شبِ برات کیا ہے؟ جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمان اس رات کو جشن مناتے ہیں۔
سوال
شبِ برات کیا ہے؟ جنوبی ایشیا کے اکثر مسلمان اس رات کو جشن مناتے ہیں۔
جواب کا متن
الحمد للہ.
کچھ مسلمان نصف شعبان کے دن روزہ ، اور رات کو قیام کرتے ہوئے شب بیداری کا اہتمام کرتے ہیں، اس بارے میں ایک حدیث ہے، جو کہ صحیح ثابت نہیں ہے، اسی لئے علمائے کرام نے اس رات کی شب بیداری ، اور جش کو بدعت شمار کیا ہے۔
شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" جسے شریعت کے مقابلے میں گھڑا جائے "بدعت " دین میں اسی خود ساختہ طریقے کا نام ہے، جس پر عمل کرتے ہوئے عبادت الہی میں مبالغہ مقصود ہوتا ہے۔۔۔ چنانچہ اسی بدعت میں عبادت کی خاص کیفیت، اور انداز بھی شامل ہوتے ہیں، مثال کے طور پر بیک آواز اجتماعی طور پر ذکر کرنا، یوم میلاد النبی کو عید شمار کرنا وغیرہ سب بدعت شمار ہوتے ہیں۔
اسی طرح کچھ عبادات کو شرعی نصوص کے بغیر خاص اوقات کے ساتھ مختص کرنا، مثلا: نصف شعبان کا روزہ اور رات کو قیام کرنا بدعت میں شامل ہیں" انتہی
"الاعتصام" (1/37-39)
محمد عبد السلام شقیری کہتے ہیں:
"امام فتنی "تذکرۃ الموضوعات" میں کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کی رات کیلئے ایجاد کردہ بدعات میں "ہزاری نماز" بھی ہے جس میں سو رکعت دس ، دس رکعات کی شکل میں باجماعت ادا کی جاتی ہیں، اس نماز کا جمعہ اور عید کی نماز سے بھی بڑھ کر اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، سب یا تو ضعیف ہیں یا پھر خودساختہ ہیں، اگرچہ ان روایات کو "قوت القلوب "یا "احیاء علوم الدین" میں ذکر کیا گیا ہے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے، اسی طرح تفسیر ثعلبی میں یہ کہا گیا ہے کہ یہی رات لیلۃ القدر ہے اس سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہئے"انتہی
عراقی کہتے ہیں:
نصف شعبان کی شب ادا کی جانے والی نماز کے متعلق حدیث باطل ہے، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔
فصل: نصف شعبان کی رات دعا، اور نماز کے بارے میں حدیث:
(نصف شعبان کی رات میں قیام اور دن میں روزہ رکھو) اس حدیث کو ابن ماجہ نے علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، ابن ماجہ کے صاحب حاشیہ لکھتے ہیں: کتاب "الزوائد" میں ہے کہ اسکی سند ابن ابی بسرۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، جس کے بارے میں امام احمد، اور ابن معین کہتے ہیں کہ: ابن ابی بسرۃ احادیث گھڑا کرتا تھا۔ انتہی
نصف شعبان کی رات بلائیں ٹالنے، عمر درازی، اور لوگوں سے مستغنی ہونے کیلئے چھ رکعات نماز پڑھنا، اور انکے درمیان سورہ یاسین کی تلاوت اور دعا کرنا: یقینی بات ہے کہ یہ عمل بدعت ہے، اور اس میں سنتِ سید المرسلین کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
"احیاء علوم الدین" کے شارح کہتے ہیں:
"متاخر صوفی حضرات کی کتب میں یہ نماز بہت مشہور ہے، مجھے اس نماز اور نماز کی دعا کے بارے میں احادیث سے کوئی مستند دلیل نہیں ملی، ہاں یہ صوفی مشایخ کا عمل ہے، جبکہ ہمارے کچھ احباب کا کہنا ہے کہ: مساجد وغیرہ میں مذکورہ راتوں کی شب بیداری کیلئے جمع ہونا مکروہ ہے۔
نجم الغیطی باجماعت نصف شعبان کی رات قیام کے بارے میں کہتے ہیں:
"حجاز کے اکثر علمائے کرام نے اسے غلط قرار دیا ہے، جن میں عطاء، ابن ابی ملیکہ، فقہائے مدینہ میں سے امام مالک کے تلامذہ شامل ہیں، اِن سب نے اِن تمام افعال کو بدعت کہا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپکے صحابہ کرام سے اس رات باجماعت قیام بالکل بھی ثابت نہیں ہے"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: رجب اور شعبان کی نمازوں والی بدعات قبیح قسم کی منکر بدعات ہیں۔۔۔ الخ"انتہی
ماخوذ ازکتاب: "السنن والمبتدعات" ص 144
فتنی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا گفتگو کرنے کے بعد کہا:
"عوام اس خودساختہ نماز کے جھانسے میں اتنی گرگئی کہ کچھ لوگوں نے شب بیداری کیلئے کافی مقدار میں ایندھن ذخیرہ کیا، اس شب بیداری کی وجہ سے فسق وفجور پر مشتمل ایسے کام ہوئے جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا، حتی کہ کچھ اولیائے کرام کو عذاب الہی کا خدشہ ہوا اور صحراؤں کی طرف دوڑ نکلے۔
سب سے پہلے اس نماز کی ابتدا بیت المقد س میں 448 ہجری کو ہوئی تھی۔
زید بن اسلم کہتے ہیں:
ہمارے مشایخ یا فقہائے کرام کبھی بھی شب برات وغیرہ کی فضیلت کے متعلق توجہ بھی نہیں کرتے تھے۔
ابن دحیہ کہتے ہیں:
نماز [شب] برات کی تمام احادیث من گھڑت اور خودساختہ ہیں، ان میں سے صرف ایک مقطوع ہے، اور جو شخص کسی ایسی روایت پر عمل کرے جسکا من گھڑت ہونا ثابت ہوچکا ہو، تو وہ شیطان کا چیلہ ہے"انتہی
ماخوذ از: "تذكرة الموضوعات" از فتنی: ص 45
مزید کیلئے دیکھیں: "الموضوعات "از ابن الجوزي (2/ 127) اور "المنار المنيف في الصحيح والضعيف "از ابن قيم ، ص 98، اور "الفوائد المجموعة "از شوكانی ، ص 51 ۔
کچھ لوگ "شعبانیہ" سے مراد شعبان کے آخری ایام مراد لیتے ہیں، اور انکا کہنا ہے کہ یہ دن کھانا پینا چھوڑنے کے دن ہیں، اس لئے ان ایام کو رمضان کے آنے سے پہلے پہلے کھانے پینے کیلئے فرصت سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اہل لغت نے یہ بھی کہا ہے کہ اصل میں یہ عادت عیسائیوں سے لی گئی ہے، کیونکہ وہی اپنے روزوں کے نزدیک اسی طرح کی حرکتیں کرتے تھے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
شعبان میں کوئی جشن نہیں ہے، اور نہ ہی اسکے نصف یا آخر میں کوئی مخصوص عبادت ہے، جو کوئی بھی یہ کام کرتا ہے، وہ بدعت ہے۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ