رخصتى كى تقريب كے بعد اور دخول سے قبل طلاق دے دى
ميرا نكاح ميرے چچا كے بيٹے سے ہوا، اور پھر رخصتى كى تقريب بھى ہوئى، اور ميں اس كے پاس تين دن تك اس كے گھر رہى ليكن ان ايام ميں ہم بسترى يا بوس و كنار وغيرہ نہيں ہوا ہمارے مابين اختلافات پيدا ہو گئے اور ميں نے اس سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا مجھے طلاق كى عدت گزارنا ہو گى ؟
اور كيا مجھے حيض كى حالت ميں طلاق دينا جائز ہے ؟
كيا مہر مجھے ملےگا يا خاوند واپس لے لےگا ؟
كيا طلاق كے بعد وہ مجھ سے دوبارہ نكاح كر سكتا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
جب كوئى شخص كسى عورت سے عقد نكاح كرے اور اس سے دخول ( يعنى ہم بسترى ) كر لے اور پھر اسے طلاق دے تو بالاتفاق يہ طلاق رجعى ہوگى، اور عورت كو عدت گزارنا ہوگى اور وہ پورے مہر كى حقدار ہوگى.
ليكن اگر بيوى سے دخول يعنى ہم بسترى نہيں كى اور نہ خلوت كى اور طلاق دے دى تو علماء كرام كا اتفاق ہے كہ اس پر كوئى عدت واجب نہيں ہوتى، اور اس عورت كو نصف مہر ملے گا، اور وہ اپنے خاوند كے ليے حلال اسى صورت ميں ہو گى جب وہ اس سے نيا نكاح كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اےايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو، اور پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ان پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو }الاحزاب ( 49 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر تم انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو، اور ان كا مہر كر چكے ہو تو پھر جو مہر تم نے مقرر كيا ہے ان كے ليے اس كا نصف ہے }البقرۃ ( 227 ).
اور اگر عورت سے اس طرح خلوت كى كہ اسے كوئى مرد يا عورت يا تميز كرنے والا بچہ نہ ديكھ رہا ہو، اور اس سے مجامعت نہ كى اور پھر اسے طلاق دے دى، امام احمد رحمہ اللہ كے مذہب ميں يہ طلاق رجعى كہلائيگى، اور اسے پورا مہر ملے گا؛ كيونكہ خلوت دخول كے قائم مقام ہے، اور خاص كر مسئولہ صورت ميں جس كے متعلق سوال كيا جا رہا ہے كہ يہ عورت تين دن تك خاوند كے گھر ميں رہى ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 120018 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر اگر آپ كو يہ طلاق ايسى خلوت كے بعد ہوئى ہے تو يہ طلاق رجعى ہے، اور آپ كے ليے عدت گزارنا لازم ہو گى اور آپ كو پورا مہر ملےگا، اور خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ دوران عدت آپ سے رجوع كر سكتا ہے چاہے آپ راضى نہ بھى ہوں تو بھى خاوند رجوع كر سكتا ہے، اور رجوع اس طرح ہو گا كہ خاوند كہے ميں نے تجھ سے رجوع كيا، يا پھر رجوع كى نيت سے جماع كر لے.
دوم:
حيض كى حالت ميں طلاق دينا حرام ہے، اور خاوند كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى كرتے ہوئے ايسا كرتا ہے تو اس طلاق كے واقع ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، راجح يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہو گى، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
يغير كسى ايسے عذر كے جو طلاق كو مباح كر سكتا ہے عورت اپنے خاوند سے طلاق طلب نہيں كر سكتى.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، اسى دليل درج ذيل حديث ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى تنگى كے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 )، علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
يہاں حديث ميں " الباس " كا معنى وہ شدت و تنگى اور سبب ہے جس سے طلاق كا سہارا لينا پڑے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 111875 ) اور ( 67940 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
آپ كو نصيحت ہے كہ آپ طلاق طلب كرنے ميں جلد بازى مت كريں، بلكہ اپنے خاوند كے ساتھ سمجھوتہ كرنے كى كوشش كريں، اور ان مشكلات كو بڑے نرم رويہ اور محبت و پيار كى فضا ميں ختم كرنے كى كوشش كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ