بيوى كا خاوند سے اتفاق ہوا كہ اگر وہ بيوى كے علم كے بغير كہيں سفر پر گيا تو يہ ان كے مابين آخرى دن ہوگا اور خاوند بتائے بغير سفر پر چلا گيا

بيوى نے اپنے خاوند پر شرط ركھى كہ وہ اس كے علم كے بغير ملك سے باہر نہيں جائيگا، اور اگر وہ بيوى كو بتائے بغير ملك سے باہر گيا تو يہ ان دونوں كے مابين آخرى دن ہوگا، پھر خاوند بيوى كو بتائے بغير سفر پر چلا گيا، بيوى كو يہ علم نہيں كہ آيا خاوند شرط بھول گيا تھا يا كہ اس نے اس ميں سستى كى، تو كيا اس عمل سے ان دونوں كا تعلق ختم ہو جائيگا اور عورت خاوند سے بائن ہو جائيگى، يعنى بيوى كو طلاق ہو گئى اور خاوند اس سے رجوع نہيں كر سكتا، يا كہ اسے ايك طلاق ہوگى ؟
يا كہ جب عورت اپنى شرط پر اصرار كرے تو اسے طلاق ہو گى اور جب وہ شرط سے رجوع كر لے تو طلاق نہيں ہوگى اور كيا اس ميں كوئى كفارہ ہے ؟

الحمد للہ:

طلاق تو خاوند كى طرف سے ہو سكتى ہے، چنانچہ اگر عورت اپنے خاوند كو طلاق دے يا اسے اپنے اوپر حرام كرے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

ليكن جب خاوند نے بيوى كى جانب سے پيش كردہ شرط قبول كر لى اور كہا: اگر اس نے بتائے بغير سفر كيا تو وہ ان كا آخرى دن ہوگا، تو يہ الفاظ طلاق كے كنايہ ميں شمار ہوتے ہيں اور شرط پر معلق ہے، اور اس ميں خاوند كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا.

اس ليے اگر خاوند كى نيت اس سے طلاق دينے كى تھى تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے طلاق كا ارادہ نہيں كيا تو پھر طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اگر اس نے اپنے آپ كو بيوى كے علم كے بغير سفر پر جانے سے روكنے كے ليے يہ الفاظ كہے اور طلاق كا ارادہ نہ تھا اور پھر اس نے سفر كر ليا تو اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا.

اور اگر خاوند كہے: ميں نے شرط سے طلاق كا ارادہ كيا تھا ليكن وہ شرط بھول كر سفر پر چلا گيا تو بھى طلاق واقع نہيں ہوگى راجح قول يہى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 105998 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور طلاق ہونے كے حكم كى حالت ميں بھى صرف ايك طلاق ہى ہوگى، اگر يہ پہلى يا دوسرى طلاق تھى تو خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے كہ وہ عدت كے اندر اندر بيوى سے رجوع كر لے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ