گرل فرينڈ كے ساتھ حرام طور پر رہا اور توبہ كر لي اور وہ بھى مسلمان ہو گئى تو اس سے شادى كرلى اب گھر والے اسے طلاق دينے كا كہتے ہيں
برائے مہربانى ميرا ليٹر پڑھ كر جتنى جلدى ہو سكے اس كا جواب ارسال كريں؛ كيونكہ ميں فتوى كى ويب سائٹس تلاش كر كے اور ليٹر ارسال كر كے جواب كا انتظار كر كے تھك چكا ہوں، جس ويب سائٹ پر بھى ليٹر ارسال كيا اس نے جواب نہيں ديا، تو ان ويب سائٹس كے بارہ ميں ميرا نظريہ تبديل ہوگيا.
اور جب ميں نے آپ كى اس ويب سائٹ پر كچھ فتوى جات كا مطالعہ كيا تو مجھے بہت راحت ملى اور ميں روزانہ ہى آپ كے فتاوى جات پڑھنے لگا، كيونكہ يہ ميرے ليے راحت كا باعث ہيں، ميں نے اپنے كچھ سوالات كے واضح اور شافى جوابات پائے.
برائے مہربانى ميرے سارے سوالات كا حل پيش كريں كيونكہ مجھے يہ سوال سونے بھى نہيں ديتے مجھے شافى جواب كى بہت زيادہ ضرورت ہے؛ كيونكہ ميں بہت تھك چكا ہوں اور بہت زيادہ پريشان ہوں ذہن منتشر ہے اور مجھے خدشہ ہے كہيں ميں وہى غلطى نہ كر بيٹھوں جس سے دور بھاگتا ہوں.
ميرا قصہ يہ ہے كہ: ميں اپنے كى بجائے كسى دوسرے ملك ميں زير تعليم تھا اور آپ جانتے ہيں كہ يورپى معاشرہ كيسا ہے ميں قصہ لمبا نہيں كرنا چاہتا: ميں نے شراب نوشى اور زنا جيسے فحش كام بھى كيے، اور رمضان المبارك ميں روزے بھى نہ ركھتا، بلكہ رمضان المبارك ميں زنا بھى كرتا رہا، ميرے غلطياں و كوتاہياں تو بہت ہيں.
اس اللہ كا شكر ہے جس نے مجھے ہدايت سے نوزا اور ميں نے توبہ كر لى اور مجھے اللہ نے ايك نئى زندگى كى توفيق دى اور مجھے اندھيروں سے نور كى طرف لےآيا، ميں نے رمضان المبارك ميں توبہ كى تھى، ميرے ساتھ ايك عيسائى لڑكى رہتى تھى، جب اس لڑكى نے مجھے توبہ كر كے قرآن مجيد كى تلاوت كرتے اور نماز روزہ كى پابندى كرتے ہوئے ديكھا تو يہ لڑكى اسلام كے قريب ہونے لگى، اور دس رمضان المبارك كے روز يہ لڑكى بھى مسلمان ہوگئى، اور شرعى لباس زيب تن كر كے پردہ كرنا شروع كر ديا، اور قرآن مجيد كى تعليم حاصل كرنے لگى، اور فرض نمازيں اور سنتوں كے ساتھ ساتھ روزے بھى ركھنا شروع كر ديے، اور سيرت نبويہ كا مطالعہ كر كے بہت سارے اسلامى درس بھى سننے لگى.
جس دن اس نے اسلام كا اعلان كيا ميں نے اس سے شادى كر لى، اور ہم اپنى زندگى كے بہترين ايام بسر كر رہے تھے كہ ايك دن ميں نے كڑوى حقيقت جانى جس نے ميرى زندگى كو ہى تبديل كر ديا، اور ميں ہر وقت پريشان و غمزدہ رہنا لگا، ميں نے اس لڑكى كى تاريخ معلوم كر لى، اس كا ماضى بالكل ايك اجنبى ( آزاد اور خائن ) لڑكى جيسا تھا، مجھے معلوم ہوا كہ اس نے مجھ سے كئى ايك بار خيانت كى ہے، ليكن اس نے يہ خيانت اسلام قبول كرنے اور ميرى اس كے ساتھ شادى كرنے سے قبل كى تھى، ليكن اس ليے كہ وہ ميرى بيوى بن چكى ہے اور پھر ميں عربى النسل ہوں ميں ماضى نہيں بھول سكتا، ميں نے اپنے دين اور اپنے پرودگار كى بھى خيانت كى اور اسلام سے دور رہا ميں پيدائشى مسلمان ہوں، وہ اسلام كے بارہ ميں كچھ نہيں جانتى تھى، ليكن ميں اسلام كے بارہ ميں بہت كچھ جانتا تھا وہ مجھ سے بہت بہتر ہے كيا واقعتا ايسا ہى نہيں ؟
اسلام اپنے سے قبل ہر گناہ كو ختم كر ديتا ہے، اور توبہ كرنے والا بھى ايسا ہى ہے جيسے كسى كے پہلے كوئى گناہ نہ ہو ميں اس كى قدر و احترام كرتا ہوں كيونكہ اس نے يقين كے ساتھ اسلام قبول كيا ہے، وہ بہت روتى رہتى ہے، خاص كر جب قرآن مجيد كى تلاوت كرے، اور احاديث نبويہ كا مطالعہ كرتے وقت بھى، اس نے بھى غلطياں كى تھيں، ليكن اسے اسلام كا علم نہ تھا اور ميں نے غلطياں اور گناہ كيے اور مجھے علم تھا كہ زنا گناہ كبيرہ ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى شديد العقاب ہے، ليكن انسان خطا كار ہے، اور اس كى سوچ محدود ہے.
مجھے جو تنگى محسوس ہوتى ہے وہ يہ كہ جب مجھے ماضى كا علم ہوا تو ميں بہت شديد غصہ ميں آ گيا اور ناراض ہوا، اور اسے ايك بار طلاق بھى دے دى، اور دو روز كے بعد ميں پھر غصہ ميں ہوا اور اسے زدكوب بھى كيا اور بہت زيادہ ناراض ہوا، اور اسے دوبارہ طلاق دے دى، ہمارے درميان مشكلات بڑھ گئيں، اور ميرا غصہ زيادہ ہونے لگا، جب ميں غصہ ميں ہوتا ہوں تو پاگل كى طرح ہو جاتا ہوں، نہ تو كچھ سوچتا ہوں، اور نہ ہى سمجھ ہوتى ہے كہ زبان سے كيا نكال رہا ہوں، زبان سے جو كچھ نكلتا ہے وہ نكلتا ہى جاتا ہے مجھے كچھ علم نہيں ہوتا.
ميں نے دونوں بار سوال اور استفسار كے بعد اس سے رجوع كر ليا، كچھ ايام ہى گزرے كہ ہمارے درميان پھر جھگڑا ہوا اور ميں نے اسے زدكوب كيا، اس نے ميرى توہين كى تھى ليكن شروع ميں كرنے والا تھا، ميں نے اسے تيسرى بار طلاق دے دى اور جتنى بار بھى طلاق ہوئى ميں نادم ہوتا اور روتا اور اس پر شفقت كرتا كيونكہ يہ لڑكى اسلام قبول كرنے كے بعد بہت ہى نيك و صالح بن گئى ہے، مجھے اس كے ضائع ہونے كا خدشہ رہتا ہے، ليكن غصے اور شيطان نے مجھے غلطياں كرنے پر مجبور كر ديا ہے، تيسرى بار طلاق دينے كے بعد ميں نے دو ركعت نماز ادا كى اور اللہ كے سامنے رويا بھى، اور اللہ سے دعا كى كہ اگر طلاق واقع ہو گئى ہے تو مجھے فورى طور پر اس سے دور كر دے اور اگر طلاق نہيں ہوئى تو پھر جتنى جلدى ہو سكے ميں اس سے رجوع كر لوں، اور يہى ہوا، ميں نے اللہ كى توفيق سے اسى رات اس سے رجوع كر ليا، ميں نے پڑھا ہے كہ غصہ ميں طلاق واقع نہيں ہوتى.
اور جب ميرى تعليم مكمل ہوئى تو ميں اپنے ملك واپس آ گيا اور ميں نے اس سے وعدہ كيا تھا كہ ميں اپنے خاندان والوں سے بات كرونگا تا كہ تم بھى ميرے پاس آ سكو، ليكن يہاں معاملہ ہى مختلف ہے، ميں نے ايك عرب لڑكى جسے كبھى كسى نے ہاتھ بھى نہيں لگايا كو بہت مختلف پايا، اور ايك اجنبى لڑكى جو مجھ سے قبل بہت سارے مردوں كے ساتھ سوتى رہى ميں بہت فرق پايا، يہى چيز مجھے بہت غضبناك كر ديتى ہے اور بعض اوقات تو ميں اسے چھوڑنے كا سوچنا شروع كر ديتا ہوں، ليكن اللہ سے ڈرتا ہوں كہ ميں بھى تو اس جيسا ہى تھا، اور اب وہ مجھ سے بہتر اور افضل ہو چكى ہے، اب ميرى عقل اور سوچ ايك عرب لڑكى اور ايك اجنبى لڑكى ميں موازنہ كرنے ميں مشغول رہتى ہے، اور ميرے گھر والے بھى ميرى شادى كو قبول نہيں كرتے، اور وہ مجھ سے سوال كرنے لگے ہيں:
وہ كون ہے ؟ كيا شادى سے قبل وہ لڑكى تھى ؟ تو ميں نے انہيں كہا جى ہاں وہ ايسى نہ تھى، ميں نے اس سے شادى اس ليے كى كہ اس نے اسلام قبول كر ليا تھا، اور بہت اچھى مسلمان بن گئى، ميں نے اس سے شادى اللہ كى رضا و خوشنودى كے ليے كى ہے، اور تا كہ ميں اپنے گناہوں كا كفارہ ادا كر سكوں، اور اب وہ ميرا انتظار كر رہى ہے، اور مسلمان ملك ميں رمضان كے روزے ركھنے كى تمنا ركھتى ہے، ليكن ميرے گھر والے اس سے انكار كرتے ہيں، ميں چاہتا ہوں كہ و ہ ميرے پاس آ جائے تا كہ وہاں رہ كر ضائع نہ ہو جائے، وہ بہت اچھے اخلاق كى مالك ہے اور خاص كر اسلام لانے كے بعد تو اس كا اخلاق اور بھى اچھا ہو چكا ہے، ميرى نظر ميں تو وہ پہلے دور كى ايك اسلامى عورت بن چكى ہے، ميں اب بہت ہى عذاب سے دوچار ہوں، جب ميں اپنى اور اس كى تاريخ اور ماضى ياد كرتا ہوں تو اپنے دل ميں كہتا ہوں اللہ نے اس لڑكى كو ميرے ليے گناہوں كا كفارہ بنا كر بھيجا ہے.
كيا طلاق واقع ہو چكى ہے يا نہيں ؟، اور اگر طلاق واقع ہو گئى ہے تو كيا مجھے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے تاكہ وہ ايك كفريہ ملك ميں اكيلى رہ كر ضائع نہ ہو جائے ؟
مجھ پر كيا واجب ہوتا ہے، كيا ميں ايك نيا اسلام قبول كرنے والى بيوى كے ساتھ رہوں، يا كہ ايك عرب مسلمان لڑكى سے شادى كر لوں ؟
ميں اپنے گھر والوں كے ساتھ كيا معاملہ كروں، وہ چاہتے ہيں كہ ميں اسے طلاق دے دوں، اور اگر ميں انہيں راضى كرنے كے ليے بيوى كو طلاق دے دوں تو كيا يہ حرام ہوگا ؟
كيا زنا ميرى گردن ميں قرض ہے كہ ايك دن مجھے اس كى قيمت ادا كرنا پڑيگى ؟ اور ميں اس كا ماضى كيسے بھول سكتا ہوں كہ وہ ميرے ساتھ كھاتى پيتى اور سوتى جاگتى تھى اور ميں اس كے ساتھ مسلمان خاوند بيوى كى طرح رہتا تھا ؟
برائے مہربانى ايسے دلائل ارسال كريں جو اس سلسلہ ميں ميرى معاونت كريں، ميں آپ سے شديد گزارش كرتا ہوں كہ آپ مجھے شافى جواب ديں جس كا مجھے بہت عرصہ اور شدت سے انتظار ہے، اور اس ليے بھى كہ جو ويب سائٹس مسلمانوں كى معاونت كے ليے كھولى گئى ہيں ان كے بارہ ميں ميرا گمان برا نہ ہو جائے، اور خاص كر ان كى معاونت كے ليے جو تباہ ہو كر برے راستے پر چل نكلے ہيں اور ميرى طرح ضائع ہو رہے ہيں وہ مدد كے محتاج ہيں، چاہے كوئى نصيحت كر كے ہى مدد كريں، ( ڈوبنے والے كو تنكے كا سہارا ہى سہى ) اے مسلمانوں كے علماء كرام جب تم ميرى مدد نہيں كرو گے تو ميں كہاں جاؤں ؟
الحمد للہ:
اول:
ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہمارے بارہ ميں آپ كا گمان اچھا ہى ہوگا، ليكن ہم اس پر خوش نہيں كہ اہل سنت كى دوسرى ويب سائٹس كے بارہ ميں آپ كا نظريہ سلبى ہو، ہم آپ سے يہى چاہتے ہيں كہ آپ ان ويب سائٹس كو قائم كرنے والوں كے بارہ ميں اچھا گمان ركھيں، اور انہيں معذور سمجھيں، اگر آپ ہمارے اور ان كے پاس آنے والوں سوالات كى تعداد ديكھيں تو ضرور ہم سب كو معذور سمجھنے لگيں گے.
آپ اكيلے نہيں جو جلد جواب حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور پھر اس كے متعلق ہر سائل كى رغبت كو پورا كرنا ممكن نہيں ہے، اس ليے ہمارے اور دوسرى ويب سائٹس والوں كے ليے عذر موجود ہے، اور كريم وہى شخص ہوتا ہے جو دوسرے كو معذور سجھے يعنى اس كے ليے كوئى عذر تلاش كر لے.
دوم:
اس اجنبى اور كفريہ ملك ميں آپ كے ساتھ جو كچھ ہوا وہ ہمارے اس قول كى تائيد و تاكيد كرتا ہے جو ہم ہميشہ كہتے رہتے ہيں كہ ان ممالك كى طرف سفر كرنا جائز نہيں، اور خاص كر جب سفر كرنے والا شخص نوجوان لڑكا يا لڑكى ہو اور ابھى جوانى كى ابتداء ہو، اور شہوت بھى پورى تر ابھر كر آئى ہو.
اس ليے ماں باپ كو ان ممالك ميں اپنى اولاد كے حالات كا علم ہونا چاہيے كہ وہاں غالبا افسوس ناك حالت ہى ہوتى ہے، اور وہ دين سے درو رہتے ہيں، اور فحش كام ميں پڑ كر صحيح اور مستقيم سلوك سے ہٹ جاتے ہيں، اور شرعى مخالفات كى يہى سزا ہے جو مل كر رہتى ہے.
اس ليے ماں اور باپ پر واجب ہے كہ وہ اپنى اولاد كا خيال كريں، اور ان كے دين اور سلوك كے عوض اپنے بچوں كو تعليم دلانے كى حرص نہ ركھيں.
سوم:
ہم آپ كو توبہ كرنے پر مباركباد ديتے ہيں، اور اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو كفر و فسوق اور نافرمانى كى راہ سے نكال كر ہدايت كى راہ پر ڈال ديا، آپ كى بجائے كتنے ہى ايسے دوسرے افراد ہيں جو جہالت و گمراہى اور نافرمانى كے اندھيروں ميں ڈبكياں كھا رہے ہيں، اور آپ كى بجائے كتنے ہى ايسے افراد ہيں جو اخلاق كى چوٹيوں فضائل كى بلنديوں سے نيچے گرے ہوئے ہيں، اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ توبہ كے شجرہ كو مضبوطى سے تھام كر ركھيں، اور تقوى و پرہيزگارى كى رسيوں كو مضبوطى سے پكڑ ليں.
اور آپ واپس پہلى حالت پر پلٹنے سے اجتناب كرتے ہوئے ايسے كام مت كريں جو آپ كو پہلے حال ميں واپس لے جائے كيونكہ آپ ايسى نعمت ميں ہيں جس سے اكثر لوگ محروم ہيں، اس ليے آپ توبہ ترك كر كے اس نعمت كى ناشكرى مت كريں.
چہارم:
ہم اپنى بہن كو بھى اسلام قبول كرنے پر مباركباد پيش كرتے ہيں، اور اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے اسے توفيق دى اور اسلام كى راہ دكھائى، بلاشك و شبہ وہ اب اپنى پہلى اور اسلام كے بعد والى حالت ميں خوب فرق معلوم كر رہى ہوگى، اور اسے كافر اور مسلمان انسان ميں عظيم فرق بھى معلوم ہوگيا ہو گا.
اور اسے اس فرق كا بھى علم ہوگيا ہو گا كہ اسلام قبول كرنے سے قبل اس كا دل كتنا تنگ اور خراب تھا، اور اسلام كے بعد اس كے دل ميں كيا وسعت و شرح صدر پيدا ہوا ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسے مزيد ہدايت و توفيق سے نوازے، اور اسے ہدايت يافتہ اور ہدايت كى راہنمائى كرنے والى بنائے.
پنجم:
يقينا جو شخص ہدايت و راہنمائى سے دور رہتا ہے وہ قول و فعل اور سوچ ميں خبط كا شكار رہتا ہے، اور ايسا منہج اور راہ اختيار كرتا ہے جو جن و انس ميں سے شيطان كو ہى پسند ہے اور وہ ايسى مباديات پر زندگى بسر كرتا ہے جو كسى صحيح نص كے موافق نہيں، اور نہ ہى اسے عقل صريح قبول كرتى ہے، آپ اس كى مثال " خيانت " كى اصطلاح سے لے سكتے ہيں!
ان كے نزديك اس كا معنى يہ ہے كہ عاشق اپنى معشوق كى خيانت كرے يا پھر معشوق اپنے عاشق كى خيانت كرتى ہو! ہو سكتا ہے عورت خاوند والى ہو، اور اپنے عاشق كے ساتھ اپنے خاوند كى خيانت كرتى ہو، پھر جب وہ عورت جب اپنے عاشق كو كسى دوسرى عورت كے ساتھ ديكھے تو رونے لگے، اور نوحہ كرے اور اس كى توہين كرے، ہو سكتا ہے اسے مارے بھى! كيوں اس ليے كہ اس نے اس عورت كے ساتھ خيانت كى ہے!! گويا كہ اس عورت نے اپنے خاوند كى خيانت نہيں كى، اور ايسے ہے جيسے اس نے كوئى گناہ ہى نہيں كيا، بلكہ وہ سارا عتاب اور عيب اپنے خائن عاشق پر تھوپ رہى ہے!
تو يہ لوگ كون سى مباديات پر جى رہے ہيں؟ اور كس منطق پر چل رہے ہيں ؟.
اور اگر آپ افسوس كرنا ہى چاہتے ہيں تو اس مسلمان شخص پر افسوس كريں جو اپنے پروردگار كے ساتھ خيانت كا مرتكب ہو رہا ہے، اور نہ تو وہ اللہ كے ساتھ خيانت كو جانتا ہے اور نہ ہى اسے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خيانت كى پہچان ہے، اور نہ ہى اپنے دين كے ساتھ خيانت كو سمجھ رہا ہے، ليكن وہ اپنى محبوبہ اور معشوق كى خيانت كو شمار كرنا كر كے پيٹ رہا ہے، حالانكہ وہ خود اس كے ساتھ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوتا ہے، حالانكہ پہلے تو وہ خود اللہ اور اس كے رسول اور دين اسلام كا خائن ہے.
ميرے سائل بھائى:
آپ اس عورت كو ملامت كر رہے ہيں جو آپ كے اور كسى دوسرے كے ساتھ سوتى رہى اور وہ كافرہ تھى! ليكن آپ اپنے آپ كو كيوں ملامت نہيں كرتے كہ آپ نے وہ كچھ كيا جو آپ كے ليے حلال نہ تھا اور آپ اسلام كے دعويدار اور اسلام كى طرف منسوب ہيں ؟!.
آپ اس عورت كو ملامت كر رہے ہيں جو اسلام قبول كر كے ايك اچھى مسلمان ہو چكى ہے، جو كفر كى حالت ميں فسق و قجور كى مرتكب تھى؟!.
آپ كا موقف تو بہت ہى كمزور ہے، اور آپ كوم لامت و عيب لگانے كا كوئى حق حاصل نہيں، نہ تو اس كے كافرہ ہوتے ہوئے، اور نہ ہى اس كے مسلمان ہوتے ہوئے، كيونكہ جب وہ كافرہ تھى تو اس كا كفر اس كے ہر گناہ سے بڑا گناہ تھا، اور جب وہ كافرہ تھى تو اسے فحش كاموں سے روكنے والا كوئى چيز نہ تھى.
اور جب وہ اسلام لے آئى تو اس كے اسلام نے اس كے پچھلے سارے گناہ اور غلطياں مٹا ڈاليں، جب اس نے اسلام قبول كر ليا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى سارى برائياں اور گناہ نيكيوں ميں بدل ڈاليں! تو پھر آپ كس وجہ سے اس كے كافرہ ہونے يا مسلمان ہونے پر عيب لگاتے اور ملامت كرتے ہيں ؟!
امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" جب اللہ تعالى نے ميرے دل ميں اسلام ڈال ديا تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كيا:
" اپنا داياں ہاتھ بڑھائيں تا كہ ميں آپ كى بيعت كروں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بڑھايا عمرو بن عاص بيان كرتے ہيں ميں نے اپنا ہاتھ روك ليا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے عمرو كيا ہوا ؟
وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: ميں ايك شرط لگانا چاہتا ہوں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا شرط لگانا چاہتے ہو ؟
ميں نے عرض كيا:
يہ كہ مجھے بخش ديا جائے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيا تمہيں معلوم نہيں كہ اسلام اپنے سے ماقبل سب گناہوں كو ختم كر ديتا ہے، اور ہجرت اپنے سے قبل سب گناہ دھو ڈالتى ہے، اور حج اپنے سے قبل سب غلطياں صاف كر ديتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 121 ).
اور امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
كچھ مشرك لوگوں نے بہت زيادہ قتل كيے اور بہت زيادہ زنا كا مرتكب ہوئے اور وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كرنے لگے:
آپ جو كہتے اور جس كى دعوت ديتے ہيں وہ بہت اچھى چيز ہے، ليكن اگر آپ ہميں يہ بتائيں كہ ہم نے جو كچھ كيا ہے اس كا كوئى كفارہ بھى ہے ؟
تو يہ آيت نازل ہوئى:
{ اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كى عبادت نہيں كرتے، اور نہ ہى اللہ كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كے مرتكب ہوتے ہيں }.
اور يہ آيت نازل ہوئى:
{ آپ كہہ ديجئے اے ميرے وہ بندو جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم و زيادتى كى ہے وہ اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہوں }.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4436 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
چنانچہ ان مشرك لوگوں نے بہت زيادہ قتل بھى كيے اور بہت زنا بھى، تو ديكھيں اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے كيا نازل فرمايا، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے نازل فرمايا كہ ان كى سارى برائياں نيكيوں ميں تبديل كر دى جائينگى.
اور سابقہ حديث ميں ہے كہ اسلام قبول كرنا اپنے سے قبل سب گناہوں كو دھو ڈالتا ہے، تو اس كے بعد آپ كے ليے كيا عذر رہ جاتا ہے ك اس عورت نے جاہليت ميں جو كچھ كيا اس پر آپ اس كا محاسبہ كرتے پھريں؟!
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" جب انسان اپنے گناہ سے توبہ ميں سچا ہو چاہے وہ گناہ كتنا ہى بڑا اور شرك يا زنا يا قتل يا حرام مال كھانا ہى كيوں نہ ہو، اور وہ شخص اپنے گناہ پر نادم ہو اور حقوق حقداروں كو واپس كر دے يا پھر وہ اسے معاف كر ديں، اور پھر توبہ كے بعد وہ نيك و صالح اعمال كرے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے، بلكہ اس كے سارے گناہوں كو نيكيوں ميں تبديل فرما ديتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے معبود كو نہيں پكارتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسے ناحق قتل نہيں كرتے، اور نہ ہى وہ زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا }.
{ اسے قيامت كے دن دوہرا عذاب كيا جائيگا، اور وہ ذلت و رسوائى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہےگا }.
{ سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك و صالح اعمال كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے }.
{ اور جو شخص توبہ كرے اور نيك و صالح عمل كرے وہ تو ( حقيقتا ) اللہ كى طرف سچا رجوع كرتا ہے }الفرقان ( 68 - 71 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:
{ ان لوگوں كو كہہ ديجئے جنہوں نے كفر كيا اگر وہ اپنے كفر سے رك جائيں تو ان كے پچھلے سب گناہ معاف كر ديے جائيں گے }الانفال ( 38 ).
اور ايك اور مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
{ كہہ ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخش ديتا ہے، واقعى وہ بڑى بخشش و رحمت والا ہے }الزمر ( 53 ).
اور يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كو فرمايا تھا:
{ اور تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، كيونكہ اللہ كى رحمت سے تو كافر لوگ ہى نااميد ہوتے ہيں }يوسف ( 87 ).
اس كے علاوہ اس موضوع كے متعلق اور بھى بہت سارى آيات ہيں، اور احاديث نبويہ ميں بھى توبہ كى ترغيب دى گئى ہے، اور اللہ كى رحمت اور اس كى بخشش كى اميد كى رغبت دلائى گئى ہے، اور پھر توبہ كا دروازہ تو مغرب كى جانب سے سورج طلوع ہونے تك يا پھر موت آنے تك كھلا ہے.
اس ليے جو شخص بھى گناہ كا ارتكاب كر بيٹھے اسے اللہ كے ہاں توبہ كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو، اور حقداروں كو ان كے حقوق واپس كرے، يا پھر ان سے معافى مانگ لے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ حسن ظن ركھتے ہوئے اس كى رحمت كى اميد كرے، چاہے اس كا گناہ كتنا بھى بڑا ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كى رحمت تو بہت زيادہ وسيع ہے، اور اس كى بخشش بہت زيادہ ہے، اس شخص كو چاہيے كہ وہ اللہ كى ستر پوشى كى اميد ركھتے ہوئے ستر پوشى اختيار كرے، اور اسے ختم مت كرے، اور اللہ تعالى سے ممد و معاون ہے.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 24 / 296 - 297 ).
اس ليے آپ كو اس كے بارہ ميں كچھ علم ہوا اس كے بعد آپ كے جذبات بھڑكنے اور غضبناك ہونے كى كوئى وجہ نہيں، اور نہ ہى آپ اسے زدكوب كر سكتے ہيں، كيونكہ وہ اسلام قبول كر چكى ہے، اوراپنے سابقہ دين اور اپنى تاريك تاريخ كو طلاق دے چكى ہے، پھر اس كى جاہليت پر كس ليے اس كا محاسبہ ہو سكتا ہے.
اور خاص كر جب آپ خود بھى اس كى تاريخ كا ايك حصہ اور ورق بن چكے ہيں؟! اور آپ نے خود اس كے ساتھ قبيح و شنيع فعل بھى كيا، حالانكہ آپ خود كو مسلمان كہتے ہوئے اسلام كى طرف منسوب تھے جو آپ كے ليے ايسے افعال كو حرام كرتا ہے، اور وہ عورت تو آپ كے اس دين كى طرف منسوب نہ تھى جو اسے ان افعال سے منع كرتا، بلكہ آپ خود ان كفار كى نقالى اور ان كے رسم و رواج اور عادات پر راضى ہو كر ان جيسے افعال كرنے لگے، اور اس نے تو اس ميں كوئى مخالفت نہيں كى!.
ششم:
ہميں تو آپ كى كلام سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ عورت اسلام قبول كر چكى ہے، اور اس نے اسلام كو اچھى طرح قبول كر كے اس پر عمل بھى كرنا شروع كر ديا ہے، لگتا ہے كہ كئى ايك جانب سے وہ عورت آپ سے بہتر اوراچھى ہے، اس ليے جب وہ آپ كى بيوى بننے پر راضى ہو چكى ہے تو آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ اس كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آئيں، اور اس كے عزم كو قوى بنائيں، اور آپ ہر طرح سے اس كا ساتھ ديں اور اس كى مدد و تعاون كريں.
ہفتم:
خاص كر اسے طلاق دينے كے متعلق گزارش يہ ہے كہ:
آپ كسى ايسے اہل علم سے رابطہ كريں جس كو آپ ثقہ سمجھتے ہوں اسے اپنا موقف بيان كريں اور طلاق ديتے وقت جو حقيقت حال تھى وہ واضح كريں، كيونكہ غصہ كے كئى ايك درجات ہيں ہر غصہ ميں طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور نہ ہى ہر غصہ كى حالت ميں طلاق كے عدم وقوع كاحكم لگايا جا سكتا ہے، بلكہ غصہ والے اس شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى جو غصہ كى حالت ميں اپنے ہوش و حواس پر مكمل كنٹرول كھو بيٹھے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہوش و حواس كھو جانے كى صورت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى غلام كى آزادى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2193 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اغلاق" كا معنى يہ ہے كہ: انسان كى عقل پر پردہ پڑ جائے حتى كہ وہ بغير ارادہ ہى كوئى كام كر بيٹھے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 130 ) سوال نمبر ( 20 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" جو شخص غصہ كى حالت ميں اپنے قول كا تصور كر سكتا ہو اس كى طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن وہ شخص جسے غصہ كى حالت ميں پتہ نہ چلے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس كى طلاق واقع نہيں ہو گى "
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 308 ).
غصہ كى حالت ميں طلاق كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:
سوال نمبر ( 22034 ) اور ( 45174 ) اور ( 6125 ) اور ( 72439 ).
اگر تو سابقہ تينوں حالات ميں آپ كى طلاق واقع ہوچكى ہے تو پھر وہ عورت آپ كے ليے حرام ہے، اور آپ كے ليے اسے اپنى عصمت ميں واپس لانا حلال نہيں، ہاں يہ ہے كہ اگر وہ كسى اور شخص سے رغبت كے ساتھ نكاح كرے اور وہ شخص اس سے دخول بھى كر لے، پھر بعد ميں وہ شخص يا تو فوت ہو جائے، يا پھر كبھى اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے، اور اگر تين طلاقوں ميں سے كوئى ايك واقع نہيں ہوئى تو پھر آپ كے ليے وہ باقى رہے گى جو بقايا بچى ہوں، چنانچہ اس طرح آپ كو اس سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، اس كو جاننے كے ليے آپ كسى قابل اور ثقہ عالم دين سے ملاقات كريں، تا كہ آپ نے جو كچھ كيا ہے وہ اس كى تفصيل معلوم كر كے آپ كو بتائے.
ہشتم:
اس بيوى ـ اگر تو وہ اب تك آپ كى بيوى ہے ـ كے بارہ ميں ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اسے اپنے پاس لانے كى كوشش كريں؛ تا كہ وہ كافر معاشرے سے چھٹكارا حاصل كر سكے جس ميں فتنہ و فساد پايا جاتا ہے جہاں وہ ابھى تك رہ رہى ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ اپنے ساتھ يہ عہد كريں كہ آپ اس كے ساتھ حسن معاشرت كريں گے، اور اچھے طريقہ سے پيش آ كر بہتر سلوك كريں گے، اور اسے اسلام سے قبل اس كے ماضى كى عار نہيں دلائيں گے اور نہ ہى غلط ماضى كا طعنہ ديں گے، اور اس كے متعلق آپ كو جو كچھ علم ہو چكا ہے اس كا آپ پر كوئى اثر نہيں ہوگا.
اس ليے اگر آپ ايسا كرنے كى استطاعت ركھتے ہيں تو پھر آپ اسے اپنے پاس بلائيں اور ايك اسلامى گھرانہ اور خاندان تعمير كريں، اور اگر آپ ايسا نہيں كر سكتے تو پھر اسے اپنے ملك ميں ہى رہنے ديں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اسے كوئى آپ سے بہتر شخص عطا فرما دے، اور ہو سكتا ہے آپ كو اس سے كوئى بہتر عورت مل جائے.
اور آپ كا يہ كہنا: " ميں اس كا ماضى كيسے بھول سكتا ہوں كہ وہ ميرے ساتھ سوتى اور جاگتى اور كھاتى پيتى اور ميں اس كے ساتھ ايك مسلمان خاوند اور بيوى كى طرح رہتا تھا ؟
ہميں اجازت ديں كہ ہم ـ ہمارے عزيز مسلمان بھائى ـ آپ كے كان ميں راز والى بات كہيں كہ آپ اپنا ماضى كيسے بھول سكتے ہيں ؟!
بلكہ آپ اپنے پروردگار سے اپنے ماضى كى كس طرح معافى و بخشش مانگ سكتے ہيں، اور آپ خود تو اللہ كے بندوں كو معاف نہيں كر رہے، اور ان كے ماضى كو معاف نہيں كرتے بلكہ اسے كريد رہے ہيں ؟!
اس بنا پر اگر آپ حقيقتا يہ ماضى اپنے ساتھ ركھ رہے ہيں اور يہى آپ كى مراد ہے تو پھر ہم آپ كو يہ نصيحت بالكل نہيں كرتے كہ آپ اسے اس كے ملك سے لا كر اپنے پاس بسائيں، بلكہ آپ اس كى جان چھوڑ ديں اور آزاد كر ديں، اور اس كے سارے حقوق ادا كريں.
اور اگر آپ اس ماضى كو بھولنے كے ليے تيار ہيں اور اس كے اسلام قبول كرنے اور اس كى توبہ كے بعد اس كے ساتھ زندگى گزارنا چاہتے ہيں تو پھر كسى اور عورت كى بجائے يہ عورت ہى آپ كے ليے بہتر اور اچھى ہے.
نہم:
رہا مسئلہ آپ كے خاندان والوں كا مطالبہ كہ اسے طلاق دو تو اس سلسلہ ميں گزارش ہے كہ اس مسئلہ ميں آپ كے ليے ان كى اطاعت واجب نہيں، اور آپ كے خاندان اور گھر والوں كو اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے كہ وہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين عليحدگى كرنا چاہتے ہيں.
اور اگر آپ اسے اپنى بيوى بنا كر ركھنا چاہيں تو اس ميں آپ والدين كے نافرمان نہيں ٹھريں گے، بلكہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين قطع رحمى اور عليحدگى كرانے كى كوشش كا گناہ تو آپ كے والدين كو ہوگا، اگر آپ بيوى كو نہ چھوڑيں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 47040 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دہم:
رہا آپ كا يہ سوال:
" كيا زنا ميرى گردن پر قرض ہے كہ ايك دن مجھے اس كى قيمت چكانا ہو گى ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اگر تو آپ صدق دل سے اللہ كے ہاں توبہ كريں جيسا كہ آپ اپنے متعلق كہہ رہے ہيں تو اميد ہے كہ قرض نہيں ہوگا، اور آپ كا اس پر مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا؛ توبہ كرنے والوں كے ليے بخشش اور اسے نيكيوں سے بدل دينے كے وعدہ كا اوپر بيان ہو چكا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے گناہوں كو بخش دے، اور جہاں كہيں بھى خير و بھلائى ہو وہ آپ كے مقدر ميں كرے، اور آپ كو وہ كچھ كرنے كى توفيق دے جس ميں آپ كى حالت كى اصلاح ہو.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ