور اسے بہتر اور اچھا سمجھنے ميں بھرى ہوئى ہے، اس بنا پر جب پہلى نظر ہى ڈالى جائے تو پھر يہ كہا جاتا ہے: كنيسہ كے يہ پجارى لوگوں كو عيسائيت كى دعوت كيسے ديتے ہيں، حالانكہ نصرانيت تو غلامى اور اس كى مشروعيت كى قائل ہے ؟

اور دوسرے معنوں ميں يہ كہ: وہ اس معاملے كو كيسے ابھارتے اور اچھالتے پھرتے ہيں جس ميں وہ خود اپنى ٹھوڑيوں تك غرق ہيں ؟

ليكن جب دونوں نظريوں كے درميان مقارنہ كيا جائے، اور جب دين اسلام كے آنے كے وقت غلامى كى حالت كے ساتھ مقارنہ كيا جائے تو غلامى كا معاملہ تو بالكل اس كے برعكس اور مختلف نظر آتا ہے.

اس ليے اس موضوع كو كچھ زيادہ تفصيل كے ساتھ بيان كرنا ضروى ہے، جس ميں غلامى كے متعلق يھوديت اور نصرانيت كے ہاں كيا كچھ كہا گيا ہے، اور دور حاضر كے ترقى يافتہ دور ميں اس موضوع كے متعلق كيا ہے اور پھر ہم دين اسلام ميں غلامى كے متعلق كيا ہے يہ بھى ذكر كرينگے.

اسلام اور غلامى:

اسلام كا يہ فيصلہ ہے اور اسلام يہ مقرر كرتا ہے كہ اللہ عزوجل نے انسان كو مكمل مسئوليت والا بنايا ہے، اور اسے شرعى احكام كا مكلف كيا ہے، اور اس كے نتيجہ اجروثواب اور سزا اس اساس اور بنياد پر ركھى ہے يہ اس انسان كے ارادہ اور اختيار كى وجہ سے ہے.

اور كوئى انسان بھى اس ارادہ كو مقيد كرنے كا مالك نہيں، يا پھر بغير حق وہ اس اختيار كو سلب نہيں كر سكتا، اور جو شخص بھى اس كى جرات كريگا وہ ظالم اور جائر ہے.

يہ چيز اس باب ميں دين اسلام كى مباديات ميں سے ظاہر ہے، اور جب يہ سوالات اٹھائے جاتے ہيں كہ:

دين اسلام نے غلامى كو كيسے مباح كيا ؟

تو ہم بغير كسى لگى لپٹى اور شرم كيے بغير پورى قوت كے ساتھ يہ كہينگے كہ:

يقينا دين اسلام ميں غلامى مباح ہے، ليكن انصاف كى نظر اور حق كا مقصد يہ واجب كرتا ہے كہ اسلام ميں غلامى كے احكام كا دقيق مطالعہ كيا جائے، كہ اس كا مصدر كيا ہے، اور اس كے اسباب كيا ہيں، اور پھر غلام كے ساتھ معاملہ كى كيفيت كيا ہے، اور غلام كے آزاد كے ساتھ حقوق اور واجبات ميں مساوات اور برابرى بھى ديكھى جائے، اور حريت اور آزادى كے حصول كے طريقہ كيا ہيں، اور شريعت اسلاميہ ميں اس بہت سے راستے اور باب ركھے گئے ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اس ترقى يافتہ دور كى دنيا ميں نئى غلامى اور ترقى و حضارت كو بھى مدنظر ركھا جائے.

جب دين اسلام آيا تو غلامى كے بہت زيادہ اسباب پائے جاتے تھے جن ميں: لڑائياں اور جنگيں، اور جب مقروض شخص قرض ادا كرنے سے عاجز ہو جاتا، تو وہ غلام بن جاتا، اور غلبہ اور اٹھا كر لے جانا، اور فقر و ضرورت بھى غلامى كا ايك سبب تھا.

اور دنيا كے كونوں ميں اتنى غلامى صرف اس اغواء كرنے اور اچك كر لے جانے سے ہى پھيلى، بلكہ آخرى دور ميں تو يہ امريكہ اور يورپ ميں غلامى كا سب سے بڑا سبب ہى يہى رہا ہے.

اور دين اسلام اپنى نصوص كے ساتھ اس كے خلاف بہت سخت موقف ركھتا ہے:

حديث قدسى ميں ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيان كرتے ہيں كہ اللہ عزوجل نے فرمايا:

" روز قيامت ميں تين قسم كے لوگوں كا مدمقابل اور مخالف ہونگا، اور ميں جس كا مدمقابل اور مخالف ہوا ميں اسے پر غالب آ جاونگا، ان ميں ايك اس شخص كا ذكر كيا: وہ شخص جس نے كسى آزاد آدمى كو بيچ كر اس كى قيمت كھا لى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2227 ).

اور يہ بھى ايك طرفہ ہے كہ آپ كو قرآن مجيد اور سنت نبويہ كى كوئى ايك نص بھى ايسى نہيں ملےگى جو كسى كو غلام بنانے كا حكم ديتى ہو، ليكن آپ كو ايسى بہت سى دسيوں قرآنى آيات اور احاديث رسول مل جائينگى جو غلام آزاد كرنے كى دعوت ديتى ہونگى.

جب اسلام كا ظہور ہوا تو غلام بنانے كے بہت سارے مصدر اور منبع جات تھے، ليكن اس كے مقابلے ميں غلام آزاد كرنے كے طريقے اور راستے تقريبا معدوم تھے، تو دين اسلام نے اپنے قوانين اور اصول و ضوابط ميں اس نظريہ كو بالكل الٹ كر كے ركھ ديا، تو اس طرح آزاد كرنے كے اسباب بہت زيادہ ہوگئے، اور غلام بنانے كے راستوں كو مسدود كر ديا، اور ايسى وصيت اور نصيحت كى گئى جو ان راہوں كو بند اور مسدود كرتى ہيں.

چنانچہ دين اسلام نے غلام بنانے كے ان سب مصادر اور راستوں كو جو رسالت محمديہ كے آنے سے قبل پائے جاتے تھے صرف ايك مصدر اور راہ ميں محصور كر كے ركھ ديا، اور وہ يہ ہے كہ:

وہ جنگ ميں گرفتار ہونے والے كفار قيدى پر غلامى كا حكم ہے، اور اسى طرح ان كى اولاد اور عورتوں پر.

شيخ شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" غلامى كے ساتھ ملكيت كا سبب كفر، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ ہے، اور مسلمان مجاہدين جنہوں نے اپنى جانيں اور مال اور اپنى سارى قوت اور جو كچھ اللہ نے انہيں ديا ہے اللہ كى راہ ميں خرچ كر ديں كہ اللہ كا كلمہ بلند ہو اور كفار مغلوب ہوں، تو جب اللہ تعالى نے انہيں قدرت اور طاقت دى تو وہ كفار پر غالب آئے اور انہيں اپنا قيدى بنا كر غلام اور اپنى ملكيت ميں لے ليا، ليكن جب مسلمان حكمران اور قائد احسان كرتے ہوئے، يا پھر فديہ لے كر انہيں چھوڑ دے جس ميں مسلمانوں كى كوئى مصلحت ہو تو پھر نہيں " اھـ

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 387 ).

اگر يہ كہا جائے كہ: جب كوئى غلام مسلمان ہو تو اس كى غلامى كى وجہ كيا ہے ؟

حالانكہ غلامى كا سبب تو كفر اور اللہ تعالى كے خلاف جنگ ہے اور يہ زائل ہو چكى ہے ؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

علماء كرام اور اكثر دانش مندوں كے ہاں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: سابقہ حق لاحقہ حق سے ختم نہيں ہوتا، اور سبقت كى بنا پر حق بننا ظاہر ہے اس ميں كوئى چيز مخفى نہيں.

تو جب مسلمانوں كو غنيمت ميں كفار قيدى حاصل ہوئے تو ان كى حق ملكيت سب مخلوق كے خالق كے قانون كے مطابق ثابت ہوئى، اور وہ خالق حكيم و خبير بھى ہے، اس ليے جب يہ حق ثابت ہو گيا، اور پھر وہ غلام بعد ميں مسلمان ہوگيا اور اس نے اسلام قبول كر ليا تو اسلامى قبول كرنے كى بنا پر اسے غلامى سے نكلنے كا حق حاصل تھا، ليكن مجاہد كا حق جو اس كے اسلام قبول كرنے سے پہلے كا حق ملكيت ہے وہ سبقت لے گيا ہے، اور يہ كوئى عدل و انصاف نہيں كہ بعد والے حق كى بنا پر پہلا حق ختم كر ديا جائے، جيسا كہ عقلاء و دانش مندوں كے ہاں معروف ہے.

جى ہاں مالك كے ليے يہ بہتر اور اچھا ہے كہ جب غلام اسلام قبول كر لے تو وہ اسے آزاد كر دے، اور شارع نے اس كا حكم بھى ديا اور اس كى ترغيب بھى دلائى ہے، اور اس كے ليے كئى ايك دروازے بھى كھوليں ہيں، تو اللہ حكيم و خبر سب عيبوں سے پاك ہے.

﴿ اور آپ كے رب كا كلام سچائى اور انصاف كے اعتبار سے كامل ہے، اس كے كلام كو كوئى بدلنے والا نہيں، اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ﴾الانعام ( 115 ).

قولہ: " صدقا " يعنى اخبار كى سچائى ميں.

قولہ: " عدلا " يعنى احكام ميں.

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ يہ عدل و انصاف ميں سے ہے كہ غلامى وغيرہ سے ملكيت قرآن مجيد كے احكام ميں سے ہے.

اور كتنے ہى ايسے ہيں جو صحيح قول كى بھى عيب جوئى كرتے ہيں، حالانكہ يہ مصيبت ان كى غلط فھم كى وجہ سے ہے.

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 389 ).

اور غلامى كا سب سے ظاہر مظہر جنگ ميں قيدى بننا تھا، اور ہر جنگ اور لڑائى ميں قيدى تو ضرور ہوتے ہيں، اس دور اور ايام ميں يہ معروف تھا كہ قيدى كى كوئى حرمت اور اسے كوئى حق حاصل نہ تھا، اور وہ يا تو قتل كر ديا جاتا، يا پھر غلام بن جاتا، ليكن دين اسلام آيا تا كہ وہ اس ميں دو اور اختيارات كا اضافہ كرے: احسان كرتے ہوئے قيدى كو چھوڑنا يا پھر فديہ لے كر اسے رہا كر دينا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ يا تو احسان كر كے چھوڑ دو، يا پھر فديہ لے كر ﴾محمد ( 4 ).

چنانچہ جنگ بدر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشركين كے قيديوں سے فديہ لے كر انہيں رہا كر ديا، اور باقى دوسرے غزوات ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہت سے قيديوں كو بغير فديہ ليے ہى احسان كرتے ہوئے چھوڑ ديا، اور خاص كر فتح مكہ كے روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشركين كو كہا تھا:

" جاؤ تمہيں كچھ نہيں كہا جائيگا، تم آزاد ہو "

اور غزوہ بنو مصطلق ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنگ ميں قيد ہونے والے قبيلے كى ايك قيدى عورت سے شادى كى تا كہ اس اس كى شان اور مرتبہ بلند ہو، اس ليے كہ وہ اس قبيلے كے ايك سردار كى بيٹى تھى، اور وہ ام المومنين جويريۃ بنت الحارث رضى اللہ تعالى عنہا ہيں، تو اس طرح كوئى بھى مسلمان ايسا نہ تھا جس نے اپنا قيدى چھوڑ ديا اور اس طرح اس قبيلے كے سارے قيدى ہى آزاد كر ديےگئے.

اس ليے نہ تو دين اسلام قيديوں كے خون كا پياسا ہے، اور نہ ہى وہ اتنا پياسا ہے كہ انہيں غلام بناتا پھرے.

اور اس سے آپ ايك محدود صورت، اور تنگ راہ كا ادراك كرتے ہيں، غلامى ميں جس پر چلا جاتا ہے، اور دين اسلام نے غلامى كو بالكل ہى ختم نہيں كيا، كيونكہ يہ كافر قيدى حق اور عدل و انصاف كى مخالفت كرنے ميں ظالم تھا، يا پھر ظلم كا ممد و معاون تھا، يا ظلم كرنے يا اس كے اقرار ميں ايك آلہ تھا، تو اس كى حريت اور آزادى ظلم و ظغيان اور دوسروں پر غلبہ پانے كے ليے ايك فرصت تھى، اور حق كى راہ ميں ركاوٹ اور لوگوں كو حق تك پہنچنے نہيں ديتا تھا.

يقينا انسان كے ليے حريت اور آزادى اصلى حق ہے، اور كسى شخص سے بھى حق اس وقت تك چھينا نہيں جاتا جب تك كہ اس كا كوئى سبب اور وجہ نہ ہو، اور اسلام نے جب ان حدود و قيود ميں غلامى كے مسئلہ كو قبول كيا جو ہم اوپر بيان كر چكے ہيں تو اس نے انسان پر قيد لگائى جس نے اپنى حريت كى فرصت كو ايك غلط فرصت استعمال كى... تو جب وہ دشمنى كى جنگ جس ميں وہ شكست كھا گيا قيدى بنا تو اس سے قيد كى مدت اور عرصہ اچھے اور بہتر طريقہ سے ركھنا بہت اچھا برتاؤ ہے، اس سب كچھ كے باوجود اسلام ميں ان كے ليے دوبارہ حريت اور آزادى كى فرصت بہت زيادہ اور وسيع ہيں.

جيسا كہ اسلام ميں غلام كے ساتھ برتاؤ كے اصول عدل و انصاف اور رحمدلى سب كو اپنے اندر سموئے ہوئے ہيں.

غلام كى آزادى كے وسائل ميں سے يہ ہے كہ: غلاموں كى آزادى كے ليے زكاۃ ميں ايك حصہ فرض كيا گيا ہے، اور قتل خطاء، اور ظھار، اور قسم كے كفارہ ميں غلام آزاد كرنا، اور رمضان ميں دن كے وقت روزے كے حالت ميں جماع كرنے كے كفارہ ميں غلام كى آزادى، اس پر مستزاد يہ كہ دين اسلام نے اللہ تعالى كى رضا و خوشنودى كے ليے غلام آزاد كرنے كى ترغيب دلائى اور خيالات كو ابھارا ہے.

ذيل ميں ہم ان غلاموں كے ساتھ عدل و انصاف كرنے كے بعض اصول و قواعد كى طرف اشارہ كرتے ہيں:

1 - اپنے اولياء اور مالكوں جيسى خوراك اور لباس كى ضمانت:

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ تمہارے بھائى ہيں، اللہ تعالى نے انہيں تمہارے ہاتھوں كے ماتحت كر ديا ہے، تو اللہ تعالى نے جس كے بھائى كو اس كے ماتحت كر ديا ہو تو وہ اسے وہى كچھ كھلائے جو خود كھاتا ہے، اور وہى پہنائے جو خود پہنتا ہے، اور وہ اسے ايسا كام اور عمل كرنے كا نہ كہے جو اس سے نہ ہو اور وہ اس كى برداشت سے باہر ہو، اور اگر وہ اسے ايسا كام كرنے كا كہے تو پھر اس ميں اس كے ساتھ اس كى معاونت كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6050 ).

2 - ان كى عزت و تكريم كى حفاظت:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو القاسم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے بھى اپنے غلام پر بہتان باندھا اور وہ اس سے برى ہو جو اس نے كہا ہے تو روز قيامت اسے كوڑے مارے جائينگے، الا يہ كہ وہ اسى طرح كا ہو جيسا اس نے اسے كہا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6858 ).

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنا ايك غلام آزاد كر ديا، پھر زمين سے ايك چھڑى يا كچھ پكڑ كر كہنے لگے: ميرے ليے اس ميں اس كے برابر بھى اجر نہيں! ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا كہ:

" جس نے بھى اپنے غلام كو تھپڑ مارا، يا اسے زدكوب كيا تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ اسے آزاد كر دے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1657 ).

3 - غلام كے ساتھ عدل و انصاف كرنا اور اس پر احسان كرنا:

بيان كيا جاتا ہے كہ عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے ايك غلام كى غلطى كى بنا پر اس كا كان پكڑ كر رگڑا، پھر اس كے بعد اسے كہنے لگے: آگے آؤ اور ميرا كان پر چٹكى كاٹو، تو غلام نے ايسا نہ كيا، تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے اس پر اصرار كيا، تو اس غلام نے ہلكى سى چٹكى كاٹى تو عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اچھى طرح چٹكى كاٹو، كيونكہ ميں قيامت والے عذاب كا متحمل نہيں ہو سكتا، تو غلام كہنے لگا: ميرے مالك اسى طرح ميں بھى اس يوم سے ڈرتا ہوں جس سے آپ ڈر رہے ہيں.

اور عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ جب اپنے غلاموں ميں ان كے ساتھ مل كر چلتے تو ان ميں سے كسى كى پہچان نہ ہوتى تھى كيونكہ وہ ان سے آگے نہيں چلتے تھے، اور ان جيسا ہى لباس پہنا كرتے تھے.

اور ايك دن عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ گزر رہے تھے كہ كچھ غلاموں كو كھڑے ہوئے ديكھا، وہ اپنے مالكوں كے ساتھ كھا نہيں رہے تھے تو انہيں بہت غصہ آيا اور ان كے مالكوں كو كہنے لگے: اس قوم كو كيا ہو گيا ہے كہ وہ اپنے خادموں پر اپنے آپ كو ترجيح ديتے ہيں ؟ پھر ان سب خادموں كو بلايا اور اپنے ساتھ كھانا كھلايا.

ايك شخص سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا تو وہ آٹا گوندھ رہے تھے ـ اور وہ گورنر تھے ـ تو وہ شخص كہنے لگا: اے ابو عبد اللہ يہ كيا ہو رہا ہے ؟

تو وہ كہنے لگے: ہم نے غلام كو ايك كام كے ليے بھيجا ہے، اور ہم يہ ناپسند كرتے ہيں كہ اس كے ليے ہم دو كام اكٹھے كر ديں!

4 - بعض اشياء ميں غلام اپنے آقا سے آگے بڑھ سكتا ہے اس ميں كوئى مانع نہيں:

وہ دنياوى اور دينى امور جن ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھا جا سكتا ہے، نماز ميں غلام كى امامت كرانا صحيح ہے، ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا غلام نماز ميں ان كى امامت كروايا كرتا تھا، بلكہ مسلمانوں كو تو يہ حكم ديا گيا ہے كہ آگر ان كے امور كا امير اور ذمہ دار غلام بن جائے تو بھى اس كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائيگى!

5 - وہ اپنے آپ كو اپنے مالك اور آقا سے خريد كر آزاد ہو سكتا ہے.

جب كسى بھى وجہ سے ايسا ہو كہ وہ غلام بن جائے، اور پھر يہ ظاہر ہو كہ وہ اپنى گمراہى سے باز آ جائے، اور اپنا ماضى بھول كر ايك اچھا انسان بن جائے، اور شر و برائى سے دور ہو كر خير و بھلائى كے قريب ہو تو كيا اس كى طلب پورى كرتے ہوئے اسے آزاد كر ديا جائيگا ؟

اسلام اس كى طلب اور درخواست قبول كرنے كا كہتا ہے، اور بعض فقھاء كرام تو اسے واجب قرار ديتے ہيں، اور بعض مستحب كہتے ہيں!!!

اور ہمارے ہاں اسے مكاتب كہتے ہيں يعنى غلام اپنے آقا اور مالك سے اپنا آپ خريد لے، اور اسے قيمت ادا كرنے كا سودا كر لے جو اسے قسطوں ميں ادا كريگا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور تمہارے غلاموں ميں سے جو كوئى بھى تمہارے ساتھ مكاتبت كرنا چاہتے ہيں ( يعنى كچھ دے كر آزاد ہونا چاہتے ہيں ) تو ان تم ان سے مكاتبت كر ليا كرو اگر تمہيں ان ميں كوئى بھلائى نظر آتى ہو، اور جو مال تمہيں اللہ تعالى نے دے ركھا ہے اس ميں سے تم انہيں بھى دو ﴾النور ( 33 ).

غلام كے ساتھ دين اسلام كا يہ عدل و انصاف ہے، اور دين اسلام ان كے ساتھ يہ معاملہ كرتا ہے.

تو ان وصيتوں كے نتيجہ يہ نكلا كہ: بہت سارے اوقات ميں غلام اپنے آقا كا دوست بن گيا، بلكہ اسے اس نے اپنے بيٹے كى جگہ ركھ ليا، ابن سعد بن ہاشم خالدى اپنے غلام كا وصف بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:

وہ ميرا غلام تو نہيں ليكن وہ بيٹا ہے جو مجھے اللہ نگہبان اور بے نياز نے عطا كيا ہے.

اس نے اچھى خدمت كر كے مجھے تقويت دى ہے، اس ليے وہ تو ميرا ہاتھ اور بازو اور كندھا ہے.

مسلمانوں كا غلاموں سے اس طرح كے معاملات كرنے كا نتيجہ يہ ہوا كہ بہت سے غلام خاندان اسلام ميں داخل ہو كر بھائى بھائى اور ايك دوسرے سے محبت كرنے والے بن گئے، حتى كہ وہ اس طرح ہو گئے كہ وہ ايك خاندان كے افراد ہيں.

جوسٹف لوپن اپنى كتاب " عربى تھذيب " يعنى حضارۃ العرب ميں لكھتا ہے:

" ميں جسے سچا سمجھتا اور خيال كرتا ہوں وہ يہ كہ مسلمانوں كے ہاں غلامى غير مسلموں كے ہاں غلامى سے بہتر ہے، اور مشرق ميں غلاموں كا حال يورپ ميں غلاموں كى حالت سے بہت بہتر اور اچھى ہے، مشرق ميں غلام تو خاندان كے افراد ہوتے ہيں .... اور جو غلام آزادى كى رغبت ركھتے ہيں وہ اپنى رغبت پا ليتے ہيں.... ليكن وہ اس كے باوجود اپنا يہ حق استعمال نہيں كرتے " انتہى.

غير مسلمانوں كا غلاموں كے ساتھ معاملہ كس طرح كا ہے ؟

غلاموں كے بارہ ميں يھوديوں كا موقف:

يہوديوں كے ہاں بشريت دو قسموں ميں تقسيم كى گئى ہے:

پہلى قسم: بنو اسرائيل.

دوسرى قسم: باقى سارى بشريت.

رہے بنو اسرائيل تو ان كا ايك دوسرے كو عہد قديم كى تعاليم كے مطابق غلام بنانا جائز ہے.

ليكن اس كے علاوہ جو بنى اسرائيل نہيں وہ يہوديوں كے ہاں گرى پڑى جنس ہے، جنہيں زبردستى اور تسلط كے ذريعہ غلام بنايا جا سكتا ہے، كيونكہ وہ ايسى نسليں ہيں جن پر آسمان قديم كے نام سے ذلت لكھ دى گئى ہے:

انجيل كے سفر ( 2 - 12 ) الخروج كے اكيسويں اصحاح ميں لكھا ہے:

جب آپ كوئى عبرانى غلام خريديں تو وہ چھ برس خدمت كريگا اور ساتويں برس مفت ہى آزاد ہو جائيگا، اگر وہ اكيلا داخل ہوا تو اكيلا نكلےگا، اور اگر عورت كے ساتھ ہو تو وہ اپنى بيوى كے ساتھ نكلے گا، اور اگر اس كے آقا نے اسے عورت دى اور اس نے بيٹے اور بيٹياں جنى تو عورت اور اس كى اولاد مالك كى ہونگے، اور وہ اكيلا ہى آزاد ہو كر نكلےگا، ليكن اگر غلام كہے كہ ميں اپنے آقا اور اپنى بيوى اور اولاد سے محبت كرتا ہوں اور آزاد نہيں ہوتا، تو اس كا مالك اسے اللہ كے سپرد كردےگا، اور وہ اسے ربى يا قائمۃ كے سپرد كر ديگا، اور اس كا مالك اس كے كان ميں سوراخ كريگا اور وہ سارى عمر خدمت ہى كرتا رہےگا.

ليكن غير عبرانى كو قيد يا تسلط كے ذريعہ غلام بنايا جائيگا كيونكہ ان كا اعتقاد ہے كہ يہوديوں كى جنس باقى لوگوں سےاعلى اور برتر ہے، اور وہ اس غلامى كے ليے محرف شدہ توراۃ سے سند اور دليل تلاش كرتے ہوئے كہتے ہيں:

حام بن نوح ـ جو كہ كنعان كا باپ ہے ـ نے اپنے باپ كو ناراض كر ديا تھا، كيونكہ ايك روز نوح نے نشہ كيا اور پھر ننگے ہو گئے، جبكہ وہ اپنے خيمہ ميں سوئے ہوئے تھے، تو حام نے اسے اسى حالت ميں ديكھا، اور جب بيدار ہونے كے بعد نوح كا اس كا علم ہوا تو وہ ناراض ہوا، اور اس كى نسل پر لعنت كى اور وہ كنعان ہے.

اور كہا ـ جيسا كہ توراۃ كے چيپٹر " التكوين " اصحاح ( 9 / 25 - 26 ) ميں ہے:

( كنعان ملعون غلام ہے، اپنے بھائيوں كا غلام ہوگا، اور كہا: سام كا الہ مبارك رب ہے، اور كنعان ان كا غلام ہو ).

اور اسى اصحاح ( 27 ) ميں لكھا ہے:

( اللہ تعالى يافث كو فتح دے اور وہ سام كے مسكن ميں رہے، اور كنعان ان كا غلام بنے ).

اور چيپٹر " التثنيۃ " الاصحاح نمبر ( 20 ) ( 10 - 14 ) ميں لكھا ہے:

جب تم شہر ميں داخل ہونے كے ليے اس كے قريب پہنچو تو اسے صلح كى طرف بلاؤ، اگر وہ تمہارى صلح كى بات مان ليں اور اللہ تعالى تجھے فتح دے تو اس ميں جو خاندان بھى موجود ہونگے وہ تيرے كام كاج اور تيرى غلامى كرينگے، اور اگر وہ تيرى صلح قبول نہ كريں بلكہ تو ان كے ساتھ لڑائى كرے تو ان كا محاصرہ كر، اور جب تيرا رب اس شہر كو تيرے سپرد كر دے تو پھر اس كے سب مردوں كو تلوار سے قتل كردے، ليكن عورتوں اور بچوں اور چوپائيوں اور ہر وہ كچھ جو شہر ميں ہے وہ اس كى غنيمت ہے تو اسے اپنے ليے غنيمت بنا لے ).

غلامى كے متعلق عيسائيوں كا موقف:

نصرانيت آئى تو اپنے سے قبل يہوديوں كى طرح غلامى كو برقرار ركھا، انجيل ميں كوئى ايسى نص نہيں جو غلامى كو حرام كرتى ہو، يا اس سے انكار كيا ہو.

يہ بات بہت ہى عجيب ہے كہ عيسائى مؤرخ ( وليم ماير ) ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر تو عيب جوئى كرتا ہے كہ انہوں نے غلامى كو كسى بھى حال ميں باطل نہيں كيا، اور غلامى كے متعلق انجيل كے موقف سے چشم پوشى كر لى ہے، كہ انہوں نے اس كے متعلق نہ تو مسيح عليہ السلام سے، اور نہ ہى حواريين سے، اور نہ ہى كنائس سے كچھ نقل كيا ہے.

بلكہ پولس تو اپنے رسائل ميں وصيت كرتا ہے كہ غلام پورے اخلاص كے ساتھ اپنے آقا كى خدمت كريں، جيسا كہ اس نے اہل افسس كى جانب پيغام ميں لكھا ہے.

پولس نے حكم ديا كہ غلام اپنے آقا كى بالكل اسى طرح اطاعت كريں جس طرح وہ مسيح كى اطاعت كرتے ہيں، چنانچہ وہ اہل افسس كى طرف پيغام ارسال كرتے ہوئے چھٹے اصحاح ( 5 - 9 ) ميں كہتا ہے:

( اے غلامو! اپنے آقاؤں كى خدمت جسم كے مطابق پورے خوف اور ڈر كے ساتھ كھلے دل كيا كرو جس طرح مسيح كى كرتے ہو، نہ كہ ايسى خدمت جو آنكھوں سے ہو، مثلا كوئى لوگوں كو راضى كرنے كے ليے كرتا ہے، بلكہ مسيح كے غلاموں كى طرح، دل سے اللہ كى مشيت پر عمل كرتے ہوئے، صحيح اور صالح نيت كے ساتھ خدمت كرو، جيسا كہ رب كے ليے ہوتى ہے، لوگوں كے ليے نہيں، يہ جانتے ہوئے كہ ہر كوئى جتنى بھى خير و بھلائى كر لے تو يہ رب كو پہنچ جاتى ہے چاہے وہ غلام كى جانب سے ہو يا آزاد كى جانب سے ).

اور انيسويں صدى كى المعجم الكبير ( لاروس ) ميں ہے:

" انسان كو غلامى باقى رہنے اور عيسائيوں ميں آج تك جارى ہونے ميں كوئى تعجب نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ دين كے بڑے سركارى لوگ اس كے صحيح ہونے كا اقرار كرتے ہيں، اور اس كى مشروعيت كو تسليم كرتے ہيں.

اور اس ميں يہ بھى ہے:

" خلاصہ يہ ہے كہ: بلا شبہ مسيحى دين ہمارے اس دور تك پورے طور پر غلام بنانے پر راضى ہے، اور انسان كے ليے بہت ہى مشكل ہے كہ وہ اسے باطل كرنے كى كوشش ثابت كر سكے "

قديس حضرات نے اقرار كيا ہے كہ طبعيت نے بعض لوگوں كو غلام بنايا ہے.

تو كنيسہ اور چرچ والوں نے غلام بنانے سے منع نہيں كيا، اور نہ ہى اس كى مخالفت كى ہے، بلكہ وہ اس كى تائيد كرتے رہے ہيں، حتى كہ قديس فلسفى ٹومس اكوينى آيا تو اس نے فلسفہ كى رائے دينى سرداروں كى رائے كے ساتھ ضم كر دى تو اس نے غلامى پر كوئى اعتراض نہيں كيا، بلكہ اسے اچھا جانا اور اس كى توصيف كى ہے، كيونكہ ـ اس كے استاد ارسطو كى رائے يہ ہے كہ ـ فطرتى اور طبعى طور پر جس حالات ميں بعض لوگ پيدا كيے گئے ہيں اس ميں سے ايك حالت ہے، اور يہ ايمان كے منافى نہيں كہ انسان دنيا ميں سب سے كم ترين حصہ پر مطمئن ہو جائے.

ديكھيں: حقائق الاسلام تاليف العقاد صفحہ نمبر ( 215 ).

اور ڈاكٹر جارج يوسف كى قاموس كتاب مقدس ميں درج ہے:

" مسيحيت نے غلامى پر كوئى اعتراض نہيں كيا، تو اس كى سياسى وجہ سے، اور نہ ہى اقتصادى وجہ سے، اور نہ ہى وہ مومنين كو غلامى كے اعتبار سے اپنے آداب ميں اپنى نسل كى دشمنى اور اختلاف پر ابھارتى ہے، حتى كہ اس ميں بحث و مباحثہ كرنے ميں بھى نہيں، اور غلاموں كے مالكوں كے حقوق كے خلاف كچھ بھى نہيں كہا، اور نہ ہى غلاموں كو آزادى اور استقلال پر تيار كرتى ہے، اور نہ ہى عيسائيت نے غلامى كے نقصانات ميں بحث كى ہے، اور نہ ہى اس كى سختى ميں، اور كسى بھى حال ميں غلام آزاد كرنے كا حكم نہيں ديتى، اور بالاجماع غلام اور آقا ميں كچھ بھى شرعى نسبت تبديل نہيں ہوئى، بلكہ اس كے برعكس اس نے دونوں فريقوں كے حقوق اور اسكے واجبات ثابت اور مقرر كيے ہيں "

دور حاضر كا يورپ اور غلامى:

قارى كو ترقى يافتہ اور قوت كے دور ميں يہ سوال كرنے كا حق حاصل ہے كہ اس دور ميں كيا ترقى ہے، اور كون ہيں جو شكار كے طريقوں كے سبب مارے جاتے تھے، اور وہ كون ہيں جو ساحل كى طرف جانے والے راستوں ميں مارے جاتے جہاں انگريزى كشتياں لنگرانداز ہوتيں، پھر باقى لوگ موسم اور ماحول ميں تبديلى كے باعث مرتے، اور چار فيصد لوگ كارگو كے دوران ہلاك كون ہوتے ہيں، اور دوران سفر بارہ فيصد اور اس پر مستزاد يہ كہ دوسرے ممالك پر قبضوں ميں مارے جاتے ہيں!!!

اور انگريزى كمپنيوں كے ہاتھ غلاموں كى خريد و فروخت كى تجارت نے حكومت برطانيہ كى اجازت سے زخيرہ اندوزى كا حق حاصل كيا، اور پھر سارى برطانوى رعايا كے ليے غلام ركھنے كى اجازت دےدى، اور بعض ماہرين تو يہ تخمينہ لگاتے ہيں كہ بريطانويوں نے جن لوگوں كو غلام بنايا اور ( 1680 ) سے ليكر ( 1786 ) تك دوسرے ممالك پر قبضہ كر كے جنہيں غلام بنايا گيا ان كى تعداد تقريبا ( 2130000 ) اشخاص تھى.

اور جب يورپ كا رابطہ سيافام افريقہ سے ہوا تو يہ رابطہ انسانيت كے ليے ايك الميہ بن گيا، جس ميں اس براعظم پر پانچ صديوں تك محيط آزمائش رہى، يورپى ممالك منظم ہوگئے اور ان كى عقل ميں ان لوگوں كو وہاں سے اٹھا كر اپنے ملكوں ميں لانے كے ليے كئى قسم كے گندے طريقے نشو و نما پانے لگے، تا كہ يہ لوگ ان كى ترقى كے ليے ايندھن بن سكيں، اور يہ ان سے وہ اعمال كرا سكيں جن كے يہ متحمل بھى نہيں ہو سكتے، اور جب امريكہ تلاش ہوا اور اس كا انكشاف ہوا تو يہ مصيبت اور بھى زيادہ ہو گئى، اور يہ افريقى ايك براعظم كى بجائے دو كى خدمت كرنے لگے!!

برطانوى دائرۃ المعارف ( برطانوى انسائيكلوپيڈيا ميں ( 2 / 779 ) مادہ (Slavery ) كے تحت درج ہے:

غلاموں كو ان كى بستيوں اور ديہاتوں سے سے اس طرح شكار كيا جاتا تھا كہ: بستيوں كے اردگرد درختوں كے جھنڈ ہوتے اور بستى كے ارد گرد خشك گھاس ميں آگ لگا دى جاتى اور جب بستى كے لوگ كھلى جگہ كى طرف نكلتے تو انگريز انہيں مختلف طريقوں سے شكار كر ليتے "

( 1661 ) سے ( 1774 ) ميلادى كے دوران دس ملين ميں سے ايك ملين افريقى سياہ فام كو امريكہ منتقل كيا گيا، اور نو ملين افراد دوران شكار، اور منتقل كرنے كے دوران موت كا شكار ہو گئے، يعنى وہ جن دس افراد كو شكار كرتے صرف وہى زندہ بچتے اور انہيں امريكا منتقل كر ديا جاتا، اس ليے نہيں كہ وہ راحت اور آرام سے زندگى بسر كر سكيں گے اور لذت حاصل كرينگے، بلكہ اس ليے كہ وہ انہيں مذاق اور عذاب حاصل ہو!!

اور اس ميں ان كے ليے ايسے قوانين اور اصول تھے جسے سن كر ہى عقل مند شرماتے ہيں!

ان كے ان سياہ قوانين ميں يہ شامل تھا كہ:

جو كوئى بھى اپنے آقا پر زيادتى كريگا قتل كر ديا جائيگا.

اور جو كوئى بھى فرار ہو اس كے ہاتھ پاؤں كاٹ كر اسے گرم لوہے سے داغا جائيگا.

اور اگر وہ دوسرى بار بھاگا تو قتل كر ديا جائيگا، حالانكہ وہ بھاگ بھى كيسے سكتا ہے كہ اس كے تو ہاتھ پاؤں ہى كاٹے جا چكے ہيں!!

اور ان كے قوانين ميں شامل تھا كہ:

سياہ فام مرد كے ليے تعليم حاصل كرنا حرام ہے.

اور رنگ داروں پر سفيد فام كى ملازمت حرام ہے.

اور امريكا كے قوانين ميں يہ قانون بھى ہے:

اگر سات غلام اكٹھے اور جمع ہو جائيں تو يہ جرم شمار ہوگا.

اور سفيد فام كے ليے جائز ہے كہ جب وہ ان كے پاس سے گزرے تو ان پر تھوكے، اور انہيں بيس كوڑے مارے.

اور ايك دوسرے قانون ميں ہے:

غلاموں كى نہ تو روح ہے، اور نہ ہى جان، اور نہ ہى انہيں كوئى ذہانت حاصل ہے، اور نہ ہى ارادہ اور زندگى صرف ان كے بازؤں ميں ہے.

اس كا خلاصہ يہ ہے كہ:

واجبات، اور خدمت، اور اسے استعمال كرنے سے اعتبار سے تو غلام عاقل ہے، اور كوتاہى كرنے پر اسے سزا دى جائيگى، ليكن حقوق كے اعتبار سے نہ تو اس ميں روح ہے، اور نہ ہى اس كوئى وقعت ہے، بلكہ وہ صرف ايك بازو كى حيثيت ركھتا ہے !!!

اور پھر بالاخر كئى صديوں كے ظلم و ستم كے بعد غلامى كى ممانعت كا نظام اور آزادى كا پروٹوكول بنايا گيا اور غلامى كو ختم كر ديا گيا، اور اس كا اعلان اقوام متحدہ كى ہيڈ كوارٹر سے ( 1953 ) ميلادى ميں ہوا.

اور اس طرح ان كے ضمير اس آخرى صدى ميں جا كر بيدار ہوئے جبكہ انہوں نے اپنى ترقى كو ان آزاد لوگوں كى ہڈيوں پر تعمير كيا جنہيں ايہ لوگ ظلم اور زبردستى غلام بنا كر لائے تھے، اور كونسا منصف ہے جو اس كا مقارنہ اسلامى تعليمات كے ساتھ كرتا ہے ـ جسے چودہ سو برس سے بھى زائد گزر چكے ہيں ـ وہ يہ ديكھتا ہے كہ اسلام نے اس موضوع ميں بلا سوچے ہى دخل اندازى كى ہے، يہ تو بالكل اس كى مثال تو درج ذيل ضرب المثل جيسى ہے:

رمتنى بدائھا و انسلت

اس نے اپنى بيمارى ميرى طرف منسوب كر دى اور خود كھسك گئى!

سب سے زيادہ علم تو اللہ ہى كے پاس ہے.

ديكھيں كتاب: شبھات حول الاسلام تاليف محمد قطب، اور تلبيس مردود فى قضايا خطيرۃ تاليف شيخ ڈاكٹر صالح بن حميد امام خانہ كعبہ.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ