مہر بیوی کا ثابت شدہ حق ہے
میں مہر کے متعلق اسلامی نظریہ معلوم کرنا چاہتاہوں ، کہ کیا اسلام مہر کی اجازت دیتا ہے یا کہ یہ ایک غلطی شمار ہوگي ، اورجب یہ غلطی ہو توپھر اس شخص کوکیا کرنا چاہے جو پہلے مہر حاصل کرچکا ہے ؟
الحمدللہ
دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے جوصرف اورصرف بیوی پورا مہر حاصل کرے گی جو کہ اس کے حلال ہے ، لیکن کچھ ممالک میں یہ معروف ہے کہ مہر میں بیوی کا کوئي حق نہیں ، یہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ۔
عورت کومہر کی ادائيگی کے وجوب کے بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ ذيل میں ذکر کی جاتی ہیں :
ارشادی باری تعالی ہے :
{ اورعورتوں کو ان کے مہر راضي خوشی دے دو } النساء ( 4 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ نحلہ سے مہر مراد ہے ۔
حافظ ابن کثيررحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین کی کلام میں کہتے ہيں:
مرد پر واجب ہے کہ وہ واجبی طور پر بیوی کومہرادا کرے اوریہ اسے راضی وخوشی دینا چاہیے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ایک مقام پر کچھ اس طرح فرمان ہے :
{ اوراگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اوران میں سے کسی تم نے خزانہ کا خزانہ بھی دے رکھا ہو توبھی اس میں سے کچھ نہ لو ، کیا تم اسے ناحق اورکھلاگناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے ، تم اسے کیسے لے لو گو، حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اوران عورتوں نے تم سے مضبوط عہدوپیمان لے رکھا ہے } النساء ( 20 - 21 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
یعنی جب تم کسی بیوی کوچھوڑنا چاہو اوراس کے بدلےمیں کسی اور عورت سےشادی کرنا چاہو توپہلی کو دیے گئے مہرمیں سے کچھ بھی واپس نہ لو چاہے وہ کتنا بڑا خزانہ ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ مہر تو اس ٹکڑے کے بدلے میں ہے ( یعنی جس کی وجہ سے اس سے ہم بستری جائز ہوئي ہے ) ۔
اوراسی لیے اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے :
{ تم اسے کس طرح لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل ( ہم بستری کر ) چکے ہو } اورمیثاق غلیظ عہد وپیمان اورعقد ہے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ :
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے توان پر زرد رنگ کے نشان تھے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا توانہوں نے بتایا کہ ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
مہر کتنا دیا ہے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ایک گٹھلی کھجور کے برار سونا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4756 ) ۔
اورمہر صرف لڑکی کا حق ہے اس کے والد یا کسی اورکےلیے اس میں سے کچھ لینا جائز نہيں لیکن اگر لڑکی خود ہی راضي خوشی دے دے تواس میں کوئي حرج والی بات نہیں ۔
ابوصالح کہتےہیں کہ مرد جب اپنی لڑکی کی شادی کرتا تو اس کی مہر خود لے لیتا تھا تواللہ تعالی نے اس سے روک دیا اوریہ آیت نازل فرمائي :
{ اورعورتوں کوان کے مہرراضي خوشی ادا کرو } ۔ تفسیر ابن کثیر ۔
اوراسی طرح اگر بیوی خاوند کو اپنے مہر میں سے کچھ معاف کرتے ہوئے اسےدیتی ہے توخاوند اسے لے سکتا ہے اوروہ اس کے لیے حلال ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوراگر وہ تمہيں اپنی مرضی سے خوش ہوکر کچھ معاف کردیں تواسے راضي خوشی کھاؤ } النساء ( 4 ) ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ