گھر والوں كے علم كے بغير عرفى شادى كر لى اور اب گھر والے اس كى شادى كرنا چاہتے ہيں
ايك كنوارى لڑكى نے خود ہى ايك شادى شدہ شخص سے ايك عالم دين اور دو گواہوں كے سامنے عالم دين كے گھر تھوڑے سے مہر كے عوض عرفى شادى كر لى، ليكن يہ شادى كسى كاغذ پر نہيں لكھى گئى بلكہ صرف زبانى كلامى ہوئى كيونكہ لڑكى كا والد فوت ہو چكا ہے، اور اس كا كوئى بھائى بھى نہيں اور لڑكى بالغ ہے.
اس شخص نے لڑكى سے رخصتى كے بعد دخول بھى كر ليا ہے اور وہ خفيہ طور پر ايك عرصہ تك خاوند اور بيوى بن كر رہ رہے ہيں ليكن اس كا لڑكى اور لڑكے كے خاندان والوں كو علم نہيں، بعد ميں انكشاف ہوا كہ يہ شادى مستقل طور پر چل نہيں سكتى كيونكہ خدشہ ہے كہ لڑكى كے خاندان والے ہر سوچ كو رد كر دينگے...
لڑكى كے گھر والوں نے لڑكى كى شادى كسى اور شخص سے كرنے كا سوچ ركھا جسے وہ پسند بھى كرتے ہيں اور انہيں لڑكى كے خفيہ رازوں كا علم نہيں اب اس لڑكى كو كيا كرنا چاہيے، كيا يہ شادى صحيح تھى اور اس سے طلاق لينا ضرورى ہے ؟
اور يہ طلاق كس طرح ہو گى، كيا انہيں گواہوں كے سامنے زبانى طلاق ہو گي يا كيا كيا جائے، اور كيا دوسرے شخص كے ساتھ شادى كے وقت اس كے ليے ضرورى ہے كہ اس نے شادى كى تھى، حالانكہ وہ آپريشن كے ذريعہ پردہ بكارت دوبارہ صحيح كروائے گى تا كہ شادى كے وقت رسوائى نہ ہو چاہے اس كى شادى ہو يا نہ ہو ؟
الحمد للہ:
اول:
جمہور فقھاء كے ہاں نكاح صحيح ہونے كے ليے ولى كى موجودگى جو باپ اور پھر بيٹا ـ اگر عورت كا بيٹا ہو ـ اور پھر بھائى اور پھر بھائى كے بيٹے اور پھر چچے، اور پھر چچا كے بيٹے اسى طرح قريب سے قريب تك عصبہ مرد ولى ہو گا.
ليكن اگر ولى نہ ہو تو پھر حكمران يا قاضى ولى بنے گا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" نكاح ولى كے بغير نہيں ہوتا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1881 ) اسے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے.... اور اگر وہ اختلاف كريں تو اس كا حكمران ولى ہو گا جس كا كوئى ولى نہيں "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے اس لڑكى كى اس طريقہ پر شادى صحيح نہيں، كيونكہ يہ ولى كى غير موجودگى اور موافقت كے بغير انجام پائى ہے، اور اصل ميں ان دونوں كے مابين عليحدگى اور تفريق كرانى ضرورى ہے، اور اصل ميں نكاح ہى غير صحيح تھا اس ليے طلاق كى كوئى ضرورت نہيں.
ليكن بعض علماء كرام كے قول كو مدنظر ركھتے ہوئے ـ ليكن ان كا يہ قول ضعيف ہے ـ بغير ولى كے نكاح صحيح ہے اس ليے طلاق ضرورى ہے، اور طلاق كے ليے خاوند طلاق كے الفاظ ادا كرے تو يہى كافى ہے، اور اس ميں عقد نكاح ميں گواہى دينے والے گواہوں كى موجودگى شرط نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور جب عورت فاسد طريقہ سے شادى كرے، تو اس كى آگے اس وقت تك شادى كرنا جائز نہيں جب تك كہ وہ اسے طلاق نہ دے يا پھر نكاح فسخ نہ كر دے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 9 ).
اس ليے جب وہ اسے طلاق دے دے اور اس كى عدت گزر جائے تو اس عورت كے ليے كسى اور سے نكاح كرنا جائز ہے.
دوم:
اس لڑكى كے ليے واجب ہے كہ اس سے شادى كے ليے آنے والے شخص كو اپنى پہلى شادى كہ بتائے، اور اس كے ليے پردہ بكارت صحيح كرانے كے ليے آپريشن كرانا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ خاوند كے ليے دھوكہ ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى دھوكہ اور فراڈ كيا وہ مجھ سے نہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 101 ).
اور يہ تو اس وقت اور بھى يقينى ہو جاتا ہے كہ جب عقد نكاح ميں لكھا جائے كہ لڑكى كنوارى ہے، جيسا كہ سوال كرنے والى كے ملك ميں پايا جاتا ہے.
اور جو بھى اس كے ليے مشكل اور حرج كا سبب ہو اسے بتانا ہو گا، كيونكہ اس نے خود ہى جرم كيا ہے اور يہ حرام شادى كى تھى، اور لوگوں كى نظروں ميں عيب بنى تھى لہذا اسے اس كا نتيجہ بھى بھگتنا ہو گا.
ليكن اگر وہ اس سے اللہ كے ہاں سچى اور پكى توبہ كرتى ہے اور اللہ كى طرف رجوع كرتى ہے تو ان شاء اللہ اللہ تعالى اس كے ليے اس مشكل سے نكلنے كا كوئى نہ كوئى راستہ نكال دے گا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى اور اپنى پسند كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ