جب اسکی بیوی لڑکی جنتی ہے تو خاوند ناراض ہوتا ہے

 

 

 

بعض مسلمان اللہ تعالی انہیں بدایت سے نوازے جب اللہ تعالی انہیں بیٹی عطا کرتا ہے تو وہ ناراض ہوتے اور اس آنے سے انکا دل تنگی محسوس کرتا ہے۔ اور میں انہیں بھی جانتا ہوں جو کہ اپنی بیوی کو اگر نہ بچی جنے تو اسے طلاق کی دھمکی دیتے ہیں۔
ہماری آپ سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر شریعت اسلامیہ کی روشنی ڈالیں؟

الحمدللہ

بلاشبہ یہ فعل جاہلیت کے افعال میں سے ہے۔ اور جاہلیت کے اجڈ لوگوں کے اخلاق میں سے ہے جنکے بارہ میں قرآن وسنت کے اندر مذمت اور انکے اس عمل کو بہت قبیح قرار دیا گیا ہے۔

اور آج کی کل سے کتنی مماثلت ہوچکی اگر آپ مسلمانوں کے ممالک میں ولادت ہاسپٹل کی زیارت کریں اور وہاں جاکر دیکھیں جنکے ہاں لڑکیوں کی پیدائش ہوئی ہے ان کے چہروں پر اپنی نظر دوڑایں اور انکی باتوں کا جائزہ لیں اور ان کے حالات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو آپ ان لوگوں اور اہل جاہلیت کے لوگوں کے حالات میں جن کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے عجیب وغریب مماثلت اور مرافعت پائیں گے اور ان لوگوں کا حال یہ ہوتا تھا کہ ۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

" ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں،؟" النحل58-59

اور لڑکیوں کی ولادت پر نارضگی کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ بعض ہسپتالوں میں عورت کے رحم میں کیا لڑکی ہے یا لڑکا آوازی شعاعوں سے چیک کرکے بتایا جاتا ہے تو اگر لڑکا ہو تو اسے خوشخبری دی جاتی ہے اور اگر لڑکی ہوتو اسے نہیں بتایا جاتا، تو یہ معاملہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے جس کی وجہ سے مندرجہ ذیل ممانعت والی چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔

ان میں بعض ذکر کی جاتی ہیں۔

یہ اللہ تعالی کی تقدیر پر اعتراض ہے۔

یہ اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس کی ہبہ کی گئ چیز کو رد کرنا ہے جس کی بنا پر اسے سزا اور نارضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس میں عورت کی توہین اور اسکی قدر میں کمی ہے اور اسے اس پر وہ چیز ڈالنا ہے جسکی وہ طاقت نہیں رکھتی۔

یہ جہالت اور بے وقوفی اور حماقت اور قلت عقل کی دلیل ہے

اور ایسے ہی اس میں اہل جاہلیت کے اخلاق سے مشابہت ہے۔

تو مسلمان کے لئے بہت ہی زیادہ ضروری ہے کہ وہ ان راستوں سے بچے اور کنارہ کشی اختیار کرے اور اپنے آپ کو ان ہلاکت والی چیزوں سے نجات دلائے تو اللہ تعالی کی تقدیر کو تسلیم کرنا اور ماننا واجب ہے اور اس پر راضی ہونا مومنوں کی صفات میں سے ہے۔

اور پھر بیٹیوں کی فضیلت کسی پر مخفی نہیں۔ تو وہ ہی مائیں بنتی ہیں اور وہی بہنیں بھی ہوتی اور وہ ہی بیویاں بھی ہیں اور وہ معاشرے میں انکا تناسب نصف ہے اور دوسرے نصف کو پیدا کرتی ہیں تو گویا وہ سارے کا سارہ معاشرہ وہی ہیں۔

دیکھیں کتاب: تحفۃ المولودفی احکام المولو۔۔۔۔ تالیف ابن قیم ص16

اور انکی فضیلت پر دلالت کی بہت سے دلائل ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے انکا ذکر بطور ہبہ کے کیا اور انہیں لڑکوں سے پہلے ذکر کیا ہے۔

فرمان باری تعالی ہے۔

"جسے چاہتا ہے بیٹیاں ہبہ کرتا اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے" الشور۔ 49

اور ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکا فضل بیان کیا ہے اور ان سے احسان کرنے پر ابھارا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے۔۔۔

(جسے ان بیٹیوں کی آزمائش میں ڈال دیا جائے تو وہ ان کے ساتھ احسان کرے (اچھی پرورش کرے) تو یہ اس کےلئے آگ سے پردہ بن جائیں گی)

اسے بخاری نے (فتح الباری 1418) اور مسلم نے (2629) نے روایب کیا ہے۔ .

کتاب الایمان بالقضاء والقدر : تالیف: محمد بن ابراہیم الحمد ص 160سے لیا گیا ہے۔

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ