وہ عيب جو منگيتر كے ليے بيان كرنا ضرورى ہيں

مجھے چند برس سے ايك بيمارى ہے، اور كچھ عرصہ سے ميں نماز روزہ كى پابندى كر رہوں اور قرآن مجيد كى تلاوتا ور اللہ كا ذكر اور صدقہ و خيرات بھى كرتى اور لوگوں كا تعاون بھى كر رہى ہوں، ميرى حالت بہت بہتر ہو گئى ہے، ليكن اب بھى محسوس كرتى ہوں كہ بيمارى كى باقيات موجود ہيں، كيا ميرے ليے ضرورى ہے كہ جو بھى ميرے ليے رشتہ آئے اسے اس كے متعلق بتاؤں ؟

الحمد للہ:

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو عافيت اور شفايابى نصيب فرمائے، ہميں تو محسوس ہوتا ہے كہ يہ بيمارى كا وہم ہے، اور حقيقتاً آپ كى زندگى ميں كوئى بيمارى نہيں، اور اگر بالفرض يہ موجود بھى ہوں تو ہم كہيں گے:

اگر يہ بيمارى آپ كى ازدواجى زندگى اور اولاد كى تربيت پر اثرانداز نہيں ہوتى تو پھر اس كے متعلق منگيتر كو بتانے كى كوئى ضرورت نہيں.

ليكن اگر يہ اثراانداز ہو كہ شادى كے بعد اس بيمارى سے خرابياں پيدا ہوں اور اس بيمارى كى وجہ سے آپس ميں محبت و الفت اور مودت و انس پيدا نہ ہو تو پھر يہ واضح كرنا اور بتانا ضرورى ہے، اور اس كو چھپانا دھوكہ اور فراڈ شمار ہو گا.

عمومى طور پر حديث ميں ايسا كرنے سے منع كيا گيا ہے، ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى دھوكہ اور فراڈ كيا وہ ہم ميں سے نہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 102 ).

آپ كو وہم اور خيالات و وسوسوں كى طرف التفات نہيں كرنا چاہيے، خاص كر آپ كى بيمارى كے متعلق خيالات، كيونكہ غالباً يہ شيطان كى چال ہے تا كہ وہ آپ كو شادى اور عفت و عصمت اختيار كرنے سے روك سكے.

مخطوبہ عورت كى بيمارى كا اپنے منگيتر كو بتانے ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

ا ـ بيمارى ازدواجى زندگى پر اثرانداز ہوتى ہو، اور خاوند اور اولاد كے حقوق كى ادائيگى ميں يہ بيمارى مخل ہو.

ب ـ يا پھر يہ بيمارى منظر اور بو كے اعتبار سے خاوند كے ليے نفرت كا باعث بنے.

ج ـ يا يہ حقيقى اور دائمى ہو، نہ كہ وہمى اور خيالى بيمارى، اور وقتى كہ وقت كے ساتھ يا شادى كے بعد بيمارى بھى ختم ہو جائے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك جوان لڑكى كو كبھى كبھار پاگل پن كا دورہ پڑتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے، اور وہ اپنى طبعى حالت ميں واپس آجاتى ہے اور يہ عرصہ كبھى زيادہ اور كبھى تھوڑا ہوتا ہے، اور اس كے ليے كئى ايك رشتے آئے ہيں ليكن گھر والوں كو سمجھ نہيں آ رہى كہ انہيں اس بيمارى كے متعلق كيسے بتايا جائے، اور وہ اس ميں تردد سے كام ليتے ہيں جس كى بنا پر شادى كا موقع ضائع ہو جاتا ہے.

اور بالآخر گھر والوں نے يہ بہتر سمجھا كہ اس كى شادى كسى ايسے شخص سے كر دى جائے جو معذور ہو تا كہ وہ اس كو آسانى سے قبول كر لے، اور اب ايك رشتہ آيا ہے جو بانجھ ہے اور اولاد پيدا كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا، اور ايك رشتہ ايسا بھى ہے جو لڑكى كى پھوپھى كا بيٹا ہے اور اسے اسب يمارى كا علم بھى، ليكن مشكل يہ ہے كہ اس لڑكے كى والدہ يعنى لڑكى كى پھوپھى كو بھى يہى بيمارى ہے.

اور جب ہم نے ڈاكٹر سے اس كى رائے اور مشورہ پوچھا تو اس نے جواب ديا كہ وہ اسے افضليت نہيں ديتا؛ كيونكہ احتمال ہے كہ ان كى اولاد كو بھى يہى بيمارى نہ لگ جائے.

سوال يہ ہے كہ:

اس شادى ميں شرعى حكم كيا ہے ؟ اور اگر بچہ بھى اسى بيمارى والا پيدا ہوتا ہے تو كيا ہم نے اصل ميں اس پر ظلم كيا ہے، كہ ہم نے اس طرح كى شادى كرانے ميں معاونت كى تھى، يہ علم ميں رہے كہ اس بيمارى كے شكار بچوں كى ولادت كا احتمال زيادہ ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" آپ كو چاہيے كہ اس لڑكى كو شادى سے محروم مت ركھيں، اور جو رشتہ آيا ہے اس سے اس كى شادى كر ديں، اور باقى معاملہ اللہ كے سپرد كريں، اور احتمال پر مبنى ڈاكٹر كى كلام كو چھوڑ ديں؛ كيونكہ شادى ميں دونوں فريق كى مصلحت پائى جاتى ہے، اور پھر لڑكى بھى بغير شادى كے رہنے سے بچ جائيگى، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ وہ لڑكى بھى اس خاوند پر راضى ہو جسے اس كا ولى بطور خاوند تسليم كر رہا ہے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 194 ).

كميٹى كے علماء سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

اگر كسى لڑكى كے رحم يا ماہوارى ميں پرابلم ہو جو علاج كى محتاج ہو، اور حمل ميں تاخير ہو سكتى ہو تو كيا منگيتر كو اس كے متعلق بتانا ضرورى ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر تو يہ چيز عارضى ہے، جو عورتوں كى ہو جاتى ہے، اور پھر يہ ختم ہو جائے تو اس كا بتانا لازم نہيں، ليكن اگر يہ پرابلم ان امراض ميں شامل ہوتى ہے جو مؤثر ہيں، يا عارضى نہيں، اور منگنى ہو چكى ہے اور وہ ابھى تك اس كا شكار ہے شفا ياب نہيں ہوئى، تو پھر اسے منگيتر كو بتانا ضرورى ہے " انتہى

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ صالح بن فوزان الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 15 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ايك شخص نے ايك عورت سے منگنى كى اور اس عورت كے متعلق معروف ہے كہ اس كى خلقت ميں عيب پايا جاتا ہے ليكن يہ عيب چھپا ہوا ہے ظاہر نہيں، اور يہ عيب دور ہونے كى اميد ہے يعنى شفا مل جائيگى، مثلا برص وغيرہ تو كيا منگيتر كو اس كے متعلق بتانا ضرورى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر كوئى مرد كسى ايسى عورت سے منگنى كرے جس ميں خفيہ عيب ہو، اور كچھ لوگوں كو اس عيب كا علم ہو: اگر منگنى كرنے والا شخص اس عورت كے متعلق دريافت كرے تو اس كو بيان كرنا ضرورى ہے، اور يہ واضح ہے.

اگرچہ وہ اس كے متعلق نہ بھى سوال كرے تو اس كو اس كے متعلق بتايا جائيگا؛ كيونكہ يہ بطور نصيحت ہے، اور خاص كر جب وہ عيب ختم ہونے كى اميد نہ ہو، ليكن اگر وہ عيب ختم ہونے كى اميد ہو تو يہ خفيف و ہلكا ہے، ليكن كچھ ايسى اشياء ہيں جو ختم تو ہو سكتى ہيں ليكن بہت سستى كے ساتھ مثلا ـ اگر يہ صحيح ہو كہ وہ ختم ہو جائيگا ـ ليكن مجھے تو ابھى تك علم نہيں ہوا كہ يہ ختم ہو جاتا ہے.

اس ليے جو جلد ختم ہو اور جو دير ميں ختم ہو اس عيب ميں فرق كرنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 5 ) سوال نمبر ( 22 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ