بيوى كے حمل ساقط كرانے كے بعد دى گئى طلاق واقع ہو گى يا نہيں ؟

ميرى ايك قريبى رشتہ دار لڑكى سے تقريبا دس برس قبل شادى ہوئى، وہ حاملہ تھى ليكن اس نے حمل ساقط ہوگيا، اس كے كچھ روز بعد ہمارے درميان اختلاف پيدا ہو گيا، تو ميں نے بيوى كو نفاس كى حالت ميں ہى طلاق دے دى اور يہ تيسرى طلاق تھى كيا مجھے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

حمل ساقط ہونے كے بعد آنے والے خون كى دو حالتيں ہيں:

1 ـ اس حمل ميں انسان كى خلفت واضح نہ ہوئى ہو، ت واس حالت ميں حمل ساقط ہونے كے بعد آنے والا خون استحاضہ كہلائيگا، اس طرح عورت نہ تو نماز ترك كريگى اور نہ ہى روزے چھوڑے گى، اور اس حالت ميں دى گئى طلاق بھى واقع ہو جائيگى، كيونكہ وہ پاك اور طاہر عورتوں كے حكم ميں ہے.

2 ـ اس حمل ميں انسان كى خلقت واضح ہو چكى ہو تو اس صورت ميں آنے والا خون نفاس كا خون ہو ہے.

اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 37784 ) اور ( 131275 ) اور ( 45564 ) كے جوابات ميں انسان كى خلقت كے متعلق تفصيل سے بات كى گئى ہے آپ ان جوابات كا مطالعہ كريں.

دوم:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو نفاس كى حالت ميں طلاق دے تو كيا يہ طلاق واقع ہوگى يا نہيں ؟

اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن بعض اہل علم كہتے ہيں كہ نفاس كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى، جس طرح كہ حائضہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى، اور يہى اختيار كردہ قول ہے، آپ اس سلسلہ ميں سوال نمبر ( 146967 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو نفاس اور حيض سے پاكى كى حالت ميں طلاق كى جائے، اور پھر اس طہر ميں بيوى سے ہم بسترى بھى نہ كى گئى ہو، تو اس طہر ميں دى گئى طلاق شرعى طلاق ہوگى.

اس ليے اگر عورت كو حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر اس طہر جس ميں جماع كياگيا ہو طلاق دى جائے تو يہ طلاق بدعى كہلاتى ہے، اور علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب آپ عورتوں كو طلاق ديں تو انہيں ان كى عدت كے آغاز ميں طلاق ديں }الطلاق ( 1 ).

معنى يہ ہے كہ: وہ جماع كے بغير پاك ہوں، اہل علم نے انہيں عدت كے ليے طلاق كے بارہ ميں يہى كہا ہے، كہ وہ جماع كے بغير پاك ہو، يا پھر حاملہ ہوں تو طلاق كى عدت يہ ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

طلاق بدعى كى كئى ايك انواع ہيں: ايك يہ كہ مرد اپنى بيوى كو حيض يا نفاس كى حالت ميں، يا پھر اس طہر ميں جس ميں بيوى سے جماع كيا گيا ہو طلاق دے، صحيح يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر يہ ہے كہ:

اگر آپ كى بيوى نے بچے كى خلقت واضح ہو جانے كے بعد حمل ساقط كروايا تو آپ نے اسے نفاس كى حالت ميں طلاق دى، اور راجح قول كے مطابق حالت نفاس ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، جيسا كہ اوپر بيان كيا گيا ہے.

اس بنا پر يہ طلاق شمار نہيں كى جائيگى، اور آپ كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہے.

ليكن اگر خلقت واضح نہيں ہوئى تھى اور بيوى نے حمل ساقط كروا ديا تو اس سے آنے والا خون استحاضہ كا خون ہے اور استحاضہ والى عورت كو دى گئى طلاق واقع ہو جاتى ہے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ