بيٹى پيدا ہونے كى صورت ميں بڑے مہر ميں شادى كرنے كى نذر ماننا اور پھر اس نذر ميں تبديلى كرنا
ميرى والدہ نے نذرمانى تھى كہ جب بيٹى پيدا ہو تو اس كى خوشى سات يوم تك كريگى اور اس كا مہر سات ہزار عمانى ريال ہو گا، اور جيسا كہ ہم جانتے ہيں كہ نوجوانوں پر مہر زيادہ كى ادائيگى اور پھر عورتوں كا شادى كى عمر سے نكل جانا بہت زيادہ ہے، اگر ہم يہ نذر پورى نہ كريں اور بيٹى كى شادى ميں آسانى چاہيں تو كيا حكم ہو گا ؟
الحمد للہ:
اول:
شادى ميں آسانى كرنا اور مہر زيادہ نہ ہونا اور شادى كے اخراجات ميں كمى ايك قابل تعريف عمل ہے، اور اس ميں ہى خاوند اور بيوى كے خير و بركت ہے، اور پھر خاوند پر بھى مہربانى ہے كہ وہ اس كے ليے قرض كے بوجھ تلے نہيں آتا، اور سب نوجوانوں كے ليے بھى مہربانى ہو گى اور انہيں فتنہ سے نكالنے كا باعث اور ان كى عفت و عصمت ميں آسانى كا باعث ہو گا، اس ليے آپ كا مہر ميں كمى كرنا ايك اچھا عمل ہے، ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ كو اللہ تعالى اس كى توفيق دے اور اس ميں آسانى پيدا فرمائے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورتوں كا مہر زيادہ كرنا مكروہ ہے، اور اس ميں جتنى بھى تخفيف اور آسانى ہو يہ سنت ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 21 / 87 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
مہر زيادہ كرنے اور شادى كى تقريبات كے اخراجات ميں اسراف اور خاص كر ہنى مون جس ميں بہت زيادہ اخراجات كيے جاتے ہيں كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے كيا شريعت اس كى اجازت ديتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مہر اور شادى كى تقريبات ميں بہت زيادہ خرچ كرنا يہ سب كچھ شريعت كے مخالف ہے، كيونكہ سب سے بابركت نكاح وہ ہے جس ميں كم از كم خرچ ہو، اور جتنے اخراجات كم ہونگے اتنى ہى بركت زيادہ اور عظيم ہو گى ....
اور اسى طرح تقريبات ميں بھى بہت زيادہ اخراجات كرنے سے شريعت اسلاميہ نے منع كيا ہے، اور يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں داخل ہوتا ہے:
﴿ اور تم اسراف مت كرو يقينا اللہ عزوجل اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا ﴾.
اور پھر اس طرح كے معاملہ ميں واجب يہى ہے كہ يہ شريعت كے مطابق ہو، اور انسان اس كى حد سے تجاوز مت كرے اور اس ميں كسى بھى قسم كا اسراف مت كرے، كيونكہ اللہ عزوجل نے اسراف سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:
﴿ يقينا اللہ تعالى اسراف كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا ﴾.
اور جسے ہنى مون كا نام ديا جاتا ہے يہ تو سب سے زيادہ خبيث اور ناراضگى و بغض والا كام ہے؛ كيونكہ يہ غير مسلموں كى نقالى اور تقليد ہے، اور پھر اسميں بہت زيادے مال كا ضياع بھى ہے، اور اس كے ساتھ بہت سارے دينى امور كا بھى ضياع ہے خاص كر جب يہ غير اسلامى ممالك ميں جا كر منايا جائے، كيونكہ وہاں جا كر ايسا كام كرنے والے واپس آتے ہيں تو وہ اپنے ساتھ ايسى عادات اور تقليد لاتے ہيں جو ان كے ليے بھى نقصاندہ ہوتى ہيں اور اسلامى معاشرے كےليے بھى نقصاندہ.
اور ان امور سے امت كو خطرہ ہے، ليكن اگر انسان اپنى بيوى كو لے كر عمرہ كے ليے جائے يا پھر مدينہ نبويہ كى زيارت كرنے چلا جائے تو ان شاء اللہ اسميں كوئى حرج نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 175 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 10525 ) اور ( 12572 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
نذر پورى نہ كرنےكى حالت ميں ـ اور يہى آپ كے ليے بہتر ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے ـ آپ كى والدہ پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، كيونكہ اس نے ايك مباح نذر مانى تھى جس كا پورا كرنا ضرورى و واجب تھا، بلكہ اس ميں انسان كو اختيار ہے كہ وہ نذر پورى كرے يا قسم كا كفارہ ادا كرے، اور قسم كا كفارہ ايك غلام كى آزادى يا پھر دس مسكينوں كو درميانے درجہ كا كھانا كھلانا جو خود كھاتے ہيں، يا درميانہ درجہ كا دس مسكينوں كو لباس دينا ہے.
اور اگر وہ ان تين اشياء ميں كچھ نہ پائے تو پھر تين روزے ركھے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مباح نذر مثلا لباس پہننے، اور جانور پر سوارى كرنا، اس نذر ميں نذر ماننے والے كو اختيار ديا جائيگا كہ وہ نذر پورى كرے اور اگر چاہے تو نذر كو چھوڑ كر قسم كا كفارہ ادا كر دے.. " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 10 / 70 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جو اسے پسند ہيں اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ