كيا اللہ تعالى كو نسيان ( بھولنے ) كي صفت سے موصوف كيا جا سكتا ہے
كيا اللہ تعالى كو نسيان كي صفت سے موصوف كيا جا سكتا ہے ؟
الحمدللہ:
نسيان كے دو معنى ہيں:
پہلا معنى: كسي معلوم چيز كو بھول جانا اور غافل ہو جانا اس كي مثال مندرجہ ذيل فرمان باري تعالى ميں ہے:
{اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں يا خطا كي ہو تو ہميں نہ پكڑنا} البقرۃ ( 286 )
اور اسى طرح رب ذو الجلال كا يہ بھى فرمان ہے:
{ہم نے آدم عليہ السلام كو پہلے ہى تاكيدي حكم دے ديا تھا ليكن وہ بھول گيا اور ہم نے اس ميں كوئي عزم نہيں پايا} طہ ( 115 )
دونوں قولوں ميں سے ايك قول كے مطابق.
اور اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے كہ:
" ميں تو صرف تم جيسا ہى بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو ميں بھى بھول جاتا ہوں، لھذا اگر ميں بھول جاؤں تو مجھے ياد دلا ديا كرو "
نسيان كا يہ معنى اللہ تعالى كي ذات ميں عقلى اور سمعى دونوں دليلوں كے اعتبار سے نہيں پايا جاتا.
سمعى دليل يہ ہے كہ اللہ تعالى نے موسى عليہ السلام متعلق فرمايا:
{اس نے جواب ديا ان كا علم ميرے اللہ كے ہاں كتاب ميں موجود ہے، نہ تو ميرا رب غلطى كرتا ہے اور نہ بھولتا ہے} طہ ( 52 )
اور عقلى دليل يہ ہے كہ: نسيان اور بھول نقص ہے اور اللہ تعالى نقائص سے مبرا و منزہ اور كمال كےساتھ موصوف ہے جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے :
{اور اللہ تعالى كے لئے ہى اچھى اچھى مثاليں ہيں اور وہ غالب و حكمت والا ہے} النحل ( 60 )
لھذا اس بنا پر كسي بھي حال ميں اللہ تعالى كو نسيان كے وصف سے موصوف كرنا جائز نہيں ہے.
نسيان كا دوسرا معنى:
ترك عن العلم و عمد، يعنى علم ہونے كے باوجود اسے ترك كرنا اس كي مثال مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
{پھر جب وہ ان چيزوں كو بھولے رہے جن كى ان كو نصيحت كي جاتى تھى تو ہم نے ان پر ہر چيز كے دروازے كشادہ كرديے} الانعام ( 44 )
اور اسى طرح اللہ عزوجل كا يہ بھى فرمان ہے:
{ہم نے آدم عليہ السلام كو پہلے ہى تاكيدي حكم دے ديا تھا ليكن وہ بھول گيا اور ہم نے اس ميں كوئي عزم نہيں پايا} طہ ( 115 )
اس آيت كي تفسير ميں دوسرے قول كے مطابق.
اور اسي طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا گھوڑے والوں كے متعلق فرمان ہے:
" اور وہ شخص جس نے اس گھوڑے كو غناء اور تعفف كى بنا پر پالا اور اس ميں سوارى اور گردن كا اللہ تعالى كے حق كو نہ بھولا تو اسى طرح وہ بھى اس كے لئے بچاؤ ہوگا "
لھذا نسيان كا يہ معنى اللہ تعالى كے لئے ثابت ہے: جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{اب تم اپنے اس دن كي ملاقات كے فراموش كر دينے كا مزہ چكھو، ہم نے بھى تمہيں بھلا ديا} السجدۃ ( 14 )
اور منافقين كے بارہ ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{انہوں نے اللہ تعالى كو بھلا ديا تو اللہ تعالى نے انہيں بھلا ديا، بلا شبہ منافق ہى فاسق ہيں} التوبۃ ( 67 )
اور صحيح مسلم شريف كتاب الزھد و الرقائق ميں ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم نے عرض كي اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا روز قيامت ہم اپنے رب كو ديكھيں گے؟
اور اس پوري حديث كو ذكر كيا ہے جس ميں ہے.
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : اللہ تعالى اپنے بندے سے ملے گا اور اسے كہےگا: كيا تجھے يقين تھا كہ تيرى مجھ سے ملاقات ہو گى؟ تو وہ بندہ جواب ميں كہےگا: نہيں، تو اللہ تعالى فرمائےگا: ميں نے بھى اسى طرح تجھے بھلا ديا جس طرح تو نے مجھے بھلا ديا تھا "
اللہ تعالى كا كسي چيز كو ترك كردينا اس كى صفات فعليہ ميں سے ايك فعلى صفت ہے جو اللہ تعالى كي مشيئت كے مطابق واقع ہوتى اور اس كي حكمت كے تابع ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور اس نے انہيں اندھيروں ميں چھوڑ ديا وہ كچھ نہيں ديكھتے} البقرۃ ( 17 )
اور ايك دوسرے مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:
{اور اس دن ہم انہيں آپس ميں ايك دوسرے ميں گڈ مڈ ہوتے ہوئے چھوڑ ديں گے} الكھف ( 99 )
اور ايك مقام پر اللہ تعالى نے فرمايا:
{اور البتہ ہم نے اس بستى كو صريح عبرت كي نشانى بنا ديا}العنكبوت ( 35 )
ترك كرنے اور اللہ تعالى كي مشيئت كے متعلقہ دوسرے افعال كي نصوص اور دلائل بہت زيادہ اور معلوم بھي ہيں، جو اس كي كمال قدرت اور اس كي طاقت اور سلطان پر دلالت كرتے ہيں، اور ان افعال كو عملى جامہ پہنانے ميں اللہ سبحانہ وتعالى كسي بھى مخلوق سے مماثلت نہيں ركھتا اگرچہ مخلوق اصلا معنى ميں شامل ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ اہل سنت والجماعات كا طريقہ اور عقيدہ ہے . اھ
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ