کیا " الاحد " اللہ تعالی کے اسماءمیں سے ہے ۔
کیا "الاحد " اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہے ؟
اورکیا میرے لۓ یہ جائز ہےکہ میں اپنے بیٹے کا نام عبد الاحد رکھ لوں ؟ ۔
جی ہاں الاحد اللہ تعالی کے ان اسماء میں سے جس پر قرآن کی نص موجود ہے اللہ تعالی نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ کہہ دیجۓ کہ وہ اللہ تعالی ایک ہے ، اللہ تعالی بے نیازہے }
تواس بنا پر یہ جائز ہے کہ جس طرح عبد الصمد رکھ سکتے ہیں اسی طرح آپ اپنے بیٹے کا نام عبدالاحد رکھ سکتے ہيں ۔ یہ جواب فضیلۃ الشیخ عبدالرحمان البراک کا ہے ۔
الاحد کا معنی :
وہ اکیلا جوکہ ازل سے اکیلا ہے اوراس کے ساتھ دوسرا کوئ نہیں ۔ ( النھایۃ 1/ 35 )
وہ اپنی ذات اورصفات میں منفرد واکیلا ہے ، بعض نے واحد اور احد کے درمیان فرق کیا ہے ان کا کہناہے کہ : الواحد صرف ذات میں وحدانیت کا فائدہ دیتا ہے اورالاحد ذات اورمعانی میں وحدانیت کا فائدہ دیتا ہے ( تفسیر اسماء اللہ للزجاج ص 58 )
اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ : الواحد منفرد بالذات ہے جس کی کوئ مثل اور نظیر نہیں ، اورالاحد مبنی علی الانفراد ہے ، تو اصحاب میں انفراد اوراسی طرح ذات میں بھی منفرد ہے ، الاحد منفرد بالمعنی ہے ۔
اورالاحد اللہ تعالی کی صفات میں سے جن میں کوئ دوسری چيز شریک ہی نہیں ۔ ( اللسان – الاحد – 1/ 35 وحد 8 / 4779 - 4783 )
تو اللہ عزوجل احد اور واحد ہے جس کا کوئ ثانی نہیں اورنہ ہی اس کا کوئ شریک اورنہ ہی اس کا کوئ مثل اورنظیر ہے ، اوروہی سبحانہ وتعالی ہے جس پراس کے بندے اعتماد اور اس کا قصد کرتے ہيں اوراس کے علاوہ کسی اور پر توکل وبھروسہ نہیں کرتے ۔ ( اشتقاق اسماء اللہ 90 – 93 )
اوروہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے جس کے مثل کوئ چيز نہیں اوراس کے علاوہ ہر چيز ایک جہت سے توواحد ہے لکین کئ ایک جہات سے واحد نہیں ۔( شان الدعاء 82 – 83 )
اورابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے وحدانیت کا معنی یہ اختیار کیا ہے کہ : اللہ تعالی کی وحدانیت کا معنی یہ ہے کہ اس سے امثال و اشباہ کی نفی کی جاۓ ، تو اللہ تعالی کی کوئ نظیر نہیں اور نہ ہی اس کی مثل ہے ، تو وہ اللہ سبحانہ وتعالی اکیلا ہی معبود اور رب ہے اس کے علاوہ کوئ اوراطا عت کا مستحق نہیں اورنہ ہی کسی اورکی عبادت کی جاسکتی ہے ۔ تفسیر ابن جریر ( 3/ 265- 266 )
اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورتمہارا معبود اورالہ ایک وواحد ہے } البقرۃ ( 163 )
تو وہ اللہ تعالی ہی ہے جواکیلا ہی تمام کمالات کا مالک ہے اور اس میں کوئ دوسراشریک نہیں توبندوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اسے عقدی اورقولی اورعملی طور پربھی وحدہ لاشریک تسلیم کریں اوراس کے کمال مطلق کا اعتراف اوراس کی وحدانیت کا اعتراف کریں اور ہر قسم کی عبادات میں اسے اکیلا جانیں ۔ تیسیر الکریم الرحمن ۔ ( 5/ 485 ) .
شرح اسماء اللہ الحسنی وصفاتہ الواردۃ فی الکتاب والسنۃ ( ص 47 )
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ