عیسی علیہ السلام کی پیدائش کیسے ہوئ ۔

 

 

 

 

کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے یہ بتا سکیں کہ حمل کے لحاظ سے نبی عیسی علیہ السلام کی پیدائش کیسےئ ؟

الحمد للہ
1 - اللہ تعالی نے جبریل امین علیہ السلام کویہ حکم دیا کہ وہ مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونک ماریں اور گریبان قمیص کی گردن اور سر داخل کرنے کی جگہ ہے تو اللہ تعالی کے حکم سے پھونک رحم میں جانے کے بعد روح بن گئ ، اوراللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کی پیدائش کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ اوروہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی } پھر اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ وہ پھونک اس کے رحم میں پہنچ گئ ۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

{ اور مریم بنت عمران (کی مثال بیان فرمائ ) جس نے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں روح پھونک دی }

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اس نے جواب دیا میں تو اللہ تعالی کابھیجا ہوا قاصد ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا ھبہ کرنے آیا ہوں } ۔

یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ پھونک مارنے والے جبریل امین علیہ السلام تھے ، اورانہوں نے یہ کام اللہ تعالی کے حکم کے بغیر نہیں کیا ۔

2 – مدت حمل کے متعلق بعض مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :

- یہ کہ یہ حمل چند لحظات کا تھا ، تو یہ قول غیر واضح ہے اور اس پر کو‏‏ئ نص دلالت نہیں کرتی اوراگر ایسے ہی ہوتا تو آیت میں یہی چیز ہوتی ، تویہ ممکن تھا کہ وہ اسے تسلیم کرلیتے کہ یہ عادی حمل نہیں جوکہ عورتوں کوہوتاہے ، اور پھر وہ اس پر زنا کی تہمت نہ لگاتے جیسا کہ انہوں نے یہ کہا کہ { وہ کہنے لگے کہ اے مریم ! تو بہت ہی بری چيز لائ ہے } ۔

ذیل میں اہل تفسیر میں سے دو عظیم اماموں کی کلام ذکر کرتے ہيں ، ان میں سے ایک تو گذر چکے ہیں اور وہ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی ہیں ، اور دوسرے معاصرین میں سے ہیں جو کہ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی ہیں انہوں نے اس معاملہ میں فرمایا ہے :

3 – ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں :

عیسی علیہ السلام کے حمل کی مدت کے متعلق مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ، جمہور سے یہ مشہور ہے کہ یہ حمل نو مہینہ کا تھا ، اور ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے مغیرہ بن عتبہ بن عبد اللہ الثقفی نے بتایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا اور مریم علیہا السلام کے حمل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا انہیں حمل ہوا اور اسی وقت پیدائش ہوگئ !!

یہ قول غریب ہے لگتا ہے کہ یہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے ظاہر سے لیاگیا ہے فرمان باری تعالی ہے :

{ تووہ حاملہ ہوگئ اور اسی وجہ سے وہ ان سے علیحدہ ہوکر ایک دور جگہ پر چلی گئیں ، پھر درد زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے پاس لے آیا }

تو یہاں پر حرف فاء اگرچہ تعقیب کے لۓ ہے لیکن ہر چیز کی تعقیب اس کے حسب حال ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ یقینا ہم نے انسان کومٹی کے جوھر سے پیدا کیا ، پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ، پھر ہم نے نطفہ کوجما ہوا خون بنایا ، پھر اس خون کےلوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا ، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں } تو اس آیت میں فاء اس کے حسب حال ہے ۔

اورحدیث میں یہ بات ثابت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( کہ ہردو صفتوں کے درمیان چالیس دن ہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3208 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2643 )

اوراللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

{ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ تعالی آسمان سے پانی نازل فرماتاہے تو زمین سرسبزو شاداب ہوجاتی ہے } ۔

تو مشہور اور ظاہر یہ ہے کہ – اور اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے – کہ مریم علیہا السلام کا حمل بھی ایساہی تھا جس طرح کہ عام عورتیں اپنی اولاد سے حاملہ ہوتی ہیں ۔

جب مریم علیہا السلام نے اپنی قوم سے شک وتہمت محسوس کی تو ان سے ایک دور جگہ پر علیحدہ ہوگئیں تاکہ وہ اسے نہ دیکھیں اورمریم علیہا السلام انہیں نہ دیکھ سکیں ، اورلوگوں سے چھپ گئيں اوران کے اوراپنے درمیان پردہ کرلیا کہ وہ انہیں اوراسے کوئ نہ دیکھ سکے ۔

تفسیر ابن کثیر ( 3 / 122 )

4 - اورشیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

اورمریم علیہا السلام کاوہ حمل جس میں عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئ اس کی مدت میں علماء کے اقوال کوہم اس لۓ ذکر ہی نہیں کرتے کہ ان کی کوئ دلیل نہیں اور ان اقوال میں سب سے زیادہ ظاہر وہ ہے کہ یہ حمل ایساہی حمل تھا جوکہ عادتا عورتوں کوہوتا ہے اگرچہ یہ حمل کی ابتداء اور اسکا ہونا خارق عادت تھا ، ،واللہ تعالی اعلم ۔ اضواءالبیان ( 4 / 264 )

5 - اوربعض جاہلوں نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے :

{ اورمیں نے اس میں اپنی روح پھونکی } اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالی کی روح کا ایک حصہ ہیں !!

تو اس قول اور استدلال کی ضلالت وگمراہی کو ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بیان کرتے ہوۓ فرمایاہے :

اوررہی یہ بات کہ ان کا یہ اس اضافت سے استدلال کرنا کہ اللہ تعالی نے اس کی اضافت اپنی طرف فرمائ‏ ہے : { اورمیں نے اس میں اپنی روح پھونکی } تویہ ضروری ہے کہ اس کا علم ہونا چاہۓ کہ اللہ تعالی کی طرف اضافت کی دو قسمیں ہیں :

اول : ایسی صفات جوکہ بنفسہ قائم نہیں ، مثلا ، علم اور قدرت ، اور کلام ، اور سمع وبصر ، تو ان صفات کی اضافت موصوف کی طرف ہے تو اللہ تعالی کا علم اور اس کی کلام اور ارادہ اور قدرت او رحیات اور اللہ تعالی کی صفات غیر مخلوقہ ہیں اور ایسے ہی اللہ تعالی کا چہرہ اور ھاتھ ۔

دوم : ایسی اضافت جوکہ عین اوراس سے منفصل اورعلیحدہ ہو مثلا بیت ، ناقہ ، عبد اور رسول ، اور روح ، تو یہ مخلوق کی اضافت اس کے خالق کی طرف اور مصنوع چیزکی اضافت اس کے صانع کی طرف ہے ، لیکن یہ اضافت تخصیص اور تشریف کی حیثیت رکھتی ہے جس سے مضاف کی دوسری اشیاء سے تمیز ہوتی ہے مثلا بیت اللہ ، حالانکہ سب گھر اللہ تعالی کی ہی ملکیت ہیں ، اور اسی طرح ناقۃ اللہ ، حالانکہ سب اونٹنیاں اللہ تعالی کی ملکیت اورمخلوق ہیں ، لیکن یہ اضافت اس کی ھیئت کی طرف ہے جوکہ محبت اور تکریم وشرف کی متقاضی ہے بخلاف اضافت عامہ کے جو اس کی ربوبیت کی طرف ہو جس کا تقاضا خلق اور ایجاد ہے ۔

تو اضافت عامہ ایجاد اور اضافت خاصہ اختیار کا تقاضی کرتی ہے اوراللہ تعالی جو چاہتا پیدا کرتا اورجسے چاہتا اختیار کرتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کاارشاد ہے :

{ اورآپ کا رب جوچاہتا ہے پیدا کرتااور جسے جاہتا ہے اختیار کرتا ہے } توروح کی اضافت اللہ تعالی کی طرف اضافت خاصہ میں سے ہے نہ کہ اضافت عامہ میں سے ، اورنہ ہی اضافت صفات میں سے ہے ، تو آپ اس موضوع پر غور کریں تو آپ کوبہت ساری انگمراہیوں سے خلاصی ہوگی جس میں لوگ پڑے ہوۓ ہیں ۔ ا ھ الروح ( ص 154- 155 )

تو اس کا خلاصہ یہ ہےکہ عیسی علیہ السلام کی یہ صفت کہ وہ روح اللہ ہیں یہ باب تکریم اور تشریف سے ہے اوریہ اضافت (یعنی روح کی لفظ جلالہ کی طرف اضافت ) صفت کی موصوف کی طرف اضافت نہیں جیسا کہ عبد اللہ اور وجہ اللہ ،ہے بلکہ یہ مخلوق کی اضافت اس کے خالق کی طرف ہے جیسے کعبہ کی اضافت ہے اوریہ کہا جاتا ہے کہ بیت اللہ ، اور اسی طرح ناقۃ اللہ ، جو کہ اللہ تعالی وہ معجزہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے نبی صالح علیہ السلام کو دیا تھا ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ