تعدد زوجات کا حکم اوراس کی حکمت

حقیقی طورمیں پر میں اسلام کی رغبت رکھتی تھی ، اوراس ویب سائٹ پرآئي تا کہ مزيد اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کرسکوں ، میں ویب سائٹ کے صفحات کودیکھ رہی کہ جس سے میں نے دین اسلام کے بارہ میں بہت کچھ جانا جوکہ پہلے نہیں جانتی تھی ۔
اوران امور نے تو مجھے پریشان کرکے رکھ دیا اورمیرے ذہن کوبکھیر دیا ہے ، اورہوسکتا ہے کہ مجھے اسلام سے داخل ہونے سے بھی دور لے گئي ہوں ، مجھے افسوس ہے کہ میں اس طرح کا سوچنے لگی ہوں ، لیکن یہ حقیقت ہے ، جن امور نے مجھے پریشان کیا ہے ان میں سے ایک توتعدد زوجات ( ایک سے زيادہ عورتوں سے شادی کرنا ہے ) ہے ۔
میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے بتائيں کہ قرآن مجید میں اس کا بیان کس جگہ کیا گيا ہے ؟
میری یہ بھی گزارش ہے کہ آپ میرے لیے چندایک ھدایات بھی ارسال کریں جوکہ میری صحیح زندگي گزارنے میں معاون بن سکیں تا کہ میں صحیح راستے سے بھٹک نہ جاؤں ۔

الحمد للہ
اللہ سبحانہ وتعالی نے رسالت کودین اسلام کے ساتھ ختم کیا ہے اوریہ وہی دین اسلام ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ اس کے علاوہ کوئي اوردین قابل قبول نہيں ہوگا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :

{ بلاشبہ اللہ تعالی ہاں دین تو اسلام ہی ہے اورجوکوئي بھی دین اسلام کے علاوہ کوئي اوردین تلاش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اوروہ آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا } آل عمران ( 85 ) ۔

لھذا آپ کا دین اسلام کوقبول نہ کرنا اوراس سے دورہوجانا آپ کے لیے بہت ہی بڑا خسارہ شمار ہوگا ، اورپھر آپ سے سعادت مندی کی زندگي بھی آپ سے چھن جائے گی جوکہ آپ کے انتظار میں تھی کہ اگر آپ اسلام میں داخل ہوں توآپ کووہ سعادت بھی حاصل ہو۔

تواس لیے ہم یہی کہيں گے آپ جتنی جلدی ہوسکے اسلام قبول کرلیں ، اوراس میں کسی بھی قسم کی تاخیر نہ کریں کیونکہ اسلا م قبول کرنے میں تاخیر کا انجام اچھا نہيں ۔

اورآپ نے جو یہ کہا ہے کہ آپ کا اسلام سے دورہٹنے کا سبب تعدد زوجات ہے ، تواس کے بارہ میں ہم سب سے پہلے توحکم بیان کریں گے ، پھر اس کی حکمت اوراچھی غرض وغایت بھی آپ کے سامنے رکھیں گے ۔۔۔

اول :

دین اسلام میں تعدد زوجات کاحکم :

تعدد کی اباحت اوراس کے جواز میں شرعی نصوص :

اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے :

{ اوراگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکوں گے تو اورعورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چارسے ، لیکن اگر تمہیں برابری اورعدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ } النساء ( 3 ) ۔

توتعدد کے جواز میں یہ نص ہے اوراس آیت سے اس کے جواز پر دلیل ملتی ہے ، لھذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ وہ ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے ، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہيں ۔

لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زيادہ نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے ، مفسرون ، فقھاء عظام اورسب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئي اختلاف نہيں کیا ۔

اوریہ بھی علم میں ہونا چاہیےکہ تعدد زوجات کے لیے کچھ شروط بھی ہیں : ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے :

اول :

عدل :

اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :

{ تواگرتمہيں یہ خدشہ ہوکہ تم ان کے درمیان برابر اورعدل نہیں کرسکتے توپھر ایک ہی کافی ہے } النساء ( 3 ) ۔

تواس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے ، اوراگرآدمی کویہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سےزیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل وانصاف نہیں کرسکے گا توپھر اس کےلیے ایک سے زيادہ شادی کرنا منع ہے ۔

اورتعدد کے جواز کے لیے جوعدل اوربرابری مقصود اورمطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ ، لباس ، اوررات بسر کرنے وغیرہ اورمادی امور جن پر اس کی قدرت اوراستطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے ۔

اورمحبت میں عدل کرنے کے بارہ میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چيز کا اس سے مطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اورپھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا بھی یہی معنی ہے :

{ اورتم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو } النساء ( 129 ) ۔

دوم : دوسری شرط :

بیویوں پرنفقہ کی قدرت ( خرچہ کرنے کی استطاعت ) :

اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :

{ اوران لوگوں کوپاکدامن رہنا چاہیے جواپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے } النور ( 33 )

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جوبھی نکاح کرنے کی استطاعت اورطاقت رکھتا ہواور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہوتووہ پاکبازی اختیار کرے ، اورنکاح کے مانع اشياء میں یہ چيزيں داخل ہيں :

جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو ، اورنہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے ۔

دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 286 ) ۔

دوم :

تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت :

1 – تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے ، اوریہ تومعلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی ، اورایک بیوی کی بنسبت اگر زيادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زيادتی ہوگي ۔

اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے ، اورپھر افرادی قوت کی زيادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گي – لیکن اس کےلیے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگرتدبیری امور صحیح جاری کریں اورموارد سے صحیح طور پر نفع اٹھائيں توپھر- ۔

آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئيں کہ جویہ کہتے پھرتےہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اوروہ انہیں کافی نہیں رہيں گے ، یہ ان کے بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کومشروع کیا اوراپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائي ، اورزمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جوان سب کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ہے ، اوراگرکچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اورغلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے ۔

مثال کے طورپر آپ سکان اورافرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جوکہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے ، بلکہ کئي ہزار گناہ شمار ہوتا ہے ، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے ، توکون ہے جوچین پر چڑھائي کرنے کا سوچے اوراس کی جرات کرے کاش ؟ اورپھر کیوں ؟

2 - سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہيں زيادہ ہے ، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تواس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتوں شادی کے بغیر بچ جائيں گے جوکہ معاشرے اوربذات خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔

عورت ذات کوجو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جواس کی ضروریات پوری کرے اوراس کے معاش اوررہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اورحرام قسم کی شھوات سے اسے روک کررکھے ، اوراس سے ایسی اولاد پید کرے جوکہ اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہو ، جس کی بنا پر وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اورضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔

اورجوکچھ معاشرے کونقصان اورضرر ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اورغلط اورگندے ترین راستے پر چل نکلے گی ، جس سے وہ عورت زنا اورفحش کام میں پڑ جائے گی – اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے – اورمعاشرے میں فحاشی اورگندے ترین ایڈزاور اس جیسے دوسرے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئي علاج نہیں ، اورپھر خاندان تباہ ہوں گے اورحرام کی اولاد بہت زيادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟

تواس طرح انہیں نہ توکوئي مہربانی اورنرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا ، اور نہ ہی کوئي ایسی عقل ملے گی جوان کی حسن تربیت کرسکے ، اورجب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں اوراپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں توان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا اوروہ الٹ جائيں اورپھر انحراف اورضائع ہونا شروع ہوجائيں گے ۔

بلکہ وہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائيں گے اوراسے سزا دیں گے ، اورکسے معلوم ہوسکتا کہ وہ اپنے معاشرے کی تباہی کے لیے کدال بن کراسے تباہ کرکے رکھ دیں ، اورمنحرف قسم کے گروہوں کے لیڈر جن جائيں ، جیسا کہ آج دنیا کے اکثرممالک کی حالت بن چکی ہے ۔

3 - مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے ، اس لیے کہ وہ بہت زيادہ محنت ومشقت کےکام کرتے ہیں ، کہیں تووہ لڑائيوں میں لشکر میں فوجی ہیں ، تومردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زيادہ ہے ، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اورسبب ہے ، اوراس کا صرف ایک ہی حل تعدد ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائيں ۔

4 – مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہيں جن کی شھوت قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زيادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوراس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تووہ بہت ہی زيادہ مشقت میں پڑ جائے گا ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔

آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اورجب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حيض اورنفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، تو اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔

5 - یہ تعدد صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گيا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا ، اوربعض انبیاء علیھم السلام کئي عورتوں سے شادی شدہ تھے ، دیکھیں اللہ تعالی کے یہ نبی سلیمان علیہ السلام ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں ، اورعھد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کئي ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اوربعض کی پانچ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کورکھیں اورباقی کوطلاق دے دیں ۔

6 – ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے ، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اورخاوند کوئي ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لیے مباح ہے تواس کے لیے اس کے پاس اورکوئي چارہ نہیں کہ وہ دوسرے شادی کرے ۔

تواس لیے عدل و انصاف اوربیوی کے بھلائي یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اوراپنے خاوند کودوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے ۔

7 - اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوجس کا کوئي اعالت کرنے والا نہ ہو اوروہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہو اوریہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کےساتھ گھر میں رکھے تا کہ اس کے لیے عفت وانفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے اوراس پر خرچ کرنے سے زيادہ بہتر ہے ۔

8 - کچھ مشروع مصلحتیں جو تعدد کی دعوت دیتی ہيں :

مثلا دوخاندانوں کے مابین روابط کی توثیق ، یا پھر کسی جماعت اورکچھ افراد کے رئیس اوران کے مابین راوبط کی توثیق ، اوروہ یہ دیکھے کہ یہ غرض شادی سے پوری ہوسکتی ہے اگرچہ اس پرتعدد ہی مرتب ہو یعنی اسے ایک سے زيادہ شادیاں کرنی پڑیں ۔

اعتراض :

ہوسکتا ہے کوئی اعتراض کرتاہوا یہ کہے :

تعدد یعنی ایک سے زائد بیویاں کرنے میں ایک ہی گھر میں کئي ایک سوکنوں کا وجود پیدا ہوگا ، اوراس بنا پر سوکنوں میں دشمنی و عداوت اورفخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کا اثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اورخاوند پربھی ہوگا ، جوکہ ایک نقصان دہ چيز ہے ، اورضرر ختم ہوسکتا ہے اوراسے ختم کرنے کے لیے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے ۔

اعتراض کا رد :

اس کا جواب یہ ہے کہ :

خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی نزاع اورجھگڑا پیدا ہوسکتا ہے ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زيادہ بیویاں ہونے کی صورت میں نزاع اورجھگڑا پیدا نہ ہو ، جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیاگيا ہے ۔

اوراگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بنسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع اورجھگڑا زيادہ پیدا ہوتا ہے ، تواگرہم اس جھگڑے کوضرر اورنقصان اورشر بھی شمار کرلیں تویہ سب کچھ بہت سی خير کے پہلو میں ڈوبا ہوا ہے ، اورپھر زندگی میں نہ توصرف خير ہی خير ہے اورنہ ہی صرف شر ہی شر ، مطلب یہ ہے کہ مقصود و مطلوب وہ چيز ہے جو کہ غالب ہو تو جس کے شر پر خیر اوربھلائی غالب ہوگی اسے راجح قرار دیا جائے گا ، اورتعدد میں بھی اسی قانون کومد نظر رکھا گيا ہے ۔

اورپھر ہر ایک بیوی کا مستقل اورعلیحدہ رہنے کا شرعی حق ہے ، اورخاوند کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھرمیں رہنے پر مجبور کرے ۔

ایک اوراعتراض :

جب تم مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مباح کرتے ہو توپھر عورت کے لیے تعدد کیوں نہیں ، یعنی عورت کویہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے ؟

اس اعتراض کا جواب :

عورت کواس کا کوئي فائدہ نہيں کہ اسے تعدد کا حق دیا جائے ، بلکہ اس سے تو اس کی قدر اورعزت میں کمی واقع ہوگی ، اوراس کی اولاد کا نسب بھی ضائع ہوگا ، اس لیے کہ عورت نسل بننے کا مستودع ہے ، اورنسل کا ایک سے زيادہ مردوں سے بننا جائز نہیں اورپھر اس میں بچے کے نسب کا بھی ضياع ہے ۔

اوراسی طرح اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی ضائع ہوگی اورخاندان بکھر جائے گا اولاد کے لیے باپ کے روابط ختم ہوجائيں گے جوکہ اسلام میں جائز نہیں ، اوراسی طرح یہ چيز عورت کی مصلحت میں بھی شامل نہيں اورنہ ہی بچے اورمعاشرے کی مصلحت میں ہے ۔

دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 290 ) ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ