سوال: مجھے موبائل فون پر ایک حدیث موصول ہوئی ہے، اور میں اس کی صحت کے متعلق جاننا چاہتا ہوں ، حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جس شخص نے رجب میں سو مرتبہ کہا: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ" اور اس کے بعد صدقہ کر دیا تو اللہ تعالی اس کیلئے رحمت و مغفرت کی مہر لگا دے گا، اور جس شخص نے یہ الفاظ چار سو مرتبہ کہے تو اللہ تعالی اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب لکھ دے گا)" کیا یہ
رجب كى ستائيسويں رات كو اسراء و معراج كا جشن منانے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
اسراءاور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانيوں ميں سے ہے جونبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم كى صداقت اوراللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام ومرتبہ پر دلالت کرتي ہے، نيز اس سے اللہ عزوجل كى حيرت کن قدرت اور اس کے اپني تمام مخلوقات پر عالى وبلند ہونے کاثبوت ملتا ہے.
اللہ تعالى نے فرمايا:
سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي بارکنا حوله لنريه من آياتنا إنه هوالسميع البصير الاسراء (1).
پاک ہے وہ اللہ تعالى جواپنے بندے کو رات ہي ميں مسجد حرام سے مسجد اقصى تک لے گيا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھي ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپني قدرت کے بعض نمونے دکھائيں، يقينا اللہ تعالى ہي خوب سننے والا اور ديکھنے والا ہے.
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو آسمان پر لے جاياگيا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے يہاں تک کہ ساتويں آسمان سے آگے گزر گئے، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائي اور پانچ وقت كى نمازيں فرض کيں، اللہ عزوجل نے پہلے پچاس وقت كى نمازيں فرض کيں تھيں،پھر ہمارے نبي محمد صلى اللہ عليہ وسلم بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفيف کا سوال کرتے رہے يہاں تک کہ اللہ تعالى نے اسے باعتبار فرضيت پانچ وقت كى کرديا اوراجر وثواب پچاس نمازوں ہي کا باقي رکھا، کيونکہ ہر نيكى دس گنا بڑھائي جاتي ہے لہذا اللہ تعالى ہي تمام تر نعمتوں پر حمد وشکر کا سزا وار ہے.
يہ رات جس ميں اسرا ومعراج کا واقعہ پيش آيا اس كى تعيين کے بارہ ميں کوئي صحيح حديث وارد نہيں ہے، بلکہ اس كى تعيين ميں جو روايتيں بھي آئي ہيں محدثين کے نزديک نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہيں، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلا دينے ميں اللہ تعالى كى کوئي بڑي حکمت ضرور پوشيدہ ہے، اور اگر اس كى تعيين ثابت بھي ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے اس ميں كسى طرح کا جشن منانا يا اسےكسىعبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہيں ہے، کيونکہ نبي صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام نےنہ تو اس ميں كسى طرح کا کوئي جشن منايا اور نہ ہي اسے كسى عبادت کے لئے خاص کيا، اور اگر اس شب ميں جشن منانا اور اجتماع کرنا شرعا ثابت ہوتا تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپنے قول يا فعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے، اور اگر عہد نبوي يا عہد صحابہ ميں ايسي کوئي چيز ہوتي تو وہ بلا شبہ معروف ومشہور ہوتي اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کيونکہ انہوں نے نبي صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل کرکے امت کو ہر وہ بات پہنچائي جس كى امت کو ضرورت تھي، اوردين کے كسى بھي معاملہ ميں کوئي کوتاہي نہ كى بلکہ وہ نيكى کے ہرکام ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لينے والے تھےچنانچہ اگر اس شب ميں جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے كى کوئي شرعي حيثيت ہوتي تو وہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے.