عبادت ميں رياكارى كا داخل ہونا
كيا انسان كو ايسے عمل كا ثواب حاصل ہوتا ہے جو رياكارى كے ليے كيا جائے اور دوران عمل ہى نيت بدل كر وہ اللہ خالصتا اللہ كے ليے ہو ؟
مثلا ميں نے قرآن مجيد مكمل ختم كيا تو مجھ ميں رياكارى كا عنصر داخل ہو گيا، لھذا جب ميں نے اس سوچ كا اخلاص للہ كى سوچ كے ساتھ مقابلہ كيا تو كيا مجھے اس تلاوت كا ثواب ملے گا يا رياء كے سبب ضائع ہو جائے گا؟ اگرچہ رياء عمل كرنے كے بعد ہى آئى ہو ؟
الحمد للہ :
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عبادت ميں رياء كارى كا عنصر تين طرح سے شامل ہوتا ہے:
پہلى وجہ:
كہ ابتداء سے اس عبادت كا باعث رياكارى اور لوگوں كو دكھلاوا ہو؛ مثلا اس شخص كى طرح جو لوگوں كو دكھانے كے ليے نماز ادا كرنا شروع كر دے، تا كہ لوگ اس كى نماز پر اس كى تعريف كريں، تو يہ عبادت كو باطل كر ركھ دے گى.
دوسرى وجہ:
دوران عبادت رياكارى شامل ہو جائے، يعنى دوسرے معنى ميں يہ كہ ابتدا ميں تو اس نے عبادت خالصتا اللہ تعالى كے ليےشروع كى، ليكن پھر عبادت كے دوران ہى اس ميں رياكارى شامل ہو گئى، تو يہ عبادت دو حالتوں سے خالى نہيں ہو سكتى:
پہلى حالت:
عبادت كا پہلا حصہ عبادت كے آخرى حصہ سے مرتبط نہ ہو ، لھذا عبادت پہلا حصہ تو ہر حالت ميں صحيح ہے، اور اس كا آخر باطل ہے.
اس كى مثال اس طرح ہےكہ: ايك شخص كے پاس سو ريال ہيں وہ انہيں صدقہ كرنا چاہتا ہے، تو اس نے پچاس ريال خالص اللہ كے ليے صدقہ كر ديے، پھر باقى پچاس ريال ميں رياكارى آگئى، لھذا پہلے پچاس ريال صحيح اور مقبول ہيں، اور باقى پچاس ريال كا صدقہ اخلاس اور ريارى دونوں كے اختلاط كى بنا پر باطل ہيں.
دوسرى حالت:
كہ عبادت كا ابتدائى حصہ بھى آخرى عبادت كے ساتھ مرتبط ہو: تو اس وقت بھى انسان دو معاملوں سے خالى نہيں ہو گا:
پہلا معاملہ:
كہ وہ رياكارى كو دور اور ختم كرے، اور اس كى طرف دھيان نہ ديتا ہو بلكہ اس سے اعراض كرتا اور اسے ناپسند كرتا ہو: تو اس پر كچھ بھى اثرانداز نہيں ہو گى:
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت سے وہ كچھ معاف كرديا ہے جو اس كے نفس ميں ہوتا ہے، جب تك كہ وہ اس پر عمل نہ كرلے يا كلام نہ كرے"
دوسرا معاملہ:
وہ اس رياكارى پر مطمئن ہو اور اسے دور نہ كرے: تو اس وقت اس كى سارى عبادت باطل ہو كر رہ جائے گى؛ كيونكہ اس كا پہلا حصہ بھى آخرى حصہ كے ساتھ مرتبط ہے.
اس كى مثال اس طرح ہے كہ:
نماز خالصتا اللہ تعالى كے ليے شروع كى جائے، پھر دوسرى ركعت ميں رياكارى شامل ہو جائے، توپہلا حصہ آخرى حصے كے ساتھ مرتبط ہونے كى بنا پر سارى كى سارى نماز باطل ہو جائے گى.
تيسرى وجہ:
يہ كہ عبادت ختم ہو جانے كے بعد رياكارى پيدا ہو جائے: تو اس صورت ميں اس پر كوئى اثر نہيں ہوگا، اور نہ ہى باطل ہو گى، كيونكہ وہ عبادت صحيح پورى ہوئى ہے، تو عبادت ختم ہونے كےبعد پيدا ہونے والى رياكارى كى بنا پر وہ عبادت باطل نہيں ہو گى.
اور يہ رياكارى ميں شامل نہيں ہوتا كہ لوگوں كو انسان كى عبادت معلوم ہوجائےتو وہ انسان خوشى محسوس كرے، كيونكہ تو عبادت سے فارغ ہو جانے كے بعد ہوا ہے.
اور يہ بھى رياكارى نہيں كہ انسان اطاعت اور فرمانبردارى كا فعل كرنے پر مسرور ہو؛ كيونكہ يہ تو اس كے ايمان كى دليل ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جسے اس كى اپنى نيكى خوش كردے، اور برائى اسے ناراض كردے تو يہى مومن ہے"
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے بارہ ميں سوال كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
يہ مومن كے ليے دنيا ميں ہى جلدى ملنے والى خوشخبرى ہے"
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 / 29 - 30 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ