خاوند كا ماں باپ كو خرچ دينا اور بيوى كا اعتراض كرنا
ميرى والدہ مجھ سے بہت سارى اشياء كا مطالبہ كرتى ہے اور ميں ان كى ہر چاہت پورى كرتا ہوں، بعض اوقات والدہ بہت زيادہ پيسے طلب كر كے كہتى ہے كہ يہ قرض ہے، مجھے پتہ ہے كہ والدہ اتنى رقم واپس نہيں كر سكتى، كيونكہ كبھى تو نئى گاڑى خريدنے كے ليے رقم طلب كرتى ہے، يا پھر ميرے چھوٹے بھائى كى مدد كرنے كے ليے، اور اس كے ساتھ ساتھ ميں والد صاحب كے علاج معالجہ كے ليے بھى ماہانہ اخراجات ديتا ہوں اور والدہ كى ضروريات بھى پورى كرتا ہوں.
ليكن ميرى بيوى اس پر راضى نہيں، جس كى بنا پر مجھے بيوى كے ساتھ بہت سارى مشكلات كا سامنا رہتا ہے، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ آيا ميرا والدہ كى ضروريات پورى كرنا غلط ہے، خاص كر جبكہ والدہ ان پيسوں كو ايسى جگہ صرف كرتى ہيں جن پر ميں اور ميرى بيوى مطئمن نہيں ؟
الحمد للہ:
والدين كے ساتھ آپ كا حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنے پر ہم آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں، كہ آپ اپنے والدين كى ضروريات كا خيال كرتے ہوئے انكى ہر ضرورت پر لبيك كہتے ہيں، ہم آپ كو ياد دہانى كرانا چاہتے ہيں انسان پر اس كے والدين كا بہت ہى عظيم حق ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين كے حق كو اپنے حق عبادت كے ساتھ ملا كر بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
{ اور تيرے پروردگار كا فيصلہ ہے كہ تم اس اللہ كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ }الاسراء ( 23 ).
اور ايك دوسرى آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے والدين كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنے كى وصيت كرتے ہوئے فرمايا:
{ اور ہم نے انسان كو اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى وصيت كى ہے }الاحقاف ( 15 ).
اس آيت كى تفسير ميں عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے اولاد كو وصيت كى اور ان سے عہد ليا ہے كہ وہ اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك كريں، اور والدين كے ساتھ نرم و لطيف لہجہ ميں بات كريں، اور مال خرچ كرتے ہوئے والدين كے اخراجات برداشت كريں، اس كے علاوہ باقى ہر قسم كا حسن سلوك بجا لائيں " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 1 / 781 ).
اور ايك آيت ميں اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:
{ يہ لوگ آپ سے دريافت كرتے ہيں كہ وہ كيا خرچ كريں آپ انہيں كہہ ديجئے كہ تم خير ميں سے جو بھى خرچ كرو سو وہ ماں باپ اور قريبى رشتہ داروں اور يتيموں اور مسكينوں اور مسافروں كے ليے ہے }البقرۃ ( 215 ).
چنانچہ والدين اور اس كے قريبى رشتہ داروں كا نان و نفقہ سب سے عظيم اجروثواب اور بہتر نفقات ميں شامل ہوتا ہے.
طارق المحاربى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم مدينہ آئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر كھڑے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے فرما رہے تھے:
" دينے والا ہاتھ اوپر والا ہوتا ہے، اور تم اس سے شروع كرو جو تمہارى عيالدارى ميں ہے، آپ كا والد اور آپ كى ماں اور بہن بھائى پھر اس كے قريب والا اور بعد والا "
سنن نسائى حديث نمبر ( 2532 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2171 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور اگر آپ كے والدين فقير اور تنگ دست ہيں تو پھر ان پر آپ كا خرچ كرنا واجب ہے، آپ كے ليے انكى ہر ضرورت پورى كرنا واجب ہوگى ان كى خوراك اور لباس وغيرہ كا خرچ آپ كے ذمہ ہے.
والدين كے خرچ كا وجوب تفصيل كے ساتھ درج ذيل سوالات كے جوابات ميں بيان كيا گيا ہے، آپ ان كا مطالعہ ضرور كريں: ( 111892 ) اور ( 129344 ).
رہى باقى ماندہ اشيا يعنى خوراك اور لباس كے علاوہ تو اس كے اخراجات بيٹے پر واجب ہيں، ليكن اگر وہ اس خرچ كو بھى برداشت كرتا ہے يہ حسن سلوك ميں شامل ہوگا اور اس پر بھى اسے اجروثواب حاصل ہوگا.
اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كى روزى ميں وسعت دے كر آپ پر انعام كيا ہے، اس ليے آپ كى صلہ رحمى كے ليے آپ كے خاندان اور والدين سب سے زيادہ اولى و بہتر ہيں.
اگر آپ بيوى بچوں كے واجب اخراجات پورى طرح ادا كرتے ہيں، اور اس ميں كسى بھى قسم كى كوئى كوتاہى نہيں كرتے تو بيوى كو آپ كے والدين كے اخراجات اور ان سے نيكى و حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنے پر كوئى اعتراض كرنے كا حق حاصل نہيں.
ليكن اگر آپ اسراف و فضول خرچى كرنے ميں اپنى والدہ كى معاونت كرتے ہيں كہ جن كى انہيں ضرورت نہيں وہ اشياء بھى خريدتى ہے اور آپ مالى تعاون كرتے ہيں تو اس صورت ميں آپ كى بيوى كو اعتراض كا حق حاصل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسراف و فضول خرچى كرنے سے منع فرمايا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اور كھاؤ پيئو اور اسراف و فضول خرچى مت كرو، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اسراف و فضول خرچى كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا }الاعراف ( 31 ).
اس ليے اگر آپ كى والدہ كوئى ايسى چيز خريدنے كے ليے پيسے مانگے جس كى اسے ضرورت نہيں تو آپ كو اس ميں ان كا تعاون نہيں كرنا چاہيے، بلكہ آپ والدہ كو بڑى نرى كے ساتھ مال كى حفاظت كرنے اور ضائع نہ كرنے كى اہميت بتائيں.
آپ كى بيوى اور سب مسلمانوں كو يہ حقيقى علم ہونا چاہيے كہ انسان جب اپنا مال اللہ سبحانہ و تعالى كى رضامندى كے ليے خرچ كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اسے اس كا نعم البدل عطا فرماتا ہے، اور اس كى روزى ميں بھى بركت ڈالتا ہوا اس ميں وسعت پيدا فرماتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ جو كچھ بھى تم خرچ كرتے ہو اللہ اس كى جگہ اور ديتا ہے اور وہ سب سے بہتر روزى دينے والا ہے }سبا ( 39 ).
بخارى اور مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر وہ دن جس ميں اللہ كے بندے صبح كرتے ہيں تو فرشتے نازل ہوتے ہيں: ان ميں سے ايك كہتا ہے: اے اللہ خرچ كرنے والے كو اس كا نعم البدل دے، اور دوسرا كہتا ہے: اے اللہ روك كر ركھنے والے كا مال تلف كر دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1442 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1010 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
علماء كرام كا كہنا ہے: يہ حديث اطاعت اور مكارم اخلاق اور اہل و عيال اور مہمانوں وغيرہ پر مال خرچ كرنے كے متعلق ہے كہ جس ميں اسراف و فضول خرچى نہ ہو اور نہ ہى قابل مذمت عمل ہو، اور ان امور ميں خرچ نہ كرنا قابل مذمت روكنا كہلائيگا " انتہى
حديث قدسى ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" اے ابن آدم تم خرچ كرو تجھ پر بھى خرچ كيا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4684 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 993 ).
چنانچہ اس حديث ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى خوشنودى كے ليے مال خرچ كرنے كى ترغيب و رغبت بيان كى گئى ہے، اور اگر كوئى شخص اللہ كى راہ ميں خرچ كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كو اور زيادہ ديتا ہے، اور اس كى روزى ميں وسعت و بركت فرماتا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كے خزانے ختم ہونے والے نہيں.
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ