بيٹے كا حقدار بيوى ہے يا خاوند جس پر جادو كى تہمت ہے اور جادو كى علامات كيا ہيں ؟

 

 

 

 

ميرے بيٹے كى عمر تقريبا گيارہ برس ہے، وہ بہت زيادہ غصہ اور دشمنى والا بن چكا ہے، نہ تو ميرى عزت و احترام كرتا ہے اور نہ ہى بات مانتا ہے، اور ميرے سامنے آواز بھى بلند كرتا ہے، اور جب سے اس كے والد نے اسے كمپيوٹر ديا ہے بغير كسى سبب كے بعض اوقات ہاتھ بھى اٹھاتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس كا باپ جادو ٹونا كرنا ہے، مجھے يہ يقينى طور پر تو معلوم نہيں كہ وہ جادوگر ہے، اللہ ہى جانتا ہے.
اور وہ مجھ سے بيٹا لينا چاہتا ہے ہمارے درميان طلاق ہو چكى ہے، كس طريقہ سے ميں اپنے آپ اور اپنے بيٹے كو بچا سكتى ہوں، اور ميرا بيٹا پہلى حالت پر واپس آجائے جس طرح تھا اس كے ليے مجھے كيا كرنا ہو گا، اور اس باپ كى حقيقت كا مجھے علم كيسے ہو سكتا ہے ؟
اور اگر باپ اپنے بيٹے كو ملنے كے ليے آئے اور مجھے يقين ہو جائے كہ باپ جادوگر ہے اور مجھے اور بيٹے كو نقصان پہنچانا چاہے تو كيا ميں اسے بيٹے سے ملنے سے روكنے كاحق حاصل ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

شريعت مطہرہ نے والدين كو نصيحت كى ہے كہ وہ اپنى اولاد كا خيال ركھيں اور ان كى اچھى اور بہتر تربيت و پرورش كريں، اور پھر اولاد اس كى تربيت حاصل كرتے ہيں جو وہ سنتے اور پڑھتے اور اپنے گھر اور راستوں اور سكولوں ميں ديكھتے ہيں، اور ان كى بچوں كى تربيت ميں جو بھى خلل ہوتا ہے وہ ان ميں سے كسى ايك يا سارى اشياء ميں خلل كى وجہ سے ہے.

آپ كے بيٹے ميں آپ كے ساتھ جو بداخلاقى پيدا ہوئى ہے ہو سكتا ہے اس كا سبب وہ اختلافات اور مشكلات ہوں جو وہ اپنے گھر ميں آپ دونوں كے درميان ديكھتا اور سنتا رہا ہے، جس كا نتيجہ طلاق كى صورت ميں نكلا.

اور اس كا سبب وہ بھى ہو سكتا ہے جو اس نے كمپيوٹر ميں ديكھا اور سنا ہے، اور بعض اوقات اس كا سبب جادو بھى ہو سكتا ہے كہ اس پر آپ سے كراہت كرنے كا جادو كيا گيا ہو تا كہ آپ كا خاوند آپ سے بدلہ لے سكے، يہ سب احتمالات ہو سكتے ہيں، اور ہو سكتا ہے يہ سارے اسباب جمع ہوں جس كى وجہ سے آپ كا بيٹا اس طرح كے غلط معاملات كر رہا ہے.

بہر حال: آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ اس كا سبب تلاش كر كے بيٹے كى اصلاح كريں، اور وہ سبب تلاش كريں جس كى وجہ سے آپ كے ساتھ وہ اس طرح كا سلوك كر رہا ہے، تا كہ آپ اس سبب كو دور كر سكيں، اس ليے آپ اپنے بيٹے كو اپنے اور خاوند كے درميان پيدا ہونے والى حالت كى حقيقت حال كو كسى ايسے طريقہ سے سمجھانے كى كوشش كريں جو بيٹے كى عقل اور عمر كے مناسب ہو.

اور اگر اس كا سبب كمپيوٹر ميں ديكھى اور سنى جانے والى اشياء ہيں تو پھر آپ ان اشياء اور سى ڈى اور دوسرے پروگرامز كى نگرانى كريں جس كا وہ مشاہدہ كرتا رہتا ہے، اور اس سلسلہ ميں اسے بہتر راہنمائى كرنا ضرورى ہے جس كى بنا پر وہ كمپيوٹر سے بہتر طور پر استفادہ كر سكے، اور اگر وہ آپ كى بات نہيں مانتا تو پھر آپ مكمل طور پر اسے اس كے استعمال سے روك سكتى ہيں.

اور اگر اس كا سبب باپ كى جانب سے جادو ہو تو اس كے ليے آپ قرآن مجيد اور سنت نبويہ سے ثابت شدہ شرعى اذكار اور دعاؤں كے ساتھ علاج كر سكتى ہيں، اور كسى پختہ اور متقى اور دين والے شخص كے سامنے بچے كو پيش كرنے اور اس سے دم كروانے ميں كوئى حرج نہيں.

دوم:

اور اگر اس كا والد جادو وغيرہ كرتا ہے تو اس كى حقيقت آپ كو اس طرح معلوم ہو سكتى ہے كہ اس سے جو لوگ ملنے آتے ہيں يا جن كا وہ علاج كرتا ہے وہ كس طريقہ سے كرتا ہے اور اپنے ملنے والوں كو كيا كہتا ہے، اس سے آپ كو معلوم ہو جائيگا كہ وہ جادو كرتا ہے يا نہيں.

بعض اہل علم نے جادو گر كى كچھ علامتيں بيان كيا ہيں جو ہر كوئى معلوم كر سكتا ہے كہ وہ اہل خير و اصلاح ميں سے يا كہ كسى اور سے تعلق ركھتا ہے، اور وہ علامات درج ذيل ہيں:

1 ـ وہ شخص مريض سے ماں كا نام معلوم كرتا ہے، اور علاج كے ليے بعض مخصوص اشياء مثلا بال يا لباس وغيرہ طلب كرتا ہے.

2 وہ ايسے كلمات كہتا ہے جن كا كوئى معنى اور مراد نہيں ہوتا، اور نہ ہى سننے والا انہيں سمجھ سكتا ہے، اور اس طرح كے كلمات ہو سكتا ہے جنوں اور شيطانوں كو بلانے اور پكارنے كے ليے ہوتے ہيں تا كہ وہ اس كى خدمت كريں.

3 علامات ميں يہ بھى شامل ہے كہ: جادو گر نماز جمعہ ميں حاضر نہيں ہوتا، اور نہ ہى نماز پنجگانہ مسجد ميں ادا كرتا ہے.

4 اس كا لباس گندہ اور اس سے گندى قسم كى بدبو آرہى ہوتى ہے، اور وہ اندھيرا پسند كرتا ہے.

5 وہ مريض كو تعويذ ديتا ہے جو نمبر اور لكيروں اور خانوں وغيرہ پر مشتمل ہوتے ہيں.

اور اس كى حقيقت كو معلوم كرنے كے ليے اس كا ان سب يا كچھ صفات سے متصف ہونا ضرورى ہے، اس طرح آپ اس كى حقيقت معلوم كر سكتى ہيں، يہاں ايك تنبيہ يہ ہے كہ ہو سكتا ہے آپ اس پر جادو كى تہمت لگانےميں غلو سے كام لے رہى ہوں، اس ليے اس پر حكم لگانے ميں آپ كو عدل و انصاف سے كام لينا چاہيے، اور تہمت لگانے سے قبل اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے.

جب آپ اس سے عليحدہ ہو چكى ہيں، تو ہم آپ كے متعلق يہ رائے نہيں ركھتے كہ آپ اس شخص كى حالت سے جس نے آپ كو طلاق دے ركھى ہے سے بہت زيادہ مشغول رہيں اور كھوج لگاتى رہيں كہ كيا وہ جادو گر يا نہيں.

بلكہ آپ كو يہ چاہيے كہ آپ اپنے ساتھ ہى مشغول رہيں اور يہى آپ كے نفس كے ليے حفاظت كا باعث ہے، اور اسى ميں آپ كے بيٹے كى بھى حفاظت ہے، اور اس ميں مشغول ہوں كہ آپ اپنے بيٹے كى تربيت و پرورش كاحق كس طرح ادا كر سكتى ہيں.

سوم:

رہا بچے كى پرورش كا مسئلہ: تو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ پرورش سے مراد بچے كى ديكھ بھال اور اس كى حفاظت و تربيت ہے، اس ليے ايسا شخص جو فاسق و فاسد ہو يا ضائع كرنے والا اور سستى و كاہلى كرنے والا ہو، يا زيادہ سفر كرنے والا ہو تو اس سے پرورش كا حق ساقط ہو جاتا ہے، كيونكہ اس ميں اولاد كى مصلحت كو نقصان ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ معلوم ہونا چاہيے كہ والدين ميں سے كسى ايك كو مقدم كرنے ميں مطلقا شارع كى كوئى نص نہيں، اور نہ ہى والدين ميں سے مطلقا كسى ايك كو اختيار كرنے ميں، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ والدين ميں سے كسى ايك كو مطلقا متعين نہيں كيا جائيگا؛ بلكہ دشمنى و زيادتى كے ہوتے ہوئے اس كو ( يعنى جو زيادتى كرنے والا يا والدين ميں سے كوتاہى كرنے والا ہو ) نيكى كرنے اور عدل و انصاف اور واجب كو ادا كرنے والے پر مقدم نہيں كيا جا سكتا "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 132 ).

اور يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ پرورش كى عمر تميز اور دوسرے سے مستغنى ہونے كى عمر ہے، يعنى: پرورش اس وقت تك ہو گى جب تك بچہ امتياز كى عمر كو پہنچ كر پرورش كرنے والے سے مستغنى نہ ہو جائے.

دوسرے معنى ميں يہ كہ: وہ اكيلا خود ہى كھانے پينے لگے اور خود ہى استنجاء وغيرہ كرنے لگے، اور جبكہ آپ كا بيٹا گيارہ برس كى عمر كو پہنچ چكا ہے اس ليے اسے والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا حق ديا جائيگا كہ وہ والد كے ساتھ رہنا چاہتا ہے يا آپ كے ساتھ؛ اور يہ وہ اپنى رضا و خوشى سے اختيار كرے اس پر كسى بھى قسم كا كسى جانب سے دباء نہ ہو.

اور اس پر كہ اس كا اختيار اس سبب سے نہ ہو كہ وہ نماز كى پابندى نہ كرے، يا پھر اللہ كى اطاعت والے كام سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہتا ہو، يا اس ميں اس كے دين اور دنيا كى مصلحت ہو؛ كيونكہ اس حالت ميں اس كا اختيار كرنے ميں اس كے ليے نقصان اور ضرر ہے.

اور بہت سارے بچوں كا اختيار اس وجہ سے ہوتا ہے كہ جو اس كے ساتھ زيادہ نرمى كريگا يا اسے جو زيادہ كھيل كود كا موقع ديتا ہو تو وہ اسے اختيار كرتا ہے، اس ليے اسے ايسا نہيں كرنے دينا چاہيے جو وہ چاہتا ہے.

اور اگر يہ ثابت ہو جائے كہ اس كا والد جادو كرتا ہے تو والدين كو چاہيے كہ وہ بچے كى مصلحت كا خيال كرتے ہوئے اس كى ديكھ بھال كريں، تا كہ ان دونوں كا اختلاف اور تنازع بچے كے ضياع اور ناكامى كا سبب نہ بن جائے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 8189 ) اور ( 20705 ) اور ( 21516 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے سارے حالات كى اصلاح فرمائے، اور آپ كے بيٹے كو اپنى رضا كے اعمال كرنے كى توفيق عطا فرمائے، اور آپ كى بيٹے كى اصلاح فرمائے، اور اس كے دين كى حفاظت فرمائے.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ