کیا وہ اپنی عیسائي بیوی سے اولاد پیدا نہ ہونے دے
میں نے ھندو مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کیا ہے اورایک عیسائي عورت سے شادی شدہ ہوں میرا سوال یہ ہے کہ :
کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس عیسائي عورت سے بچے پیدا نہ ہونے دوں ، اورخاص کر جبکہ ہمارے درمیان یہ معاہدہ بھی طے نہیں پایا کہ ہم اولاد کواسلامی طورطریقے پر پرورش کریں گے ؟
الحمدللہ
اول :
سب سے پہلے توہم سائل کواللہ تعالی کے اس انعام پر مبارکباد دیتے ہیں کہ اس نے آپ کودین اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائي ، اللہ تعالی آپ کودین اسلام پر ثابت قدم رکھے اورآپ کوموت بھی دین اسلام پر ہی آئے ۔
دوم :
ہم سائل کویہ نصیحت نہیں کرتے کہ وہ اپنی عیسائي بیوی سے بچے پیدانہ ہونے دے ، اس کے دو سبب ہيں :
1 – پہلا سبب یہ ہے کہ :
شرعی طور پر کثرت نسل مطلوب ہے ، اس کے بارہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
( شادی ایسی عورت سے کرو جو زيادہ محبت کرنے والی اورزيادہ بچے جننے والی ہو ، اس لیے کہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں کےسامنے فخر کرونگا ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1754 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3175 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے آداب الزفاف میں اسے صحیح قرار دیا ہے دیکھیں آداب الزفاف ص ( 132 ) ۔
2 - بیوی کا کفرپر ہی باقی رہنا ایک ظنی معاملہ ہے قطعی نہیں ، ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس پر بھی انعام کرتاہوا اسے بھی اسلام داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح کہ اس کے خاوند پر دخول اسلام کا انعام کیا ہے ، اورپھر بیوی کے مسلمان ہونے کےبعد انہیں ندامت کا سامنا کرے کہ ہم نے اولاد کے بغیر ہی زندگی بسر کردی جس کی تربیت ہم دین اسلام اوراخلاق پر کرتے ۔
تو اس بنا پر ہم سائل کویہی نصیحت کریں گے کہ وہ بچے پیدا کرنے سے نہ رکے ، بلکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی یہ کوشش جاری رکھے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے بھی اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔
= اوراگر اللہ تعالی آپ پر اولاد کا انعام کرے توآپ پر واجب اورضروری ہے کہ آپ اس کی تربیت دین اسلام پر کریں اورشروع سے ہی انہیں اسلامی اخلاقیات کی تربیت دیں ، اللہ تعالی نے آپ پر واجب کیا ہے ، اوراس معاملہ میں آپ کی کافرہ بیوی کا کوئي دخل نہيں ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اے ایمان والو! اپنے آپ اوراپنے اہل وعیال کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں } التحریم ( 6 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
( تم میں سے ہرایک حاکم ہے اوراسے اس کی رعایا کے بارہ میں جواب دینا ہوگا ۔۔۔۔ اورآدمی اپنے اہل و عیال کا حاکم ہے اسے اس کی رعایا کے بارہ میں جواب دینا ہوگا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 844 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3408 ) ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ