قرآن مجید میں کلمۃ " امۃ " کا معنی

قرآن مجید پڑھتے ہوۓ کئ بار کلمۃ " امۃ " گزرا اور مجھے محسوس ہوا کہ اس کا ایک نہیں کئ ایک معانی ہیں ، کیا یہ صحیح ہے اوراس کلمہ کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہيں ؟

الحمد للہ
شیخ محمد شنقیطی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

قرآن مجید میں کلمہ " امۃ " کا استعمال چارطرح ہوا ہے :

اول :

وقت میں سے تھوڑي مدت کے لیے استعمال ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے : { ولئن اخرنا عنھم العذاب الی امۃ معدودۃ } اوراگر ہم ان سے تھوڑي مدت کے لیے عذاب مؤ‎خر کردیں ۔

اور ایسے ہی اس فرمان باری تعالی میں :

{ وقال الذی نجا منھما وادکر بعد امۃ } اوران دوقیدیوں میں سے جورہا ہوا تھا اسے مدت کے بعد یاد آگیا اور کہنے لگا ۔

دوم :

لوگوں کی ایک جماعت کے لیے استعمال ۔

غالب طور پراسی معنی میں زيادہ استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ ووجد علیہ امۃ من الناس یسقون } اور وہاں پر لوگوں میں سے کچھ کو پانی پلاتے ہوۓ پایا ۔

اوراللہ رب العزت کا فرمان ہے :

{ ولکل امۃ رسول } اورہر امت کے لیے رسول ہے

اور فرمان ربانی ہے : { کان الناس امۃ واحدۃ } لوگ ایک ہی جماعت تھے ، اس کے علاوہ اور بھی کئ آیات ہیں ۔

سوم :

اس شخص کے بارہ میں استعمال ہوا ہے جس کی اتباع کی جاۓ ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ ان ابراھیم کان امۃ } بیشک ابراھیم علیہ السلام ایک امت تھے ۔

چہارم :

شریعت اور طریقہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ انا وجدنا آباءنا علی امۃ } بیشک ہم نے اپنے آباءواجداد کو ایک طریقے پرپایا ، اور اللہ جل شانہ نے فرمایا :

{ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ } بیشک یہ تمہارا طریقہ ایک ہی ہے ۔

اس کے علاوہ اوربھی کئ ایک آیات ہیں ۔ .

اضواء البیان للشنقیطی (3/13)

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ