نر بلى كى اذيت سے بچنے كے ليے ناخن كاٹنا، اور اسے خصى كرن

 

 

 

 

ہمارے پاس گھر ميں ايك بلى ہے، ہم نے وہ اس ليے ركھى ہے كہ وہ ايك مانوس جانور ہے، ہم اس كى موجودگى سے محظوظ ہوتے ہيں، ہمارا سوال اسے خصى كرنے، اور حيوان كے ناخن كاٹنے كے متعلق ہے:
كيا ہمارے ليے بلى كے اگلے پنجوں كے ناخن كاٹنے جائز ہيں، تا كہ گھر كے افراد اور گھريلو سامان اس كے پنجوں سے محفوظ رہ سكيں؟
اور كيا ہم اس كى نسل بندى يعنى اسے خصى كر سكتے ہيں، ( وہ اس كے باوجود جنسى عمل تو كرسكے گا صرف بچے پيدا كرنے كى طاقت سلب ہو گى ) ؟
ہميں جانوروں كے ڈاكٹر نے بتايا ہے كہ اسے خصى كرنے كا كام نہ بھى كيا جائے تو يہ متوقع ہے كہ وہ مادہ بليوں اور گھر ميں كئى مقامات پر پيشاب كر كے اپنى جگہ كى تحديد كر دے ؟

الحمد للہ :

اول:

بلى كے ناخن كاٹنے ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ بغير تكليف ديے طبى طريقہ سے كاٹے جائيں، جو كہ اس وقت بہت زيادہ ہيں، جانوروں كو اذيت دينا حرام ہے.

دوم:

نسل بندى كرنے اس فطرتى چيز كا خاتمہ ہے جس پر اللہ تعالى نے اسے پيدا كيا ہے، اس ميں كوئى شك نہيں كہ چوپايوں كا حكم انسان سے زيادہ آسان ہے، ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى كى مخلوق پر ظلم وزيادتى كى جائے.

اور اگر يہ عمل اذيت كا سبب بنے، يا بلے ميں كمزورى كا باعث ہو، تو يہ عمل كرنا جائز نہيں، اور پھر بشر اور جانوروں كو اذيت دينا تو حرام ہے، ذيل ميں ہم چند ايك احاديث كا ذكر كرتے ہيں جن ميں اس كا بيان ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ايك عورت بلى كے سبب آگ ميں داخل ہو گئى، اس نے بلى كو باندھ ديا، نہ تو اسے كھانے كے ليے كچھ ديا اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھالے"

خشاش الارض: زمين كے كيڑے وغيرہ اس ميں چوہے وغيرہ بھى شامل ہيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3140 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2242 )

اور ان دونوں نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اسى طرح كى ايك حديث روايت كى ہے.

اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے ايك گدھا گزرا اس كے چہرہ پر داغنے كا نشان تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى اس پر لعنت كرے جس نے اسے داغا ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2217 ).

علماء كرام نے آدمى كے علاوہ باقى اشياء كو خصى كرنے ميں اختلاف كيا ہے، جس ميں كئى ايك اقوال ہيں:

احناف كہتے ہيں كہ:

چوپايوں كو خصى كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اس ميں چوپائے اور لوگوں كے ليے فائدہ ہے.

اور مالكيہ كہتے ہيں كہ:

جن جانورں كا گوشت كھايا جاتا ہے، انہيں بغير كسى كراہت كے خصى كرنا جائز ہے، اس ليے كہ ايسا كرنے ميں گوشت كى اصلاح ہے.

اور شافعيہ نے گوشت كھائے جانے والے اور دوسرے جانوروں ميں فرق كيا ہے، ان كا كہنا ہے:

جن كا گوشت كھايا جاتا ہے اسے چھوٹى عمر ميں خصى كرنا جائز ہے، اور اس كے علاوہ دوسروں ميں حرام ہے، اور شرط يہ ركھى ہے كہ خصى كرنے ميں وہ ہلاك نہ ہوں تو پھر جائز ہے.

اور حنابلہ كے ہاں بكرى كو خصى كرنا مباح ہے، كيونكہ اس ميں اس كے گوشت كى اصلاح ہوتى ہے.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: مكروہ ہے مثلا گھوڑا وغيرہ .

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مجھے كسى آدمى كے ليے يہ اچھا نہيں لگتا كہ وہ كسى چيز كو خصى كرے.

بلكہ انہوں نے حيوان كو تكليف دينے كى نہى وارد ہونے كى بنا پر اسے مكروہ جانا ہے.

ديكھيں: المجموع ( 6 / 155 ) الآداب الشرعيۃ ( 3 / 144- 145 ) الفتاوى الھنديۃ ( 5 / 358 ).

اور اس ميں بلے كو خصى كرنے كے متعلق ان كا اس قول ميں بيان ہے:

( اگر بلے كو خصى كرنے ميں فائدہ ہو يا ضرر اور نقصان دور ہوتا ہو، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، الكبرى ميں ايسے ہى ہے )

ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 2 / 346 ).

اس ليے ہم كہتے ہيں كہ :

جب بلے كو خصى كرنے ميں كوئى فائدہ ہو، اور اسے كوئى تكليف اور اس كے ہلاكت كا باعث نہ ہو تو جائز ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر تو بلياں بہت زيادہ اور اذيت دينے والياں ہوں، اور يہ عمل انہيں اذيت نہ ديتا ہو، تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ ان كے پيدا ہونے كے بعد انہيں قتل كرنے سے افضل ہے...

ليكن اگر بلياں عادى ہوں اور كوئى تكليف اور اذيت نہ ديں، تو ان كى بقا ميں خير وبھلائى ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 448 ).

واللہ اعلم .

شيخ محمد صالح المنجد

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ