والد فیملی کا خیال نہیں کرتاانہیں چھوڑکر تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتا ہے

اس والد کے متعلق کیا حکم ہے جو اپنی فیملی کا خرچہ نہیں کرتا اور بے کار رہتا ہے اور نہ ہی میری والدہ کو مال دیتا ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال میں صرف کرسکے مثلا کھانے وغیرہ میں ؟
توکیا مال کے سبب میرے والد کا مجھ سے غصہ ہونا اور مجھ سے بات نہ کرنا میرے لۓ گناہ کا باعث ہے ؟ اورکیا اگرمیں والد کوچھوڑ کرصرف والدہ سے بات کرو ں تو گناہ گار ہوں ؟ میراوالد تبلیغی جماعت کےساتھ دعوت کے لۓ جاتا ہے لیکن گھر کی کوئ کسی قسم کی مسؤلیت کا خیال نہیں کرتا توکیا صحابہ کرام اس طرح کیا کرتے اوراپنی اولاد کوچھوڑ کردعوت کے لۓ جایا کرتے تھے ؟

الحمد للہ
اس میں کوئ شک نہیں کہ اس طرح کی مشکلات کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب شرعی احکام کا علم نہ ہو ، اسے اس بات کا علم نہ ہو کہ گھرانے میں اس کی کیا ذمہ داری ہے ، اور اللہ تعالی نے خاندان اوراس کے گھرانے کے متعلق اس پر کیا ذمہ داریاں عائد کی ہیں ۔

بیوی اور اولاد کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان کے نان ونفقہ کا انتظام کیا جاۓ ، بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے بندہ جس کے ساتھ اللہ تعالی کی سب سے بڑی اطاعت اوراس کا تقرب حاصل کرتا ہے ۔

اورنفقہ میں مندرجہ ذیل اشیاء شامل ہیں :

کھانا پینا اوران کی رھائش اور لباس کا انتظام ، اوروہ سب اشیاء جوکہ بیوی اوراولاد کوضرورت ہوں تاکہ انہیں بدنی طاقت اورسرچھپانے کی جگہ حاصل ہوسکے ۔

اللہ عزوجل نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ مرد ہی عورتوں پر خرچہ کرنے کا ذمہ دار ہے ، اسی لۓ توانہیں اللہ تعالی نے عورتوں پر فضیلت دی ہے کہ وہ ان کے ذمہ دار اور ان پر خرچہ اور ان کے مہر کے ذمہ دار ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کۓ ہیں } اس نان ونفقہ کے وجوب پر قرآن وسنت میں بہت سے دلائل پاۓ جاتے ہیں اور اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ یہ واجب ہے اور اسی طرح عقل بھی اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔

قرآن مجید سے دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : { فراخی والے کواپنی فراخی سے خرچ کرنا چاہۓ اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئ ہو اسے چاہۓ کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (حسب حیثیت ) دے ، اللہ تعالی ہرایک کو اس کی استطاعت کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے ، اللہ تعالی تنگی کے بعد آسانی وفراغت بھی کردے گا }

اللہ سبحانہ وتعالی کے ارشاد کا ترجمہ ہے :

{ اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ اچھے اوراحسن طریقے سے ان کا روٹی کپڑا ہے ، ہرشخص کو اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے جتنی اس میں طاقت ہو }

اوردوسری جگہ پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ اوراگروہ حمل سے ہوں توجب تک بچے کی ولادت نہ ہوجاۓ انہیں خرچ دیتے رہو }

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل :

بہت سی احادیث وارد ہیں جن سے خاوند کا بیوی بچوں اورجن کا وہ ولی ہو ان پر خرچہ کرنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے ذیل میں چند ایک احادیث پیش کی جاتی ہیں :

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : ( عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ تمہارے پاس امانت ہیں ، انہیں تم نے اللہ تعالی کی امانت کے ساتھ حاصل کیا اور ان کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے ، تمہارے ذمہ ان کااحسن طریقے سے نان نفقہ اور لباس ہے )

صحیح مسلم ( 8 / 183 )

عمرو بن احوص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا ( خبردارتم پر تمہاری بیویوں کا، اور تمہارا ان پر حق ہے ، تمہاری بیویوں پر تمہارا حق یہ ہےکہ وہ مردوں سے دوستیاں نہ لگائيں ، اورجسے تم ناپسند کرتے ہواسے تمہارے گھروں میں انہیں آنے کی اجازت دے ، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے نان ونفقہ اورکپڑے وغیرہ کا احسن طریقے سے انتظام کرے )

ترمذی شریف حدیث نمبر ( 1163 ) اور ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 )

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب توکھاۓ تو اسے بھی کھلا ، اورجب تو پہنے تو اسے بھی پہنا ، اوراسے برابھلا نہ کہہ ، اور نہ ہی اسے مارے ۔

سنن ابو داود ( 2/ 244 ) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1850 ) مسند احمد ( 4 / 446 )

امام بغوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : خطابی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ اس حدیث میں نان ونفقہ کا وجوب بیان کیا گیا ہے ، اوراس کی مقدار خاوند کی استطاعت کے مطابق ہوگی ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیوی کا حق قرار دیا ہے تو خاوند کے ذمہ لازم ہے چاہے وہ موجود ہویا غائب ، اوراگر فی الحال اس کے نہیں تو یہ تمام واجب حقوق کی طرح اس پر قرض ہوگا اگرچہ اس کے غیب ہونے کے ایام میں قاضی اسے فرض کرے یا نہ کرے ۔ اھـ

اوروھب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام نے انہیں کہا کہ میں میں یہ مہینہ بیت المقدس میں گذارنا چاہتا ہوں ، تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی اسے کہنے لگے تو نے اپنے گھروالوں کے لۓ اس مہینے کاخرچہ انہيں دے دیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا نہیں ، توانہوں نے اسے کہا کہ واپس جا‎ؤ اورانہيں خرچہ دو کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ : آدمی کے لۓ یہ گناہ کافی ہے کہ وہ اپنی کفالت میں رہنے والوں کو ضائع کردے ۔ مسند احمد ( 2 / 160 ) ابوداود حدیث نمبر ( 1692 )

اور اس حدیث کی اصل مسلم شریف حديث نمبر( 245 ) ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ( آدمی کے لۓ یہ گناہ ہی کافی ہے کہ وہ جن کے خرچہ کا ذمہ دار ہے ان کا خرچہ روک لے )

انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ تعالی ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کرے گا کہ آیا اس نے ان کی حفاظت کی یا کہ ضائع کردیا ، حتی کہ آدمی کو اس کے اہل خانہ کے متعلق بھی سوال کیا جاۓ گا ) صحیح ابن حبان ۔

ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : ( اللہ کی قسم تم میں سے کسی ایک کے لۓ یہ بہتر ہے کہ وہ جاکر لکڑیاں کاٹے اوراپنی پیٹھ پر اٹھا ۓ اور انہیں بیچ کر غنا حاصل کرے اور اس میں سے صدقہ کرے یہ سوال کرنے والے شخص سے بہتر ہے کہ اسے کچھ دیاجاۓ یا نہ دیا جاۓ‌ ، اور یہ اس لۓ کہ اوپروالا ھاتھ (دینے والا ) نیچے والے ھاتھ (لینے والے ) سے بہتر ہے اور جن کی تو کفالت کرتا ہے ان سے ابتدا کر ) صحیح مسلم ( 3 / 96 )

اوردوسری روایت میں ہےکہ ( آپ سے یہ کہا گيا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری کفالت میں کون ہیں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری بیوی ان شامل ہے جن کی تو کفالت کرتا ہے ) مسند احمد ( 2 / 524 )

جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جب اللہ تعالی نے تمہیں کوئ بھلائ اور خیر (مال ودولت ) عطا کی ہو تو اسے خرچ کرنے کی ابتدا اپنے آپ اور اپنے اہل عیال پر کرنی چاہۓ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1454 )

اھل علم کا اجماع :

امام ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

ابن المنذر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ اھل علم اس بات پر متفق ہیں کہ خاوندوں پر ان کی بیویوں کا نفقہ واجب ہے صرف اس بیوی کا نہیں جو کہ جھگڑالو اور نافرمان ہو ۔ المغنی ابن قدامۃ ( 7 / 564 )

مندرجہ بالا شرعی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آدمی کے ذمہ اسے کے اھل وعیال کا نان و نفقہ اور ان کا خیال رکھنا اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا واجب ہیں ، اور اس کی فضیلت میں بہت سی احادیث بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایسا عمل ہے جو کہ اللہ تعالی کے ہاں اعمال صالحہ اور محبوب اعمال میں شامل ہے ۔

جیسا کہ ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ثواب کی نیت سے جو چيز بھی آدمی اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے وہ اس کے لۓ صدقہ بن جاتا ہے ) صحیح بخاری ( 1/ 136 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں بیان کرتے ہیں کہ :

اس پر اجماع ہے کہ اہل عیال پر خرچ کرنا اور ان کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا واجب ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صدقہ اس لۓ کہا ہے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ انہیں اس واجب کام میں کوئ اجرو ثواب حاصل نہیں ہوگا ، اور اس لۓ کہ انہیں صدقہ کے اجروثواب کا علم ہے ، تو انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ان کے لۓ صدقہ ہے تاکہ وہ اسے اہل وعیال کوچھوڑ کر دوسروں کونہ دیتے پھريں لیکن اگر اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعد زیادہ ہوتوپھر اسے کہیں اور خرچ کرلیں ، اور اس میں ان کے لۓ یہ ترغیب ہے کہ اس واجب صدقہ کو پہلے ادا کریں اور بعد میں وہ صدقہ جو کہ نفلی ہے دیں ۔ فتح الباری ( 9/498 )

اورسعد بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :

( بیشک تو اپنے اہل عیال پر خرچ کرے گا وہ تیرے لۓ اجروثواب کا باعث ہو گا ، حتی کہ وہ لقمہ جو کہ تواٹھاکر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے ) صحیح بخاری ( 3 / 164 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1628 )

اورابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ایک دینار تو اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرے ، اور ایک جو تو نے غلام آزاد کرنے کے لۓ خرچ کیا ، اور ایک دینار تو نے مسکین پر خرچ کیا ، اور ایک دینا تونے اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا ، تو ان میں سے سب سے زیادہ اجروثواب والا دینار وہ ہے جو تو اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا ) صحیح مسلم ( 2 / 692 )

اور کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک شخص گزرا تو صحابہ کرام کو اس پھرتی اور جثہ بہت ہی اچھالگا تو وہ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہ شخص اللہ تعالی کے راستے میں (جہاد) ہوتا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ : اگریہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے (رزق ) کے لۓ کوشش کررہا ہے تو یہ اللہ تعالی کے راستے میں ہے ، اوراگر یہ اپنے بوڑھے والدین کے لۓ کوشش کررہا ہے ہو اللہ تعالی کے راستے میں ہے ، اور اگر یہ اپنے آپ کے لۓ کوشش کررہا ہے تاکہ عفت اختیار کر سکے تو یہ اللہ تعالی کے راستے میں ہے ، اور اگر یہ ساری کوشش میں ریاء کاری ہے تو پھر یہ شیطان کے راستے میں ہے ۔ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے ، صحیح الجامع ( 2 / 8 )

سلف رحمہ اللہ تعالی نے اس واجب کو صحیح طور پر سمجھا اور اس میں تفقہ اختیار کیا ، اور انہوں نے اسے اپنے اہل وعیال کے ساتھ اپنی عملی زندگی میں چراغ کی حیثیت دے رکھی تھی ، اس مسئلہ میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالی کا بہت ہی عظیم قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ : رزق حلال کمانے کی جگہ کوئ اور عمل نہيں لے سکتا حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔ السیر ( 8/ 399 )

تو کسی مسلمان کے لۓ یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے اہل عیال کو ضائع کرے اور ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھے اور انہیں خرچہ فراہم نہ کرے اگرچہ اس کا یہ ہی گمان کیوں نہ ہو کہ وہ یہ سفر نیکی اور اچھے کام کے لۓ کررہا ہے ، کیونکہ اہل وعیال کوضائع کرنااور ان کی ضروریات کا خیال نہ کرنا اور انہیں خرچہ فراہم نہ کرنا حرام ہے ، اوراس کے متعلق عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی کی نصیحت بیان کی جاچکی ہے جو کہ انہوں نے اس شخص کو فرمائ تھی جو کہ بیت المقدس میں ایک مہینہ کے لۓ رہنا چاہتا تھا اس کے لۓ یہ واجب ہے کہ وہ پہلے اہل وعیال کے خرچہ کا انتظام کر ے ۔

تو سائل بھائ سے میری گذارش ہے کہ وہ اپنے والد کواس جواب کے تقاضا کی نصیحت کرے اور احسن طریقے سے سمجھاۓ اور اس میں نرمی کا برتاؤ کرے ، اور اگر آپ حسب استطاعت اپنے مال سے اس نقص اور ضروریات کو پوری کريں جو کہ آپ کا والد نہیں کرتا تو اس میں آپ کے لۓ اجر عظیم ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کو وہ سب کے حالات درست فرماۓ ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ