بيوى سے كہا: اگر تم نے موبائل كو ہاتھ لگايا تو فورا اپنے ميكى چلى جاؤگى
ميرے اور خاوند كے مابين خاوند كے موبائل كے متعلق جھگڑا ہوگيا كيونكہ ميں موبائل سے ميں اپنے گھر والوں كو بہت زيادہ فون كرتى تھى تو خاوند نے مجھے كہا:
اگر تم نے موبائل كو ہاتھ لگايا تو فورا تم اپنے گھر چلى جاؤگى، جب تم نے موبائل كو ہاتھ لگايا تو اپنے گھر چلى جاؤگى اس وقت اس نے دونوں بار يہ الفاظ بولتے ہوئے اشارہ بھى كيا تھا.
ميں نے اس سے نيت كے بارہ ميں دريافت كيا تو وہ كہنے لگا: ميں تو اسے ڈرا دھمكا رہا تھا تا كہ دوبارہ موبائل سے فون نہ كرو.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا جب يہ شرط پائى جائے جس پر كلام معلق كى گئى تھى تو طلاق ہو جائيگى يا نہيں ؟
اور كيا يہ صريح الفاظ ميں شامل ہوتا ہے يا كہ كنايہ كے الفاظ ميں سے ہے ؟
ميرے اور خاوند كے مابين خاوند كے موبائل كے متعلق جھگڑا ہوگيا كيونكہ ميں موبائل سے ميں اپنے گھر والوں كو بہت زيادہ فون كرتى تھى تو خاوند نے مجھے كہا:
اگر تم نے موبائل كو ہاتھ لگايا تو فورا تم اپنے گھر چلى جاؤگى، جب تم نے موبائل كو ہاتھ لگايا تو اپنے گھر چلى جاؤگى اس وقت اس نے دونوں بار يہ الفاظ بولتے ہوئے اشارہ بھى كيا تھا.
ميں نے اس سے نيت كے بارہ ميں دريافت كيا تو وہ كہنے لگا: ميں تو اسے ڈرا دھمكا رہا تھا تا كہ دوبارہ موبائل سے فون نہ كرو.
ميرا سوال يہ ہے كہ كيا جب يہ شرط پائى جائے جس پر كلام معلق كى گئى تھى تو طلاق ہو جائيگى يا نہيں ؟
اور كيا يہ صريح الفاظ ميں شامل ہوتا ہے يا كہ كنايہ كے الفاظ ميں سے ہے ؟
الحمد للہ:
طلاق كے الفاظ دو طرح كے ہيں: صريح اور كنايہ
صريح الفاظ وہ ہيں جو غالب طور پر طلاق كے معانى پر محتمل ہوتے ہوں، مثلا ميں نے تجھے طلاق دى، تمہيں طلاق وغيرہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتى ہے چاہے خاوند نے طلاق كى نيت نہ بھى كى ہو.
كنايہ كے الفاظ وہ ہيں جن طلاق كے معانى بھى ركھتے ہوں اور طلاق كے معنى نہ بھى ركھيں مثلا آپ كے خاوند نے آپ كو كہا: ( تم فورا اپنے ميكى چلى جاؤگى ) اس ميں احتمال ہے كہ اس نے طلاق كا ارادہ كيا ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ كچھ اور مقصد ركھتا ہو، ان الفاظ كا حكم يہ ہے كہ اس سے طلاق اس وقت تك نہيں ہوتى جب تك خاوند طلاق كى نيت نہ كرے.
اگر تو آپ كے خاوند نے اس سے طلاق كا ارادہ كيا تھا تو پھر معلق كردہ شرط پورى ہونے كى صورت ميں يعنى آپ كا موبائل كو ہاتھ لگانے سے ايك طلاق ہو گئى ہے، اور اگر اس نے طلاق كى نيت نہيں كى تو پھر اس سے طلاق نہيں ہوئى.
اور يہ كہ خاوند كا آپ كو خوفزدہ كرنا اس ميں مانع نہيں كہ اس نے اس سے طلاق كا ارادہ نہيں كيا، كيونكہ آدمى طلاق سے بھى بيوى كو خوفزدہ كرتا ہے تا كہ وہ خاوند كى بات مان لے اور اطاعت كرے، اور نافرمانى سے باز آ جائے.
خاوند كو چاہيے كہ وہ صريح طلاق كے الفاظ اور دوسرے الفاظ كے استعمال كرنے سے اجتناب كرے، اور مشكلات اور جھگڑے كو محبت و مودت اور افہام و تفہيم كى فضا ميں حل كرنے كى كوشش كرے.
اور بيوى كو بھى چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كى بات مانتے ہوئے اس كى اطاعت كرے، اور خاوند كو خوش كرنے كى كوشش كرے، بيوى كو حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند كو ناراض كرے يا اس كى نافرمانى كرتى پھرے، يا پھر خاوند كى رضامندى كے بغير خاوند كا مال لے.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق دے جن سے وہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند كرتا ہے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ