لوگوں میں خاوند یا بیوی کانام لینا
بہت سے معاشروں میں ایک دوسرے کوابوفلاں یا ام فلاں کے نام سے پکارا جاتا ہے ، اورعادتا عورتیں اپنے خاوند کوان کے نام سے نہیں پکارتیں ، لیکن کوئي ایک عورت اپنے خاوند کواپنے بڑے بیٹے کے نام سے اس کی کنیت لے کر پکارتی ہے ، توکیا اس عمل پر کوئي کتاب و سنت میں دلیل ملتی ہے ؟
اوراگراس کا جواب نفی میں ہو توپھر یہ عادت کس طرح شروع ہوئی ؟
کیا عورت اپنے خاوند کا ذکر کرتے وقت اس کا نام لے سکتی ہے ، اوراسی طرح خاوند اپنی بیوی کا ذکر کرتے وقت بیوی کا نام لے سکتا ہے یہ اسلامی لحاظ سے غلط تو نہیں ؟
اول :
جی ہاں کچھ صحابیات سے ثابت ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کوکنیت سے بلاتی تھیں ، اس کی چند ایک مثالیں ذيل میں دی جاتی ہیں :
عون ابو جحیفۃ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اورابودرداء رضي اللہ تعالی عنہما کی آپس میں اخوت قائم کی ، توایک بار سلمان رضي اللہ تعالی عنہ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ سے ملنے آئے توام درداء رضي اللہ تعالی عنہا کوپراگندہ اورکام کاج والے لباس میں دیکھا توکہنے لگا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ؟
وہ کہنے لگيں : آپ کے بھائي ابودرداء کودنیا کی حاجت اورضرورت ہی نہیں ، اتنی دیر میں ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بھی آگئے اوران کے لیے کھانا رکھا توسلمان رضي اللہ تعالی کہنے لگے بھئي کھاؤ ابودرداء کہنے لگے میں روزہ سے ہوں ، سلمان رضي اللہ تعالی کہنے لگے تم کھاؤ گے تو میں بھی کھاؤں گا ، وہ بیان کرتے ہیں کہ ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ نے کھایا ۔
اورجب رات ہوئي توابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ قیام کرنے لگے ، سلمان رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا سوجاؤ ، تو وہ سوگئے ، تھوڑی دیر بعد پھر اٹھے اورقیام کرنے لگے ، توسلمان رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا بھئي سوجاؤ ، جب رات کا آخری پہر ہوا تو سلمان رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے اب اٹھو اورقیام کرلو ، توپھر دونوں نے نماز پڑھی ۔
اوربعد میں سلمان رضي اللہ تعالی کہنے لگے : بلاشبہ تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے ، اورتیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے ، اورتیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے ، توہر حقدار کواس کا حق ادا کرو ، ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورسب کچھ آپ سے ذکر کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : سلمان رضي اللہ تعالی عنہ نے سچ کہا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1832 ) ۔
اورایک مثال یہ بھی ہے :
فاطمۃ بنت قیس رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے عیاش بن ابی ربعیہ کومیری طلاق دے کر بھیجا اوراس کےساتھ پانچ صاع کھجوریں اورپانچ صاع جو بھی بھیجے ، تومیں نے اسے کہا کہ کیا میرے لیے صرف یہی نفقہ ہے ، میں تمہارے گھرمیں اپنی عدت بھی نہ گزاروں ؟ تو اس نے جواب میں کہا نہيں ۔
وہ کہتی ہیں میں نے اپنے کپڑے جمع کیے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئي توانہوں نے پوچھا کتنی طلاقیں دی ہیں میں نےجواب دیا تین ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2721 ) ۔
دوم :
اوربیوی اپنے خاوند کانام بھی لے سکتی ہے اوراس میں بھی کوئي حرج نہیں اس کی بھی مثالیں موجود ہیں :
عبداللہ یعنی عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کی بیوی زینب رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی تومیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ یہ فرما رہے تھے عورتو تم بھی صدقہ کیا کرو چاہے اپنے زيور میں سے ہی ، زینب رضي اللہ تعالی عنہا عبداللہ اوراپنی گود میں پلنے والے یتیموں کا خرچہ برداشت کیا کرتی تھیں ۔
راوی کہتے ہیں : وہ عبداللہ رضي اللہ تعالی عہنا سےکہنے لگيں : آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں کہ کیا میرا آپ اورمیری گود میں پلنے والے یتیموں پر خرچ کرنا صدقہ سے کفائت کرجائے گا ؟ توعبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود ہی پوچھ لو ، تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑیں جب دروازے پر پہنچی توایک انصاری عورت کوپایا جومیری طرح کا سوال ہی پوچھنا چاہتی تھی ۔
اسی اثنامیں ہمارے پاس سے بلال رضي اللہ تعالی عنہ گزرے توہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھو کہ کیا میرا خاونداورمیری گود میں پلنے والے یتیم بچوں پرخرچ کرنا کافی ہوگا ؟ ہم نے انہیں یہ بھی کہا کہ ہمارے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کونہ بتانا ، توبلال رضي اللہ تعالی اندر داخل ہوئے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا توآّپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ دونوں کون ہیں ؟
بلال رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : زينب ( رضي اللہ تعالی عنہا ) ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کونسی زینب ؟ وہ کہنے لگے عبداللہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جی ہاں اسے ڈبل اجر ملےگا ، ایک اجرتو قرابت ورشتہ داری کا اوردوسرا صدقہ کا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1373 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1667 ) ۔
اورایک مثال یہ بھی ہے :
خولۃ بنت مالک بن ثعلبہ رضي اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ میرے خاوند اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کرلیا ،تومیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آئي اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اس کے بارہ میں جھگڑا کرنے لگے اورکہنے لگے اللہ تعالی سے ڈرو وہ توتمہارے چچا کہ بیٹا ہے ، میں وہیں رہی حتی کہ قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئيں :
{ یقینا اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی جو تیرے ساتھ اپنے خاوند کے بارہ میں جھگڑ رہی تھی ۔۔۔۔ } سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1893 ) اسے ابن حبان اورامام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں کتاب : خلاصۃ البدر المنیر ( 2 / 229 ) ۔
سوم :
رہا مسئلہ خاوند یا پھر بیوی کا لوگوں میں نام لینا تواس میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ اس کے متعلق معاشرہ میں لوگوں کی عادت اورعرف کودیکھا جائے گا ، بعض معاشروں میں تواسے ناپسند کیا جاتا ہے ، بلکہ بعض لوگ تو اسے قلت غیرت میں شمار کرتے ہیں ۔
عبداللہ بن مسعود والی سابقہ حدیث میں یہ موجود ہے کہ بلال رضي اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن مسعود کی بیوی کا نام ذکر کیا تھا کہ اس کا نام زينب ہے ، اس لیے اگر عورت اپنے نام سے معروف اورمشہور ہے توخاوند کے علاوہ دوسرے مرد کے لیےبھی اس کانام لینے میں کوئي حرج نہیں تو پھر خاوند اس کانام لے لے توکونسا حرج ہوگا ؟
اورافضل تویہ ہے کہ بعض معاشروں میں نام کی بجائے کنیت ذکر کی جائے یا پھر بعض لوگوں کے سامنے کنیت کا ذکرکرنا افضل ہے ، اس طرح کے کام میں سستی اورکاہلی کی بنا پر بہت سی مشکلات پیش آچکی ہیں ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ