الحمد للہ: اول: خاوند كى اجازت كے بغير بيوى كا گھر سے نكلنا حلال نہيں، بلكہ كچھ اہل علم تو اسے نشوز يعنى اس نافرمانى كے حكم ميں شامل كرتے ہيں جس كا قرآن مجيد ميں بيان ہوا ہے اور اسے خاوند كى اطاعت سے نكل جانا شمار كرتے ہيں، ليكن اگر اس سلسلہ ميں كوئى عذ

 

 

 

 

ايك عورت نے ليڈى ڈاكٹر سے اپنے خاوند كى اجازت كے بغير اس دليل كى بنا پر مانع حمل دوائى طلب كى كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى بھى كر ركھى ہے اور اس سے اولاد بھى ہے، اور وہ خود ابھى يونيورسٹى كى طالبہ ہے كيا ليڈى ڈاكٹر كے ليے اسے مانع حمل دوائى لكھ كر دينى جائز ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:

اس عورت كے ليے اپنے خاوند كى رضامندى كے بغير مانع حمل دوائى لينى حرام ہے، كيونكہ اولاد خاوند اور بيوى دونوں كا مشتركہ حق ہے، اسى ليے علماءكرام كا كہنا ہے كہ بيوى كى رضامندى كے بغير خاوند اپنى بيوى سے عزل نہيں كر سكتا اجازت كے بغير حرام ہوگا.

عزل يہ ہے كہ جماع كے وقت انزال شرمگاہ كے باہر كيا جائے تا كہ عورت كو حمل نہ ٹھرے، ليكن اگر خاوند اور بيوى دونوں مانع حمل گولياں كھانے پر متفق ہوں تو جائز ہے، كيونكہ يہ دوائى عزل كے مشابہ ہے، صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين عزل كيا كرتے تھے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ہم عزل كيا كرتے تھے اور قرآن مجيد كا نزول ہو رہا تھا "

يعنى اگر عزل كرنا منع ہوتا تو قرآن مجيد اس سے روك ديتا، ليكن يہ گولياں نہيں كھانى چاہييں كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خواہش كے خلاف ہيں اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو اپنى امت كى كثرت چاہتے تھے، اور گولياں كھانے سے حمل نہيں ٹھرتا، ليكن عزل ايك طبعى اور نيچرل ہے ہو سكتا ہے كوئى قطرہ حمل كا باعث بن جائے.

ميں آپ سے عرض كرونگا كہ ان گوليوں كى اصل يہود اور دوسرے مسلمان دشمن لوگ ہيں جو مسلمانوں كى نسل كشى كرنا چاہتے ہيں كہ مسلمانوں كى اولاد كم ہو اور يہ امت مسلمہ افرادى قلت كا شكار ہو كر دوسروں كى محتاج ہو كر رہ جائے، اس ليے كہ افرادى قوت جنتى كم ہو گى اسى اعتبار سے پروڈكٹشن ميں بھى كمى ہوگى، اور جتنى تعداد زيادہ ہو گى پروڈكشن بھى بڑھےگى.

اور يہ چيز زراعت و صنعت حرفت اورتجارت بلكہ ہر چيز ميں ہے، اگر امت آج زيادہ ہو تو كا رعب و دبدبہ ہوگا چاہے وہ صنعت و حرفت ميں پيچھے ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ افرادى قوت سے دشمن مرعوب ہوتا ہے.

اس ليے ہم مسلمانوں سے اپيل كرتے ہيں كہ وہ اپنى افرادى قوت كو بڑھانے كے ليے كثرت اولاد پر عمل كريں چاہے حالات كيسے بھى پيدا ہوں، ليكن اگر عورت كى كمزورى يا بيمارى وغيرہ يا پھر آپريشن كے بغير بچہ پيدا ہى نہيں ہوتا تو يہ ضروريات ہيں جن كا خيال ركھنا ضرورى ہے.

اور پھر ضروريات و حاجات كے كچھ احكام ہيں " اھـ

فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 556 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 21169 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

لہذا جب يہ دوائى اور گولياں كھانا حرام ہيں تو پھر اس سلسلہ ميں اس عورت كا تعاون كرنا بھى حرام ہوگا.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو }المآئدۃ ( 2 ).

واللہ اعلم .

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ