ضرر كى حالت ميں طلاق طلب كرنا
پہلے خاوند سے عليحدگى كے بعد ميرے چچا كے بيٹے نے مجھے كہا كہ ميں اس كے ساتھ شادى پر راضى ہو جاؤں جب بھى حالات بنے شادى كر لى جائے، وہ مجھے كہنے لگا ميں تمہيں كسى اور كے پاس جانے كى اجازت نہيں دونگا، اس كے علاوہ اور بھى بہت سے باتيں كيں جن ميں اس نے اپنى محبت كا اظہار كيا اور اپنى بيوى كے ساتھ مشكلات بھى ظاہر كيں جو اس سے تقريبا تيس برس بڑى ہے.
بارہ برس تك وہ ميرا پيچھا كرتا رہا اور مجھے شادى كا كہتا رہا، اور بارہ برس كے بعد رشتہ مانگا اور شادى ہو گئى اتفاق يہ ہوا كہ وہ اللہ كى رضا كے ليے دونوں بيويوں ميں عدل و انصاف سے كام لے اور پہلى بيوى كے بارہ ميں كوتاہى سے كام نہيں لے گا اور اسے تنگ نہيں كريگا.
ميں نے اپنے كچھ حقوق اسے چھوڑ ديے تا كہ وہ ندامت و تنگى محسوس نہ كرے، وہ ہميشہ مجھے دعائيں ديتا كيونكہ ميں اس كا ہر حالت ميں ساتھ ديتى تا كہ ايك سے زائد بيويوں والے اشخاص كى طرح مشكلات كا شكار نہ ہو، شادى كے پہلے ماہ ہى ميں حاملہ ہو گئى اور شادى كے تين ماہ بعد بغير كسى سبب كے خاوند نے ميرے بستر كو چھوڑ ديا اور ميرے پاس گھر بھى نہيں آتا تھا كيونكہ ميں اپنے ميكے رہتى تھى...
وہ كہنے لگا: اسے ميرے چہرہ كو ديكھنے كى استطاعت نہيں، اور ميرے بارہ ميں وہ كوئى رغبت محسوس نہيں كرتا اور ہمارے گھر آنے سے كترانے لگا كہ كہيں طلاق وغيرہ جيسا معاملہ پيشن نہ آ جائے اور ميں حاملہ بھى تھى....
جب بھى اسے ميرى ياد آتى تو وہ تنگى محسوس كرتا.. اس نے مجھ سے وعدہ كيا كہ وہ كسى عالم دين كے پاس جائيگا جو دم كر علاج كرتا ہے، حتى كہ دو دو مہينے اور تين مہينے تك ميں اس كى شكل بھى نہ ديكھ پاتى اور وہ بھى صرف پانچ منٹ كے ليے يا پھر صرف ٹيلى فون پر ہى بات ہوتى.
اس كے باوجود ميں نے صبر سے كام ليا اور اسے تنگ نہيں كيا.... تين برس تك يہى معاملہ رہا اور كوئى تبديلى نہ ہوئى اور مجھے سوائے رسوائى و تذليل كے كچھ حاصل نہ ہوا ميرے دل ميں تنگى اور نفرت و انكار پيدا ہو گيا ہے مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
كيا ميں اس سے طلاق طلب كر لوں يا كہ ايسے ہى رہوں ہو سكتا ہے سال گزرنے كے ساتھ تبديلى پيدا ہو جائے ؟
الحمد للہ:
شريعت اسلاميہ نے بغير كسى حاجت و ضرورت اورتنگى كے طلاق كا مطالبہ كرنے سے منع فرمايا ہے حديث ميں اس كى بہت سخت ممانعت پائى جاتى ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى ضرورت و تنگى كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
الباس: كا معنى شدت و تنگى اور ايسا سبب جس كى بنا پر طلاق طلب كى جا سكتى ہو اور عليحدگى پر مجبور ہونا پڑے.
اس ليے بغير كسى تنگى و ضرور ت كے عورت كا طلاق طلب كرنا حرام ہے، بلكہ بعض علماء كرام نے ت واسے كبيرہ گناہ ميں شمار كيا ہے جيسا كہ ابن حجر الھيتمى نے " الزواجر " ميں بيان كيا ہے.
مندرجہ بالا حديث سے يہ سمجھ آتى ہے كہ اگر كوئى تنگى ہو اور عورت كو خاوند كے ساتھ رہنے ميں ضرر و نقصان ہو تو وہ طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے.
اس بنا پر اگر تو معاملہ بالكل وہى ہے جو آپ بيان كر رہى ہيں كہ خاوند نے آپ كو چھوڑ ركھا ہے اور تين برس ہو گئے آپ كے حقوق ادا نہيں كر رہا تو آپ كے ليے طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن افضل و بہتر يہى ہے كہ آپ صبر و تحمل سے كام ليں اور اپنى خاوند كہيں كہ جو كچھ وہ كر رہا ہے اس كا كوئى حل نكالے اور اپنا علاج كرائے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے شفا دے اور معاملات صحيح ہو جائيں.
ليكن اگر آپ ديكھيں كہ معاملات جوں كے توں ہيں اور كوئى تبديلى نہيں ہوئى اور آپ كو اميد ہو كہ اگر وہ طلاق دے دے تو آپ كہيں اور شادى كر سكتى ہيں تو اس صورت ميں طلاق ميں ہى خير و بھلائى ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر وہ عليحدہ ہو جائيں تو اللہ سبحانہ و تعالى دونوں كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے }النساء ( 130 ).
آپ نے جو بيان كيا ہے كہ جب بھى خاوند آپ كو ياد كرتا ہے تو آپ سے نفرت كرتا اور تنگى محسوس كرتا ہے، ہو سكتا ہے اس كا سبب جادو كا اثر ہو، اس ليے اسے شرعى دم اور دعائيں استعمال كر كے علاج كرنا چاہيے، يا پھر وہ كسى نيك و صالح شخص كے پاس جائے جو شرعى دم كرتا ہو.
مزيد آپ سوال نمبر ( 11290 ) اور ( 12918 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ