منگيتر كا ايك دوسرے كو منگنى پہنانا

مردوں كے ليے منگنى يا شادى كى انگوٹھى كا حكم كيا ہے اگر جائز ہے تو كيا سونے كے علاوہ كسى بھى معدنيات كى ہو سكتى ہے، اور وہ كونسى معدنيات ہيں جو مرد پہن سكتے ہيں ؟

الحمد للہ:

مرد كے ليے سونے كى انگوٹھى وغيرہ پہننا كسى بھى حالت ميں جائز نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس امت كے مردوں پر سونا پہننا حرام كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كے ہاتھ ميں سونے كى انگوٹھى ديكھى تو آپ نے اسے اس كے ہاتھ سے اتار ديا اور فرمايا:

" تم ميں سے كوئى ايك آگ كا انگارا اٹھا كر اپنے ہاتھ ميں ركھ ليتا ہے "

صحيح مسلم اللباس و الزينۃ حديث نمبر ( 3897 ).

لہذا كسى بھى مسلمان مرد كے ليے سونے كى انگوٹھى پہننا جائز نہيں، ليكن سونے كے علاوہ چاندى وغيرہ دوسرى معدنيات كى انگوٹھى پہننا مردوں كے ليے جائز ہے چاہے وہ قيمتى معدنيات ہى ہو.

اور رہا منگنى يا شادى كى انگوٹھى پہننا تو يہ مسلمانوں كى عادات ميں سے نہيں، اور اگر اس ميں يہ اعتقاد ركھا جائے كہ يہ انگوٹھى خاوند اور بيوى كے درميان محبت كا باعث بنتى ہے، اور اس كو اتارنے سے ازدواجى تعلقات متاثر ہونگے، تو اس طرح يہ شرك ہو جائيگا، اور ايك جاہلى اعتقاد ميں شامل ہوتا ہے، اس بنا پر آپ كے ليے كسى بھى حالت ميں يہ انگوٹھى جائز نہيں.

اول:

اس ليے كہ يہ ان لوگوں كى تقليد اور نقالى ہے جن ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، يہ عادت مسلمانوں ميں غير مسلموں كى طرف سے آئى ہے.

دوم:

اگر اس عادت كے ساتھ يہ اعتقاد بھى ہو كہ يہ ازدواجى تعلقات پر اثر انداز ہوتى ہے تو يہ شرك بن جائيگا لا حول و لا قوۃ الا باللہ.

ماخوذ از فتوى: شيخ صالح الفوزان.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے منگنى كى انگوٹھى كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

" منگنى كى انگوٹھى پہنانا ايك رسم ہے، انگوٹھى ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں ايك اعتقاد ركھا جاتا ہے جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں اور اس انگوٹھى پر منگيتر كا نام لكھتے ہيں جسے دينى ہو، اور لڑكى كا بھى نام لكھا جاتا ہے، جس ميں ان كا گمان ہوتا ہے كہ يہ خاوند اور بيوى كے مابين رابطے ميں اضافہ كا باعث ہے.

تو اس حالت ميں يہ منگنى كى انگوٹھى حرام ہو گى، كيونكہ اس كا تعلق ايسى چيز ہے جس كا نہ تو شريعت ميں اور نہ ہى حسى طور پر كوئى اصل ملتى ہے.

اور اسى طرح يہ انگوٹھى منگيتر لڑكى كو بھى نہيں پہنا سكتا كيونكہ ابھى تو وہ اس كى بيوى نہيں بنى اور اس كے ليے اجنبى كى حيثيت ركھتى ہے، كيونكہ عقد نكاح كے بعد ہى اس كى بيوى بنے گى.

ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلۃ ( 3 / 914 - 915 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 11446 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ