اللہ تعالی کے آسمان دنیا پر نزول اور عرش پر استواء میں کوئی تعارض نہیں
جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کہاں ہے ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ۔
لیکن جب ہم وہ حدیث جس میں اللہ تعالی کا رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر نزول کا ذکر ہے پڑھتے ہیں تو ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالی کہاں ہے ؟ تو اس کے جواب میں کیا کہا جائے گا ؟
ایک نقطہ اور ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رات کا آخری حصہ تو ہر وقت رہتا ہے (زمین کے کسی نہ کسی بھی حصہ میں محدود وقت تک رہنا ) تو اس سے دو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر نہیں ۔
الحمدللہ
سب سے پہلے تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہم اسماء وصفات میں اہل وسنت والجماعت کا عقیدہ معلوم کریں کہ وہ اس میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ؟
اہل سنت والجماعت کا اسماء و صفات میں عقیدہ یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اسماء وصفات میں سے اپنے لۓ جو کچھ ثابت کیا ہے وہ اسے بغیر کسی تحریف وتعطیل اور بغیر کسی کیفیت اور تمثیل کے اللہ تعالی کے لۓ اس کا اثبات کرتے ہیں اور اس میں ان کا وہی اعتقاد ہے جس کا اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( اللہ تعالی جیسی کوئی چیز نہیں ( نہ ذات میں نہ صفات میں ) اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے )
اللہ عزوجل نے ہمیں اپنے متعلق بتاتے ہوئےفرمایا ہے :
( بےشک تمہارا رب اللہ تعالی ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا ) الاعراف / 54
اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( رحمان عرش پر مستوی ہے ) طہ / 5
ان آیات کے علاوہ وہ آیات جن میں اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے ۔
اور اللہ تعالی کا عرش پر مستوی ہونا عرش پر اللہ تعالی کا علو ( بلندی) ذاتی اور علو خاص ہے جس طرح کہ اللہ تعالی کی عظمت وجلال کے شایان شان اور لائق ہے جس کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو نہیں ۔
سنت نبویہ صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہمارا رب تبارک وتعالی ہر رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور یہ کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے میں اس کی پکار کو سنوں کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں ) صحیح بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر (6940) صحیح مسلم صلوۃ المسافرین حدیث نمبر (1262)
اہل سنت کے ہاں نزول کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی بنفسہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا اور یہ نزول حقیقی ہے جس طرح اللہ تعالی کے شایان شان لائق ہے جس کی کیفیت اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ سبحانہ وتعالی کے نزول سے عرش کا خالی ہونا لازم آتا ہے کہ نہیں ؟
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئےفرمایا :
( ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال غلو پر مبنی ہے اور کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے اس لۓ کہ ہم آپ سے پوچھیں گے کہ کیا آپ اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات کو سمجھنے میں صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم سے زیادہ شوق رکھتے اور اس پر حریص ہیں ؟ اگر تو اس نے جواب میں ہاں کہا تو یہ جھوٹا اور کذاب ہے ۔
اور اگر جواب نفی میں ہے تو ہم اسے کہیں گے جو انہیں کافی تھا وہ آپ کو بھی کافی ہے تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ تعالی کے رسول جب اللہ تعالی نزول فرماتا ہے تو کیا عرش خالی ہو جاتا ہے ؟
آپ کو اس سوال سے کیا غرض ؟ بس آپ یہ کہیں کہ اللہ تعالی نزول فرماتا ہے اور خاموشی اختیار کریں، عرش اللہ تعالی سے خالی ہوتا ہے کہ نہیں یہ آپ کے ذمہ نہیں آپ تو اس کے مکلف ہیں کہ آپ خبر کی تصدیق کریں اور خاص کر وہ خبر جو کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے متعلق ہو ، کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کہ ما فوق العقل ہے عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی )
دیکھیں کتاب :
مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 1/ 204 – 205)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کے متعلق فرمایا ہے :
( صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کا نزول ہے لیکن اس سے عرش خالی نہیں ہوتا بندے کی روح موت تک دن اور رات اس کے بدن میں رہتی ہے اور نیند کے وقت علیحدہ ہوتی ہے ۔
اور فرماتے ہیں کہ : (دنیا میں ) رات مختلف ہوتی ہے مشرق میں رات کا تیسرا پہر مغرب کے تیسرے پہر سے پہلے ہے اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نزول کے متعلق بتایا ہے وہ کچھ کے ہاں رات کا تیسرا پہر، پھر دوسرے کا ہاں رات کا تیسرا پہر ہونے سے (اللہ تعالی کی قدرت کے سامنے کچھ وقعت نہیں رکھتا )
دیکھیں مجموع فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 132
استواء اور نزول اللہ تعالی کی صفات فعلیہ میں سے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالی کی مشیت سے ہے اور اہل سنت والجماعت یہی عقیدہ اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ اس ایمان میں کیفیت اور تمثیل بیان کرنے سے کنی کتراتے اور دور بھاگتے ہیں یعنی یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے دل میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالی کا نزول مخلوق کے نزول اور اللہ تعالی کا عرش پر استواء مخلوق کے استواء کی طرح ہے ۔
کیونکہ ان کا اس پر ایمان کہ اللہ تعالی کی مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے اور انہیں علم ہے کہ عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خالق اور مخلوق کی ذات وافعال اور صفات کے درمیان ( زمین آسمان ) کا فرق ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے دل میں یہ بات پیدا ہو کہ اللہ تعالی کا نزول کیسے ہوتا ہے ؟ اور اللہ تعالی کا عرش پر استواء کی کیفیت کیا ہے ؟
مقصد یہ کہ وہ اس کی صفات کی کیفیت کے چکروں میں نہیں پڑتے باوجود اس کے کہ ان کا ایمان ہے کہ اس کی کیفیت ہے لیکن وہ ہمارے علم میں نہیں تو اس وقت یہ ممکن ہی نہیں کہ کیفیت کا تصور کیا جا سکے ۔
اور ہمیں یہ یقینی علم ہے کہ جو کچھ کتاب وسنت میں آیا ہے وہ حق اور سچ ہے اس کا ایک دوسرے سے کوئی قسم کا ٹکراؤ نہیں کیونکہ یہی چیز اللہ تعالی نے بیان فرمائی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی کے متعلق یہ فرمایا ہے :
( کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر اور تدبر نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی طرف ہوتا تو یقینا اس میں بہت اختلاف پایا جاتا )
اور پھر اس لۓ بھی کہ اخبار میں ٹکراؤ سے ایک دوسرے کی تکذیب لازم آتی ہے جو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر میں محال ہے ۔
جسے کتاب اللہ یا پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تناقض کا واہمہ ہو تو وہ اس کی جہالت اور کم علمی یا پھر اس میں سوچ اور سمجھ کے ناقص ہونے یا پھر اس کے غور فکر اور تدبر میں نقص اور کمی ہونے کی بنا پر ہے اسے چاہۓ کہ وہ علم حاصل کرے، غور و فکر اور تدبر میں کوشش اور محنت کرے حتی کہ اس کے سامنے حق واضح ہو جائے ۔
اگر پھر بھی اس پر حق واضح نہ ہو تو اسے چاہۓ کہ وہ اس معاملے کو اپنے عالم دین کے سامنے پیش اور سپرد کرے اور اس وہم سے رک جائے اور بھی اس میں وہی کہے جس طرح علم میں راسخ لوگ کہتے ہیں :
( ہم اس پر ایمان لآئے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے )
اور اسے یہ علم ہونا چاہۓ کہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے اور نہ ہی دونوں کے درمیان کوئی اختلاف ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
دیکھیں کتاب : فتاوی ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ( 3/ 237 – 238)
اللہ تعالی کا آسمان دنیا پر نزول اور آسمانوں کے اوپر عرش پر استواء کے درمیان تناقض کا وہم خالق کو مخلوق پر قیاس کرنے کی بنا پر پیدا ہوا ہے ۔
انسان جب اپنی عقل سے ان مخلوقات غیبیہ کا تصور نہیں کر سکتا، مثلا جنت کی نعمتیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس خالق جو کہ علام الغیوب اس کا تصور کیا جا سکے ۔
( اور کیا اللہ تعالی اس بات پر نعوذ باللہ قادر نہیں ہیں کہ عرش پر ہوتے ہوئےآسمان دنیا کے قریب آسکیں ۔۔۔۔۔۔۔ ؟)
اللہ تعالی کے نزول اور استواء اور اللہ تعالی کے علو کے متعلق جو احادیث میں وارد ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم اسے اسی طرح ثابت کرتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالی کی عظمت کے شایان شان اور لائق ہے ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ