نابینا شخص کی حدیث جسے مُردوں کو وسیلہ بنانے کیلیے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔
میں صحیح الجامع الصغیر پڑھ رہا تھا تو حدیث نمبر: (1279) میرے سامنے گزری کہ: (اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي ، اللهم فشفعه في) مجھے یہ حدیث سمجھنے میں مشکل در پیش ہے کہ کیا اس حدیث کو قبر پرست لوگ مردوں کو وسیلہ بنانے کیلیے دلیل بنا سکتے ہیں؟ اور اس حدیث کا جواب کیسے دیں؟
الحمد للہ:
امام احمد اور دیگر ائمہ نے صحیح سند کے ساتھ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: "اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت سے نوازے" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں، اور اگر چاہو تو دعا مؤخر کر دیتا ہوں اور یہی تمہارے لیے بہتر ہے)[ایک روایت کے الفاظ ہیں: (اور اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے)]، اس پر نابینا شخص نے کہا: "آپ اللہ سے دعا کریں" تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ : اچھی طرح سے وضو کرے اور پھر دو رکعت نماز پڑھے، اور پھر یہ دعا مانگے: (اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ وشفّعني فيه) راوی کہتے ہیں: اس شخص نے ایسا ہی کیا تو وہ بینا ہو گیا۔
اس حدیث کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں اشکالات پیدا ہوئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ اس میں وسیلہ بدعی کی بعض اقسام کیلیے دلیل موجود ہے، لیکن حقیقت ایسے نہیں ہے۔
اس حدیث میں جو اشکال ہے اس کے بارے میں بہت سے علمائے کرام نے جواب دیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ اس میں بدعی وسیلہ کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے، چاہے کوئی ذات کے وسیلے کیلیے دلیل بنائے یا جاہ کے وسیلے کیلیے، چہ جائیکہ مردوں سے مانگنے یا انہیں وسیلہ بنانے کیلیے اس حدیث کو دلیل قرار دیا جائے۔
سب سے زیادہ علمی اور محکم رد علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا ہے انہوں نے اپنی کتاب: " التوسل أنواعه وأحكامه " میں اس رد کو تحریر کیا ہے، آپ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
"ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث میں کسی کی ذات کا وسیلہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، بلکہ یہ حدیث اصل میں شرعی وسیلے کی تیسری قسم کی دلیل ہے اور وہ ہے نیک آدمی سے دعا کروانا؛ کیونکہ نابینا شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ بنایا تھا، ہماری اس بات پر اسی حدیث میں ہی کئی دلائل موجود ہیں، جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:
اول:
نابینا شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہی اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلیے دعا کر دیں، اس کی دلیل نابینا شخص کا سب سے پہلا جملہ ہے: (ادعُ الله أن يعافيني)یعنی: "اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے عافیت سے نوازے" تو یہ کہہ کر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو اللہ تعالی کے ہاں وسیلہ بنایا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کسی اور کی دعا کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اللہ تعالی کے ہاں قبولیت کا زیادہ امکان رکھتی ہے، اگر نابینا شخص کا ارادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ، یا جاہ، یا حق کا وسیلہ دینا مقصود ہوتا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرتا بلکہ وہ اپنے گھر ہی بیٹھا رہتا اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے اپنی دعا میں یہ الفاظ شامل کر لیتا: "یا اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی کی جاہ، تیرے ہاں ان کے عظیم مرتبے کا واسطہ دے کر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے شفا یاب فرما، اور مجھے بینا بنا دے" لیکن نابینا شخص نے ایسا نہیں کیا۔
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا شخص سے دعا کا وعدہ کیا لیکن اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے بہتر چیز کے بارے میں بھی بتلا دیا : (اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں، اور اگر تم صبر کرنا چاہو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے)
سوم:
نابینا شخص نے "آپ اللہ سے دعا کریں" کہہ کر دعا پر اصرار کیا، اب اس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلیے دعا کی ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایفائے عہد کرنے والوں میں سب سے اعلی اور افضل مقام پر فائز ہیں اس لئے جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دعا کرنے کا وعدہ کر چکے تھے تو یہ از بس ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلیے دعا کریں، اور اس طرح نابینا شخص کی مراد پوری ہو جائے ، ایسی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا شخص کے ساتھ شفقت کرتے ہوئےاور اس کی چاہت کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلیے کہ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اس کے حق میں قبول فرمائے اسے شرعی وسیلے کی دوسری قسم کی ترغیب دلائی ، وہ اس طرح کہ اسے اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنانے کی رہنمائی فرمائی، مقصود یہ تھا کہ نابینا شخص کیلیے قبولیتِ دعا کے زیادہ سے زیادہ اسباب یکجا ہو جائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر اپنے لیے خود بھی دعا مانگے۔
حقیقت میں یہ سب اعمال اللہ تعالی کی بندگی کے اعمال ہیں جو نابینا شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے پہلے کئے، اور یہ اعمال اللہ تعالی کے فرمان:
{وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ} اور اللہ تعالی کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔[المائدة: 35] میں شامل ہیں، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
اس بنا پر یہ سارا واقعہ دعا کے ارد گرد گھومتا ہے، اس میں ان لوگوں کی خوش فہمی کے مطابق کچھ بھی نہیں ہے۔
چہارم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا شخص کو جو دعا سکھائی اس میں یہ الفاظ ہیں کہ: ( اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ )[یعنی: یا اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میری بارے میں شفاعت قبول فرما] تو ان لفظوں کو آپ صلی اللہ علیہ سلم کی ذات، یا جاہ، یا حق کو وسیلہ بنانے پر محمول کرنا ممکن ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا معنی تو یہ ہے کہ: یا اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے بارے میں شفاعت قبول فرما، یعنی اے اللہ! میری بینائی لوٹانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرما اور میری بینائی لوٹا دے۔
یہ بات واضح رہے کہ شفاعت بھی دعا ہی ہوتی ہے، جیسے کہ "لسان العرب" (8/184) میں ہے کہ: "شفاعت" اس عرضی کو کہتے ہیں جو شفاعت گر شاہ کے سامنے کسی اور کی ضرورت پوری کرنے کیلیے پیش کرتا ہے، شفاعت گر اسے کہتے ہیں کہ جو کسی کیلیے سفارش کرے، شفاعت گر کے واسطے سے ضروریات پوری کروائی جاتی ہیں، عربی زبان میں کہا جاتا ہے: " تشفعت بفلان إلى فلان ، فشفعني فيه"[یعنی: میں نے فلاں کی فلاں کے سامنے سفارش پیش کروائی تو اس نے سفارش کنندہ کی سفارش میرے بارے میں قبول کر لی]" انتہی
تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ نابینا شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ بنایا تھا نہ کہ آپ کی ذات اقدس کو۔
پنجم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا شخص کو دعا سکھاتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا: (وَشَفِّعْنِيْ فِيْهِ) یعنی: اور میری شفاعت قبول فرما، یعنی : یا اللہ ،میری اپنے بارے یہ دعا قبول فرما کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول ہو جائے ، یعنی جو انہوں نے میری بینائی لوٹانے کے بارے میں دعا کی ہے اسے قبول فرما، اس جملے کا کوئی اور مفہوم نکالنا ممکن ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فریق مخالف اس جملے کی طرف آتا ہی نہیں! اس کے قریب تو کیا دور بھی نہیں پھٹکتے؛ کیونکہ یہ جملہ ان کی ساری عمارت اور بنیادیں تباہ کر دیتا ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتا ہے !
ششم:
اس حدیث کو علمائے کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فوری قبول ہونے والی دعاؤں میں ذکر کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن دعاؤں کی برکت سے فوری کچھ خرق عادت اور بیماریوں سے شفا ملی ان میں اس کا ذکر کیا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نابینا شخص کے بارے میں دعا سے اللہ تعالی نے اس کی بینائی لوٹا دی، یہ ایک بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر مصنفین اس روایت کو دلائل نبوت کی احادیث میں ذکر کرتے ہیں، جیسے کہ بیہقی وغیرہ ، تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نابینا کے شفا یاب ہونے کا اصل راز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کچھ اور نہیں ہے۔
لہذا اگر نابینا شخص کی شفا یابی کا راز یہ ہوتا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ، شان، اور حق کو وسیلہ بنایا ہوتا جیسے کہ متاخرین میں سے اکثریت یہی سمجھتی ہے، تو پھر یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس طرح دیگر نابینا لوگوں کو بھی شفا مل جاتی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کو وسیلہ بناتے ہیں، بلکہ بسا اوقات وہ تمام انبیاء ، اولیاء، شہداء اور صالحین کے ساتھ ساتھ ان تمام فرشتوں، جنوں اور انسانوں کی جاہ کا بھی وسیلہ دیتے ہیں جن کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی مقام ہے!! لیکن ہمیں ایسی کوئی بات نہیں ملی اور نہ ہی ہم سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو اتنی صدیاں گزرنے کے با وجود کسی کو اس طرح شفا ملی ہو۔
اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا کہ: " اللهم إني أسألك ، وأتوسل إليك بنبيك محمد صلى الله عليه وسلم" اس سے مراد یہ ہے کہ: میں تیرے نبی کی دعا کا تجھے وسیلہ دیتا ہوں، یعنی: یہاں پر مضاف محذوف ہے، اور یہ چیز عربی زبان میں مشہور ہے کہ مضاف کو حذف کر کے صرف مضاف الیہ باقی رکھا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں بھی ہے:
(وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ) ترجمہ: اور بستی سے پوچھیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھیں جس میں ہم واپس آئے ہیں، اور بے شک ہم سچے ہیں۔[يوسف:82] یہاں مطلب ہے کہ اہل بستی سے پوچھیں اور اہل قافلہ سے استفسار کریں۔
اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ:
اگر یہ بات صحیح ثابت ہو بھی جائے کہ نابینا شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ دیا تھا ، تو ایسی صورت میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تصور ہوگا، آپ کے اس خاصے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں چاہے کوئی نبی ہو یا نیک شخص ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی اور کو بھی آپ کے ساتھ اس خاصیت میں شریک کریں تو اسے قواعد شریعت قطعاً قبول نہیں کریں گے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلی و افضل اور سب کے سربراہ ہیں[تو کوئی آپ کا ثانی کیوں کر ہو سکتا ہے!]۔
لہذا پھر یہ معاملہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا جیسے کہ دیگر بہت سے خاصے صحیح احادیث کی روشنی میں ثابت ہیں، چنانچہ اس معاملے کو اس سے زیادہ بڑھانا درست نہیں، اسی طرح امام احمد سے شیخ العز بن عبدالسلام رحمہما اللہ نے نقل کیا ہے۔
جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والی علمی تحقیق کا یہی تقاضا ہے، اللہ تعالی ہی صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دے" انتہی مختصراً
ماخوذ از: "التوسل" ( صفحہ نمبر: 75 اور اس کے بعد کے صفحات)
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ