ايك نصرانى سے مباحثہ كرنے والا دريافت كرتا ہے كہ كيا اللہ كى روح ہے ؟
ايك عيسائى سے ميرى بحث چل رہى ہے، وہ عيسائى مجھے كہتا ہے كہ: اللہ تعالى كى روح ہے.
لھذا ميرا سوال يہ ہے كہ كيا اللہ تعالى كى روح ہے؟ ( انسان اور فرشتوں اور باقى سارى مخلوق كى طرح كى روح ) اور كيا روح كوئى پيدا شدہ مخلوق ہے كہ نہيں ؟
الحمد للہ:
كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ وہ اللہ تعالى كو ايسى صفت سے موصوف كرے جو ثابت نہيں، بلكہ ہر ايك كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى كو انہيں صفات سے متصف كرے جن صفات سے اللہ تعالى نے خود اپنے آپ كو متصف كيا ہے يا پھر اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے متصف كيا ہے اس ليے كہ اللہ تعالى كےبارہ ميں اللہ تعالى سے زيادہ كوئى بھى علم نہيں ركھتا، اور كوئي مخلوق اپنے خالق كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ علم نہيں ركھتى.
فرمان بارى تعالى ہے:
{كہہ ديجئے كہ كيا تم زيادہ جانتے ہو يا اللہ تعالى} البقرۃ ( 140 )
اور ايك مقام پر فرمايا:
{اور جس بات كى تجھے خبر ہى نہ ہو اس كے پيچھے مت پڑ كيونكہ كان اور آنكھ اور دل ان سب ميں سے ہر ايك سے پوچھ گچھ كى جانے والى ہے} الاسراء ( 36 ).
اور روح اللہ تعالى كى صفات ميں سے نہيں بلكہ اللہ تعالى كى مخلوقات ميں سے پيدا كردہ ايك مخلوق ہے، اور بعض نصوص ميں اس كى اضافت صرف ملكيت اور شرف كے اعتبار سے ہے، لھذا اللہ تبارك وتعالى روح كا خالق اور مالك ہے جب چاہے اس كو روح قبض كر ليتا ہے اور جب چاہے اسے چھوڑ ديتا ہے.
لھذا روح كے بارہ ميں قول ايسا ہى ہے جيسا كہ ( بيت اللہ ) اور ( ناقۃ اللہ ) اور ( عباداللہ ) اور ( رسول اللہ ) يعنى اللہ كا گھر، اللہ كى اونٹنى، اللہ كے بندے، اور اللہ كا رسول ہے لھذا يہ سب اللہ تعالى كى مخلوقات ہيں اور شرف و كرم كے اعتبار سے ان كى اضافت اللہ تعالى كى جانب كى گئى ہے.
اور جن نصوص ميں روح كى اضافت اللہ تعالى كى جانب كى گئى ہے ان ميں يہ فرمان بارى تعالى بھى شامل ہے:
{پھر اسے برابر كيا اور اس ميں اپنى روح پھونكى} السجدۃ ( 9 ).
يہ آدم عليہ السلام كے بارہ ميں ہے.
اور آدم عليہ السلام كے بارہ ميں ہى اللہ تعالى نےايك دوسرے مقام پر كچھ اس طرح ارشاد فرمايا:
{لھذا جب ميں اسے برابر كرلوں اور اس ميں اپنى روح پھونك دوں تو تم سب اس كے سامنے سجدہ ريز ہو جانا} الحجر ( 29 ).
اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
{اور اس ( مريم ) نے ان لوگوں سے پردہ كر ليا پھر ہم نے اس كے پاس اپنى روح ( جبريل عليہ السلام ) كو بھيجا تو وہ اس كے سامنے پورا آدمى بن كر ظاہر ہوا، وہ كہنے لگى ميں تجھ سے رحمن كى پناہ مانگتى ہوں اگر تو كچھ بھى اللہ تعالى سے ڈرنے والا ہے، اس نے جواب ديا كہ ميں تو اللہ تعالى كا بھيجا ہو قاصد ہوں تجھے ايك پاكيزہ لڑكا دينے آيا ہوں} مريم ( 17 - 19 ).
تو اس آيت ميں روح سے مراد اللہ تعالى كا بندہ اور رسول جبريل ہے جسے اللہ تعالى نے مريم كى طرف قاصد بنا كر بھيجا، اور اللہ تعالى نے اس كى اضافت اپنى طرف يہ كہہ كر فرمائى ( روحنا ) ہمارى روح تو يہاں تكريم اور شرف كى اضافت ہے، جو كہ ايك مخلوق كى اپنے خالق اللہ سبحانہ وتعالى كى جانب ہے.
اور حديث شفاعت كو بہت طويل ہے ميں بھى ذكر ہے كہ:
" تو لوگ موسى عليہ عليہ السلام كے پاس آ ئيں گے تو وہ بھى يہى جواب ديں گے كہ ميں اس كا اہل نہيں ليكن تم عيسى عليہ السلام كے پاس جاؤ كيونكہ وہ اللہ تعالى كى روح اور اس كا كلمہ ہيں" صحيح بخاري حديث نمبر ( 7510 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 193 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" صرف اللہ تعالى كى جانب اضافت سے ہى يہ لازم نہيں آتا كہ مضاف اللہ تعالى كى صفت ہو، بلكہ بعض اوقات بعينہ بعض مخلوقات يا اس كى كوئي صفت اللہ تعالى كى جانب مضاف ہوتى ہے جو بالاتفاق اللہ تعالى كى صفت نہيں ہوتى، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
( بيت اللہ ) اللہ تعالى كا گھر ( ناقۃ اللہ ) اللہ تعالى كى اونٹنى ( عباداللہ ) اللہ تعالى كے بندے، بلكہ روح اللہ بھى مسلمان سلف صالحين اور آئمہ كرام كے ہاں اسى طرح ہے.
ليكن جب وہ چيز جو اللہ تعالى كى صفت ہو اور كسى دوسرے كى صفت نہ ہو اس كى اضافت اللہ تعالى كى طرف كى جائے مثلا: كلام اللہ ، علم اللہ، يداللہ، ( اللہ تعالى كى كلام، اللہ تعالى كا علم، اللہ تعالى كا ہاتھ ) وغيرہ تو يہ اس كى صفت ہو گى. انتہى " ديكھيں: الجواب الصحيح ( 4 / 414 ).
اور وہ قاعدہ جسے شيخ الاسلام نے كئى مواضع ميں ذكر كيا ہے اس كا خلاصہ يہ ہے كہ:
اللہ تعالى كى طرف اضافت كى دو قسميں ہيں:
1 - ذاتى طور قائم بعينہ اشياء، يہ اضافت شرف و تكريم كى اضافت ہے، جس طرح، بيت اللہ، ناقۃ اللہ، اور اسى طرح روح بھى ، كيونكہ يہ اللہ تعالى كى صفت نہيں، بلكہ يہ ايك عين اور قائم بالذات چيز ہے.
اور اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى براء بن عازب رضي اللہ تعالى عنہ كى طويل حديث جس ميں انسان كى وفات اور اس كى روح نكلنے كا ذكر ہے فرمايا كہ:
" تو وہ روح اس طرح بہہ نكلتى ہے جس طرح مشكيزے كے منہ سے قطرہ بہتا ہے، تو اس روح كو ( ملك الموت ) پكڑ ليتا ہے اور جب وہ اسے پكڑتا ہے تو ( فرشتے ) اسے اپنے ہاتھوں ميں پلك جھپكنے تك بھى نہيں ركھتے بلكہ اسے اس حنوط اور كفن ميں لپيٹ ليتے ہيں، اور اس سے دنيا ميں پائى جانے والى سب سے بہتر كستورى كى خوشبو مہكتى، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو وہ اسے لے كر اوپر چڑھتے ہيں.
حديث كى مختلف روايتيں ديكھيں: احكام الجنائز للالبانى ( 198 ).
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب روح قبض كى جاتى ہے تو نظر اس كا پيچھا كرتى ہے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 920 ).
يعنى جب روح نكلتى ہے تو نظر اس كا پيچھا كرتى اور اسے ديكھتى ہے كہ وہ كہاں جاتى ہے، تو يہ سب كچھ اس كى دليل ہے كہ روح ايك عين اور قائم بالذات چيز ہے.
2 - ايسى صفات جو قائم بالنفس نہيں ہوتيں، بلكہ ان كے ليے كوئى موصوف ہونا ضرورى ہے جس كے ساتھ مل كے قائم ہوں ، مثلا: علم ، ارادہ، قدرت ، لھذا جب يہ كہا جائے كہ : علم اللہ ، ارادۃ اللہ ، ( اللہ تعالى كا علم ، اور اللہ تعالى كا ارادہ ) تو يہ صفت كى موصوف كى جانب اضافت ہو گى.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسئلہ نمبر ( 17 ): وہ يہ ہے كہ آيا روح قديم ہے يا محدث يا مخلوق؟
پھر كہتے ہيں: اس مسئلہ ميں بہت سے لوگ پھسل گئے اور بہت سے بنى آدم گمراہ ہوئے، اور اللہ تعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع اور پيروى كرنے والوں كو حق مبين اور واضح صحيح راہ كى طرف ہدايت نصيب فرمائى، لھذا سب رسول صلى اللہ عليہم وسلم اس پر جمع اور متفق ہيں كہ يہ محدث اور مخلوق ، بنائى گئى اور مربوب اور مدبر كردہ ہے، يہ چيز انبياء كے دينوں ميں اضطرارا اسى طرح معلوم ہے جس طرح يہ معلوم ہے كہ يہ سارا عالم اور جہان حادث ہے اور بدنوں كا دوبارہ اٹھنا وقوع پذير ہو گا، اور يہ كہ اللہ تعالى اكيلا ہى خالق ہے اور اس كے علاوہ جو كچھ بھى ہے وہ سب اس كى مخلوق ہے"
پھر ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے حافظ محمد نصر المروزى رحمہ اللہ سے ان كا يہ قول نقل كيا ہے كہ:
" مسلمانوں ميں كوئي اختلاف نہيں پايا جاتا كہ آدم عليہ السلام اور ان كى اولاد ميں جو روحيں پائى جاتى ہيں وہ سب اللہ تعالى كى مخلوق ہيں، اللہ تعالى نے اسے پيدا فرمايا اور اس كى تكوين فرمائى اور اسے ايجاد كيا اور پھر اپنى جانب اس كى اضافت فرمائى جس طرح باقى سب مخلوق كو اپنى طرف مضاف كيا.
فرمان بارى تعالى ہے:
{اور اللہ تعالى نے آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اپنى طرف سے تمہارے مطيع اور مسخر كرديا} الجاثيۃ ( 13 ). انتھى . ديكھيں الروح ( 144 ).
اور ہو سكتا ہے كہ بعض لوگوں پر عيسى عليہ السلام كے متعلق اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان ميں اشكال پيدا ہو:
فرمان بارى تعالى ہے:
{مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ( كن سے پيدا شدہ ) ہيں، جسے مريم عليہا السلام كى طرف ڈال ديا گيا تھا، اور اس كے پاس كى روح ہيں} النساء ( 171 ).
جن پر اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے بھى اسى طرح گمان كيا اور سمجھا جس طرح عيسائيوں نے سمجھا اور گمان كيا كہ يہاں پر ( من ) تبعيضيہ ہے يعنى بعض كے معنى ميں ہے اور روح اللہ تعالى كا ايك جزء ہے، حالانكہ حق بات تو يہ ہے كہ يہاں پر ( من ) ابتداء غايت كے ليے ہے، يعنى يہ روح اللہ تعالى كى جانب سے ہے، اس كى ابتداء اور پيدائش اللہ كى جانب سے ہے اور وہ اس كا خالق اور اس ميں تصرف كرنے والا ہے.
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
آيت اور حديث ميں لفظ ( و روح منہ ) بھى اسى قول كى طرح ہے :
{اور اللہ تعالى نے آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اپنى طرف سے تمہارے مطيع اور مسخر كرديا}.
يعنى اس كى مخلوق ميں سے اور اس كى جانب سے، اور ( من ) تبعيضيہ نہيں جس طرح كہ عيسائى كہتے ہيں اللہ تعالى ان پر لعنت برسائے، بلكہ يہ من تو ابتداء غايت كے ليے ہے جيسا كہ دوسرى آيت ميں ہے .
اور مجاھد رحمہ اللہ تعالى ( و روح منہ ) كے متعلق كہتے ہيں: يعنى اس كى جانب سے رسول ہيں ، اور ان كے علاوہ دوسروں كا كہنا ہے كہ: اس كى جانب سے محبت ہے، ليكن پہلا معنى زيادہ اظہر ہے وہ يہ كہ وہ بھى پيدا كردہ اور مخلوق روح ميں سے ايك مخلوق ہے، اور روح كى اللہ تعالى كى طرف اضافت شرف و مرتبہ كى بنياد پر ہے، جس طرح اونٹنى اور گھر كى اضافت اللہ تعالى كى طرف كى گئى ہے:
ارشاد بارى تعالى ہے:
{يہ اللہ تعالى كى اونٹنى ہے} الاعراف ( 73 ).
اور فرمان بارى تعالى ہے:
{اور ميرے گھر كو طواف كرنے والوں كے ليے پاك صاف كر}الحج ( 26 ) .
اور جس طرح صحي حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تو ميں اپنے رب كے پاس اس كے گھر ميں داخل ہوؤں گا"
يہاں اضافت تشريف ہے ، اور اسى طرح سب ايك ہى قبيل سے ہيں.
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 784 ).
اور علامہ آلوسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بيان كيا جاتا ہے كہ رشيد كے پاس ايك بہت ماہر عيسائى طبيب تھا اس نے على بن حسين واقدى رحمہ اللہ تعالى سے ايك دن مناظرہ كيا اور كہنے لگا:
تمہارى كتاب بھى اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ عيسى عليہ السلام اللہ تعالى كا جزء اور حصہ ہيں اور اس نے مندرجہ ذيل آيت تلاوت كى:
{مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ( كن سے پيدا شدہ ) ہيں، جسے مريم عليہا السلام كى طرف ڈال ديا گيا تھا، اور اس كے پاس كى روح ہيں} النساء ( 171 ).
تو واقدى نے اسے يہ آيت پڑھ كر سنائى:
{اور اللہ تعالى نے آسمان و زمين ميں جو كچھ بھى ہے اپنى طرف سے تمہارے مطيع اور مسخر كرديا}الجاثيۃ ( 13 ).
اور اسے كہا: پھر تو يہ لازم آتا ہے كہ سب اشياء ہى اللہ تعالى كا جزء ہيں، اللہ تعالى پاك اور بلند وبالا ہے، لھذا عيسائى مناظرہ سے باز آگيا اور اسلام قبول كرليا, تو رشيد بہت زيادہ خوش ہوا. "
اور ايك جگہ پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عيسائيوں كے پاس اس گمان كى كوئى دليل اور حجت نہيں جو وہ كرتے ہيں كہ عيسى عليہ السلام كى روح كى اضافت اللہ تعالى كى جانب ہے اور يہ بہت بڑا شرف اور مرتبہ ہے، كيونكہ اس اضافت ميں تو اور بھى بہت سى مخلوقات شريك ہيں، لھذا انجيل لوقا ميں ہے كہ:
" يسوع نے اپنے شاگردوں سے كہا: تمہارا آسمانى باپ روح القدس كو ديتا ہے جس سے وہ مانگتے ہيں " .
اور انجيل متى ميں ہے:
يوحنا معدانى جب اپنى ماں كے پيٹ ميں تھا تو وہ روح القدس سے بھرا ہوا تھا.
اور تورات ميں ہے كہ:
اللہ تعالى نے موسى عليہ السلام كو فرمايا:
اپنى قوم ميں سے ستر اشخاص چن لو تا كہ ميں اس روح سے جو تجھ پر انہيں بھى فيض ياب كروں .
اور تورات ميں ہى يوسف عليہ السلام كے بارہ ميں ہے كہ:
كيا تم نے اس نوجوان جيسا كوئى ديكھا ہے جس ميں اللہ عزوجل نے روح ڈالى ہے.
اور اس ميں يہ بھى ہے كہ:
بلا شبہ اللہ تعالى كى روح دانيال ميں حلول كر گئى....
اس كے علاوہ بھى ، انتھى . ديكھيں: روح المعانى ( 6 / 25 ).
اور انجيل لوقا ميں ہے كہ:
ياصبات روح القدس سے بھر گئيں. انجيل لوقا ( 1 / 41 ).
اور يہ قول بھى ہے :
( اور يروشلم ميں ايك متقى اور صالح سمعان نامى شخص تھا جو اسرائيل كے چھٹكارے كا منتظر تھا، اور اس پر روح القدس تھا، اور روح القدس كى طرف اللہ تعالى نے وحى كى كہ وہ اس وقت تك نہيں مرے گا جب تك مسيح رب كو نہ ديكھ لے، تو روح كى طرف سے وحى كى بنا پر وہ ہيكل كى طرف آيا ) .
تو قول ميں صريحا يہ ہے كہ روح فرشتہ ہے اور وحى لاتا ہے ، اور اسى ميں يہ بھى صراحت ہے كہ عيسى السلام ( مسيح الرب ) وہ اللہ تعالى كے بندے ہيں اور اللہ تعالى نے ہى انہيں مسيح بنايا.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ