رضاعى باپ كى دوسرى بيوى سے بيٹياں دودھ پينے والے كى بہنيں ہونگى
ميرى نانى ( اللہ اس كى حفاظت فرمائے ) نے باپ كى جانب سے بھائيوں اور بہنوں كو اپنى اولاد كے ساتھ دودھ پلايا، اور اس كے بعد ميرے نانا نے ايك اور شادى كر لى، اور اس سے ايك بيٹا اور ايك بيٹى پيدا ہوئى، اور اب ميرى خالائيں اور ميرى والدہ اپنے ماموں اور خالہ كى اولاد كے سامنے پردہ نہيں كرتى بلكہ انہيں وہ انہيں پھوپھى شمار كرتى ہيں، ليكن سوال يہ ہے كہ:
كيا ميرے نانا كى دوسرى بيوى سے پيدا ہونے والى بيٹى ميرى والدہ كے ماموں ( ميرى نانى كے بھائى جنہيں اس نے دودھ پلايا تھا ) سے پردہ نہيں كريگى ؟
الحمد للہ:
جى ہاں آپ كے نانا كى دوسرى بيوى سے پيدا ہونے والى بيٹى آپ كى والدہ كے ماموں سے پردہ نہيں كريگى، كيونكہ وہ اس كے رضاعى بھائى ہيں، ليكن وہ صرف باپ كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے.
اس كى تفصيل اور بيان كچھ اس طرح ہے:
جب كوئى بچہ كسى عورت كا دودھ پيتا ہے جو شرعى معتبر رضاعت ہو كہ دو برس كى عمر كے اندر اور پانچ رضاعت مكمل يا اس سے زيادہ ہوں تو وہ دودھ پلانے والى عورت كا رضاعى بيٹا ہو گا، اور دودھ پلانے والى عورت كى سارى بيٹياں اس كى رضاعى بہنيں ہونگى.
اور اسى طرح وہ اس شخص كا رضاعى بيٹا بن جائيگا جس كا دودھ ہے يعنى اس كے خاوند كا رضاعى بيٹا ہو گا، تو اس طرح اس خاوند كى سارى بيٹياں چاہے وہ اس دودھ پلانے والى عورت سے ہوں يا پھر كسى دوسرى بيوى سے وہ سب اس بچے كى رضاعى بہنيں ہونگى، جيسا كہ جمہور اہل علم كا مسلك ہے اور اسے لبن الفحل كا نام ديا جاتا ہے "
ماخوذ از: المنتقى تاليف شيخ فوزان.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں نے ايك عورت كا دودھ پيا پھر اس كے خاوند نے ايك عورت سے شادى كر لى اور اس بيوى سے بچے پيدا ہوئے تو كيا يہ بھى ميرے بھائى ہونگے ؟
جواب:
الحمد للہ:
اگر تو پانچ رضاعت اور اس سے زيادہ ہوں اور دودھ خاوند كى طرف منسوب ہو كيونكہ اس خاوند كى اولاد ہے تو وہ آپ كے رضاعى والد اور والدہ كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے، اور رضاعى والد كى دوسرى بيوى بچے بھى آپ كے رضاعى والد كى جانب سے رضاعى بھائى ہونگے.
اور ايك رضاعت يا رضعہ يہ ہے كہ بچے ماں كا پستان منہ ميں ڈال كر دودھ چوسے اور پھر كسى بھى سبب سے چھوڑ دے پھر پستان منہ ميں ڈال كر دودھ پينا شروع كر دے حتى كہ دودھ اس كے پيٹ ميں چلا جائے اور پھر چھوڑ دے اور پھر پينا شروع كر دے اسى طرح پانچ بار يا اس سے زائد بار كرے چاہے يہ ايك ہى مجلس ميں ہو يا پھر كئى دفعہ ميں ايك ہى دن ميں ہو يا كئى دنوں ميں ليكن شرط يہ ہے كہ بچہ دو برس كى عمر سے زائد نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت دو برس كى عمر ميں ہوتى ہے "
اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سھلۃ بن سھيل كو فرمايا تھا:
" سالم كو پانچ رضاعت دودھ پلا دو تم اس پر حرام ہو جاؤ گى "
اور اس ليے بھى كہ صحيح مسلم اور جامع ترمذى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں:
" قرآن مجيد ميں دس رضعات معلوم نازل ہوئى تھيں جن سے حرمت ثابت ہو جاتى تھى، پھر اسے پانچ معلوم رضاعت كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات تك ايسے ہى تھا "
يہ لفظ ترمذى كے ہيں.
اللہ تعالى سب كو اپنے رضا والے كام كرنے كى توفيق دے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 22 / 305 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ