کرامت کب ظاہر ہوتی ہے؟ کرامت سے کیا مراد ہے؟
سوال: کرامت کب ظاہر ہوتی ہے؟ کرامت سے کیا مراد ہے؟
بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
الجواب بعون الوهاب:
کرامت کی علماء کے نزدیک یہ تعریف ہے: أمر خارق للعادة غير مقرون بدعوى النبوة ولا هو مقدمة لها تظهر على يد عبد ظاهر الصلاح مصحوب بصحيح الاعتقاد والعمل الصالح.
یعنی کرامت ایک ایسی خرق عادت شئے ہےجس تعلق دعوائے نبوت، یا پیش خیمۂ نبوت سے نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی ایسے آدمی کے ہاتھ سے صادر ہوتی ہے جو بظاہرخیر و صلاح کا پاسدار ہو اور صحیح عقیدہ و اعمال صالحہ کا مظہر ہو۔[دیکھیے: اصول الایمان،فی ضوء الکتاب والسنہ، ص:۲۰۲] یعنی ایسا معاملہ وقوع پذیر ہو جائے جو عام طور پر نہیں ہوتا، عادتا ً ایسا ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہو، یہ معاملہ کسی نبی کے ہاتھ سے پیش نہ آئے، (نبی سے ایسا واقعہ رونما ہو تو اسے نبوت کی دلیل اور معجزہ کہا جاتا ہے) اسسی طرح کسی کاہن ، جادوگر اور شعبدہ باز کا اس میں دخل ہو، بلکہ نیک اور پرہیزگار ، صحیح الاعتقاد آدمی اس کا سبب بنے۔
یاد رہے کہ
· کرامت کے ظہور سے مقصود صرف پرہیزگار آدمی کا اکرام اور اللہ کی طرف سے انعام ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر شریعت اسلامیہ کا کوئی حکم تبدیل کیا جا سکتا ہے، نہ کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
· کرامت بھی بالواسطہ صداقتِ بنوت کی ہی دلیل ہوتی ہے،کیونکہ ولی کو اس کی ولایت نبی کریم ﷺ کی اتباع کے باعث ہی ملتی ہے، لہذا اس کی کرامت حقیقت میں نبی ﷺ کی پیروی میں ظاہر ہوئی ہے۔
· اہل سنت والجماعت جس طرح نبی کے معجزات کو حق تسلیم کرتے ہیں اسی طرح اولیاء کی کرامات کو بسر و چشم تسلیم کرتے ہیں۔
مثال:
سورہ آل عمران میں مریم علیھا السلام کی کرامت کا تذکرہ ہے: كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ} [آل عمران: 37]
یعنی زکریا علیہ السلام جب کبھی محراب مین مریم علیہ السلام کے پاس جاتے تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی رزق پاتے، کہتے: اے مریم! یہ کہاں سے آئے ہیں، وہ فرماتیں: اللہ کے طرف سے ہیں۔
اسی طرح امت مسلمہ میں سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت معروف ہے، جس میں رات کے وقت ان کے قرآن کی تلاوت کا ذکر ہے، جب آسمان سے انہوں نے روشنیاں نیچے آتی ہوئی دیکھیں، جبکہ وہ فرشتے تھے جو ان کی قراءت سن کر آرہے تھے۔۔صحيح مسلم: ۷۹۶
صحیح مسلم میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے؛صحیح مسلم(۱۲۲۶)
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ