اسے خاوند شدت سے زد کوب کرتا ہے

میں نے اپنے خیال میں ایک مسلمان اورصالح شخص سے شادی کی ، جوکہ مسلمانوں کے تعاون سے اللہ تعالی کے دین کوبلند کرنے کے لیے نشر اسلام کا اہتمام کرتا تھا ۔
چار سال قبل جب ہماری منگنی کے دن تھے تو اس سے میں نے اپنے تعلقات ختم کرنا چاہے اس لیے کہ وہ میرے بارہ میں غلط قسم کے کلمات استعمال کرتا تھا جس سے مجھے تکلیف ہوتی ، اورمیرے خیالات کوبھی ٹھیس پنچتی تھی ۔
لیکن اس نے وعدہ کیا کہ شادی کے بعد وہ بہت ہی زيادہ نرم دل ہوجاۓ گا ، اوراس وقت اس کی سختی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ کام نہیں کرتا تھا ، اوراس لیے کہ مسلمانوں پر اپنے معاھدوں کے پابندی لازمی ہے اوروہ وعدہ نبھاتے ہيں اس لیے میں نے اس پر بھروسہ کیا اوراس سےشادی کے لیے تیار ہوگئي ۔
اورجب سے ہم نے شادی کی ہے اس کا معاملہ اوربڑھ گیا ہے اوروہ مجھے جسمانی طور پر بھی تکلیف دینا شروع ہوگيا ہے ، حتی کہ وہ مجھے گھونسے اورمکے مارنے اورمیری گردن بھی دبانے لگ گیا ہے ۔
بالاخرآٹھ ( 8 ) ماہ قبل میرے والدین کوبھی اس معاملے کا علم ہوگیا اب کچھ ہفتوں کے لیے اسے چھوڑ کراپنے والدین کے گھر چلی گئي ہوں ، میرے والدین کہتے ہيں کہ تم اپنے خاوند کوایک اور موقع دو اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ دوسرے شخص سے شادی کرو وہ اگر اس سے برا نہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس جیسا ہی ہو ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی بھی مطلقہ عورتیں ہیں ان کا چکر یہی ہے کہ ان کے دوسرے خاوند پہلے سے بھی بد تر ہوتے ہیں ، میرا خاوند ہمارے ہاں آیا اورمعذرت کر کے اس نے قطعی اورپختہ عھد کیا ہے کہ اپنے اسلوب میں تبدیلی لاۓ گا ، اوروہ ہر معاملے میں باریک بینی سے کام لے گا ، اوراذیت و تکلیف دینے سے باز رہے گا ۔
ہمارے درمیان یہ معاھدہ ہوا کہ میں اس کے پاس آؤں گی تا کہ یہ دیکھ سکوں کہ وہ حقیقتا بدلا ہے کہ نہیں ، اس کے پاس آنے کے بعد بہت ہی تھوڑا عرصہ تو اس کی حالت تبدیل ہوئي ، وہ میرے ساتھ غلط قسم کی کلام کرتا اورمیرے احساسات کوبھی مجروح کرتا رہا اورقلیل سی جسمانی تکلیف بھی دیتا رہا اوربعض اوقات مجھ پر گھونسے بھی تانے اور تھوڑا سا مارا بھی ۔
اس لیے کہ شادی کی ابتداء میں بھی اس کا یہی طریقہ رہا اورپھر آہستہ آہستہ وہ زيادہ تکلیف دینا شروع ہوا ، لھذا میں نے دو ماہ کے بعد یہ طے کیا کہ وہ تبدیل نہیں ہوا اوراپنے گھر والوں کوبھی بتا دیا ۔۔۔
توکیا اب میرے لیے طلاق کا مطالبہ جائز ہے ؟

الحمدللہ

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہيں کہ ان مصائب اورمشکلات میں آپ کا تعاون فرماۓ ، اورآپ کے لیے صابرین جیسا اجرعظیم لکھے بلا شبہ وہ بہت ہی جود وسخا اور کرم کا مالک ہے ۔

خاوند کے لیے ضروری ہے کہ اسے علم ہونا چاہیے کہ وہ مسؤل ہے اوراسے اس کی رعایا کے بارہ میں باز پرس ہوگی ، اوراللہ تعالی نے بھی اس پر اپنے گھروالوں بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت اوراحسان کرنا واجب کیا ہے ، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( تم سے سب سے اچھا اوربہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے اچھا ہو ، اورتم میں سے گھروالوں کے لیے سب سے بہتر میں ہوں ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح الجامع ( 3314 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔

اوریہ بھی احسان اورحسن معاشرت ہی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کوشدید زد کوب نہ کرے اورنہ ہی اس کے چہرے کوقبیح اور بد صورت کہے ، اور اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اگر وہ یہ کام کرے گا تو اللہ تعالی نے جواسے امانت دی ہے اس میں زيادتی کر رہا ہے ۔

ہم بہت سے لوگوں سے سنتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی ایسا کام ملنا مشکل ہے جس سے اسے رزق ملے ، اوربعض اوقات اسے مناست کام تلاش کرتے ہوۓ بہت مدت ہو جاتی ہے ، اورہم بہت سارے لوگوں سے ان کے متعلق سنتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کوزدکوب کرتے ہیں شائد جو کچھ ان کے ساتھ پیش آرہا ہے وہ ان کی وجہ سے ہے ، اورگویا کہ یہی ان کے منحوس کاموں کولارہی ہيں ۔

توایسے لوگوں کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے اورعلم ہونا چاہیے کہ انہیں وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرنےاورحرام کاموں سے دور رہنے کے محتاج ہیں ، نہ کہ وہ گناہ کا ارتکاب کرتے رہیں اوراسے اپنے لیے جائز کرلیں ۔

مسلمان کویہ علم ہونا بھی ضروری ہے کہ اس وقت وہ دار امتحان اورآزمائش میں ہے ، لھذا اسے اپنی زندگی میں پیش آنے والی آزمائشوں پر صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے ، اوراللہ تعالی کی طرف رجوع کرکے اس سے التجا کرنی چاہیے کہ وہ اس کے مصائب دور کردے ۔

وہ اللہ تعالی ہی پریشانیوں کودور اورغموں سے نجات دینے والا ہے ، وہ مظلوم کی دعا سننے والا ، وہ اپنی تعریفوں کے ساتھ پاک ہے اس پر کوئي چھپنے والی چيز بھی نہيں چھپ سکتی ، اور نہ ہی اسے آسمان وزمین میں کوئی چيز عاجز کرسکتی ہے ، شروع اورآخر میں سب حمد وتعریف اسی کے لیے ہے ۔

وہ اللہ سبحانہ وتعالی اکرم الاکرمین ہے ۔۔۔ بندہ اس کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے بھی زيادہ تیزی سے بندے کے قریب آتا ہے ، امام بخاری اورامام مسلم رحمہما اللہ تعالی ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اللہ تعالی کا فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں ، اوراگر وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں ، اگروہ میرے قریب ایک بالشت ہوتا ہے تومیں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں ، اور اگروہ میرے پاس چل کے آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آتا ہوں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6856 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4832 ) ۔

سوال کرنے والی بہن آپ کے متعلق گزارش ہے کہ : اللہ تعالی نے آپ کوایک برے اخلاق کے مالک آدمی کے ساتھ آزمائش میں ڈالا ہے ، جوکچھ سوال میں ذکر کیا گيا ہے اس کی بنا پر آپ کے لیےجائز ہے کہ آپ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہیں ( جسے خلع کانام دیا جاتا ہے ) ۔

اس لیے کہ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ زندگی نہيں گزاری جاسکتی ، ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کواس کے بدلے میں کوئي بہتر اوراچھا آدمی عطا کردے ، اوراگر اس کے علاوہ کوئی شخص نہ مل سکے اورآپ فتنہ میں پڑنے کا خطرہ محسوس نہ کریں یا پھر حرام کام میں نہ پڑیں تو آپ کا شادی کے بغیر ہی اپنے والدین کےگھرمیں باعزت رہنا اس آدمی کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے ۔

لیکن اگر آپ کو یہ خطرہ ہو کہ آپ فتنہ میں مبتلا ہوجائيں گی اوریا پھر حرام کام میں پڑ جائيں گی تو پھر اس شخص کے ساتھ ہی رہتے ہوۓ دنیا کی اذیت پر صبرکرنا اللہ تعالی کے عذاب سے بہتر ہے ۔

کچھ ایسے اسباب بھی ہیں جن کی بنا پر عورت اپنے خاوند سے خلع حاصل کرسکتی ہے جواسی ویپ سائٹ پر آپ کوسوال نمبر ( 1859 ) میں ملیں گے آپ ان کا بھی مراجعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ