قسم اٹھائى كہ اگر بيٹے نے كسى معين عورت سے شادى كى تو بيوى كو طلاق

ميرے خاوند نے قسم اٹھائى كہ جب اس نے سنا كہ اس كے بيٹے نے كسى معين عورت سے عقد نكاح كر ليا تو مجھے طلاق يہ علم ميں رہے كہ اس نے يہ قسم پہلے بھى دوسرے مواقع پر دو بار اٹھائى تھى، اور يہ تيسرى بار ہے، اس نے بالفعل سن ليا كہ بيٹے نے كسى عورت سے لكھائى كى ليكن رجوع كر ليا، اور مجھے كہنے لگا: اگر اس نے شادى كا اسٹام ديكھ ليا تو مجھے طلاق دے دےگا، اس سلسلہ ميں دينى حكم كيا ہے ؟ اور خاوند كے متعلق ميرا موقف كيا ہو ؟

الحمد للہ:

اگر خاوند قسم طلاق كى قسم اٹھائے كہ جب اس نے سنا كہ بيٹے نے كسى معين عورت سے عقد نكاح كيا تو وہ اپنى بيوى كو طلاق دے دےگا، پھر اس نے اسے سن بھى ليا تو يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ خاوند كى ظاہرى عبارت سے ظاہر ہوتا ہے كہ صرف سننے سے ہى طلاق نہيں دےگا، بلكہ ضرورى ہے كہ وہ سننے كے بعد طلاق دے.

اس بنا پر خاوند كى جانب سے يہ كلام طلاق كى دھمكى ہے تو اسے حق ہے كہ وہ طلاق دے يا طلاق نہ دے، اور جب وہ طلاق نہيں ديتا تو صرف اس كلام كى بنا پر طلاق واقع نہيں ہو گى.

يہ تو اس صورت ميں ہے جب اس نے كہا ہو كہ وہ اسے طلاق دے دے گا.

ليكن اگر اس نے يہ كہا كہ: جب اس نے يہ سنا تو اس كى بيوى كو طلاق، تو اس كا حكم پہلے الفاظ سے مختلف ہوگا.

جمہور اہل علم كے ہاں صرف سننے سے ہى طلاق واقع ہو جائيگى، اور اسے طلاق دينے كى ضرورت نہيں.

اور كچھ اہل علم كہتے ہيں كہ يہ خاوند كى نيت پر منحصر ہوگا.

اگر تو اس نے بيٹے كو ڈرانا اور دھمكانا چاہا اور اسے اس عورت سے شادى سے روكنا چاہا اور طلاق كا ارادہ نہيں تھا، تو اس كو قسم كا كفارہ لازم ہوگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اگر طلاق واقع ہونے كى نيت كى تو صرف خبر سنتے ہى ايك طلاق واقع ہو جائيگى.

خاوند كو اللہ سے ڈرنا چاہيے اور اسے اللہ كى حدود سے تجاوز نہيں كرنا چاہيے، اور اسے طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے جس كے نتيجہ ميں احكام اور اثرات مرتب ہوتے ہيں.

اسے معلوم ہونا چاہيے كہ طلاق كے مسائل كا مرجع شرعى عدالت ہے، خاص كر اختلاف اور خاوند كى نيت كا يقين نہ ہونے كے وقت كہ اس نے طلاق كے كلمات كس ليے بولے تھے شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ