كيا جنسى زيادتى كا شكار ہونے والى عورت پر عدت لازم ہے ؟

ايك لڑكى كو زبردستى جنسى زيادتى كا شكار بنايا گيا كيا اس پر عدت ہو گى ؟

الحمد للہ:

فقھاء كرام كا ايسى عورت كے متعلق اختلاف ہے جس سے زنا كيا گيا ہو ـ چاہے زبردستى ہو ـ آيا وہ عدت گزارے گى يا نہيں ؟

اس ميں تين قول ہيں:

پہلا قول:

اس پر كوئى عدت نہيں، احناف اور شافعيہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 337 ).

دوسرا قول:

مالكيہ اور حنابلہ كے ہاں وہ تين حيض عدت گزارے گى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ اس قول كى علت بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ وطئ ہے جو رحم كے مشغول كا متقاضى ہے، اس ليے اس سے عدت واجب ہے جس طرح كہ شبہ سے وطئ ميں ہے، ليكن اس كا مطلقہ عورت كى طرح عدت واجب ہونا تو يہ اس ليے كہ يہ آزاد تھى اس ليے اس كا استبراء رحم ہونا واجب ہے جس طرح كہ بشبہ والى عورت سے وطئ كى گئى كى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 80 ).

اور الدسوقى اپنے حاشيہ ميں كہتے ہيں:

" الجلاب ميں كہتے ہيں: اور جب عورت زنا كرے يا اس سے زبردستى كى جائے تو اس وطئ كے بعد استبراء رحم كے ليے تين حيض ہيں، اور اگر وہ لونڈى ہو تو ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم ہو گا، چاہے وہ خاوند والى ہو يا بغير خاوند كے " انتہى.

ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 471 ).

تيسرا قول:

ايك حيض كے ساتھ اس كا استبراء رحم ہو گا، يہ مالكيہ كا ايك قول، اور امام احمد سے روايت ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اسے اختيار كيا ہے.

المرداوى رحمہ اللہ الانصاف ميں كہتے ہيں:

" اور ان سے ( يعنى امام احمد ) سے مروى ہے ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم ہو گا، اسے حلوانى، ابن رزين، اور شيخ تقى الدين ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ ) نے اختيار كيا ہے. انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 9 / 295 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے كہ اگر تو وہ عورت خاوند والى ہو تو اس پر نہ تو عدت لازم آتى ہے، اور نہ ہى استبراء رحم، اور اگر بغير خاوند كے ہو تو پھر ايك حيض كے ساتھ استبراء رحم ہو گا.

رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تيسرا قول: اس پر نہ تو عدت ہے اور نہ ہى استبراء رحم، يہ ابوبكر، عمر اور على رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے، اور امام شافعي كا مسلك يہى ہے، اور سب اقوال ميں سے صحيح قول بھى يہى ہے، ليكن اس قول پر اگر وہ حاملہ ہو جائے تو اس كا نكاح صحيح نہيں ہو گا حتى كہ وضع حمل ہو جائے؛ كيونكہ اس حالت ميں اس سے وطئ كرنا ممكن نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حاملہ سے وطئ كرنے سے منع فرمايا ہے حتى كہ وضع حمل ہو جائے "

اس سے فائدہ يہ ہے: اگر وہ خاوند والى ہے مثلا تو اگر وہ زنا كرتى ہے تو ہم خاوند كو يہ نہيں كہينگے تم اس سے دور رہو، بلكہ ہم يہ كہينگے: تم اس سے جماع كر سكتے ہو اور آپ كے ليے اس سے اجتناب كرنا ضرورى نہيں، ليكن اگر اس سے حمل ظاہر ہو گيا تو پھر اس سے جماع نہ كرو، اور اگر حمل ظاہر نہيں ہوتا تو وہ تيرے تيرے ليے ہے.

اور كوئى قائل يہ كہے:

كيا يہ احتمال نہيں كہ حمل زنا سے ہوا ہو ؟

ہم كہينگے: يہ احتمال وارد ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:

" بچہ بستر والے كے ليے ہے، اور زيادتى كرنے والے كے ليے پتھر ہيں "

جب ہميں يقين ہے كہ وہ عورت زنا سے حاملہ ہوئى ہے تو بھى بچے كا حكم يہى ہو گا كہ وہ بستر والے ( يعنى خاوند كے ) ليے ہے، اور جب وہ عورت زنا سے حاملہ ہوئى ہو اور ہم خاوند كو كہيں كہ تم اس سے وطئ مت كرو تو بغير وطئ كيے اس سے خوش طبعى كرنا اور مباشرت كرنا جائز ہے، صرف اسے جماع سے اس ليے منع كيا گيا ہے كہ وہ كسى دوسرے كى كھيتى كو پانى نہ دے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 232 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" بلكہ يہ قول ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہے، كہ زنا شدہ عورت پر مطلقا كوئى عدت نہيں، اور نہ ہى اس كا استبراء رحم ہو گا، خاص كر جب وہ خاوند والى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بچہ بستر والے ( كے ليے ) ہے "

بلكہ انسان كو چاہيے كہ جب وہ جان لے كہ ـ اللہ محفوظ ركھے ـ اس كى بيوى نے زنا كيا ہے اور وہ توبہ كر چكى ہے تو وہ فى الحال اس سے جماع كرے، تا كہ مستقبل ميں اس كے دل ميں كوئى شك نہ رہے، كہ آياوہ زنا سے حاملہ ہوئى ہے يا كہ نہيں ؟

جب وہ بيوى سے اسى وقت جماع كر ليگا تو يہ محمول كيا جائيگا كہ بچہ خاوند كا ہے، زانى كا نہيں، ليكن اگر عورت كا خاوند نہ ہو تو راجح قول كے مطابق اس كا ايك حيض كے ساتھ اس كا استبراء رحم كرنا ضرورى ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 282 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ