لوگوں كے ذوق اور عرف كے مطابق چلتے ہوئے لباس ٹخنوں سے نيچے ركھنا، اور پتلون ٹخنوں سے نيچے ركھنا
ہمارے اس معاشرے ميں بغير كسى تكبر اور غرور سے سلوار وغيرہ ٹخنوں سے نيچے ركھنے كا حكم كيا ہے ؟
جبكہ سلوار ٹخنوں سے اوپر اٹھا كر ركھنا آدمى كے منظر كو خراب كر ديتا ہے، اور سب لوگ اسے عجيب و غريب نظروں سے ديكھتے ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ آپ ميرے سوال كو مجادلہ اور بحث كے انداز ميں نہ ديكھيںن بلكہ يہ صرف حقيقى سوال ہے، اور ميرے ليے يہ بہت اہميت كا حامل ہے،خاص كر ملازمت كے دوران
الحمد للہ:
اول:
ميرے سائل بھائى آپ يہ علم ميں ركھيں كہ شرعى احكام كا مقصد يہ نہيں اور نہ ہى شريعت نے ايسے احكام صادر كيے ہيں جو كسى مسلمان كو ذليل و رسوا كريں، يا پھر لوگوں ميں وہ عجوبہ اور مسخرا پن كا شكار ہو جائے، بلكہ شريعت مطہرہ تو ايسے احكام لائى ہے جو لوگوں كى دينى اور دنياوى بھلائى پر مشتمل ہيں.
اور جب آپ عالم دنيا كے حالات كا بغور جائزہ لينگے تو آپ كو اس قول كى صداقت ملےگى، سارى امتوں كى اپنى دنياوى زندگى ميں اسلام كى مخالفت ناكام ہو چكى ہے ـ مثال كے طور پر ـ آپ مرد و عورت كے اختلاط كے اثرات ديكھيں كہ دوسرى امتوں پر اس كے كيا اثرات مرتب ہوئے، اور اسى طرح شراب نوشى كے اثرات بھى، اور بےپردگى اور بےحيائى كا نتيجہ كيا نكلا، اور پھر آپ ان قوموں كى حريت و آزادى رائے كيا نتيجہ كيا ہے، يقينا اب اكثر قوميں اور معاشرے اس سے پريشان ہيں، اور يہى قوميں ہيں جن ميں خود كشى كا رجحان زيادہ ہے، اور ان ميں بيويوں كو زدكوب كرنا اور انہيں قتل كرنا بھى بہت زيادہ ہے، اس كى بہت سارى مثاليں ملتى ہيں.
اور ہم جو كچھ كہہ رہے ہيں وہ تو ان كے اپنے سروے سے ہى ثابت ہوا ہے، ہم اس كى تفصيل ميں نہيں جانا چاہتے، بلكہ ہم تو صرف آپ اور دوسرى قارئين كرام كے ليے اشارہ ہى كر رہے ہيں جنہيں ہو سكتا ہے شيطان وہم اور وسوسہ ميں مبتلا كر دے كہ اسلام كے كچھ شعار صحيح نہيں ـ ان شاء اللہ ـ ہم آپ كو ان ميں شمار نہيں كرتے، ليكن اس پر متنبہ اور اشارہ كرنے ميں كوئىمانع بھى نہيں.
دوم:
محترم بھائى آپ يہ بھى علم ميں ركھيں كہ جب معاملہ كسى ايسى چيز سے تعلق ركھتا ہو جو اللہ كا حكم اور واجب ہو، يا پھر حرام سے تعلق ركھے جس سے اللہ نے منع كيا اور روكا ہو تو پھر اس ميں لوگوں اور عادات و عرف كا خيال نہيں كرنا چاہيے بلكہ يہ مسلمان كے شايان شان ہى نہيں كہ اللہ كو ناراض كر كے لوگوں كا خيال كرتا پھرے.
جى ہاں مستحبات اور مباح اور مكروہات ميں لوگوں كے حالات اور عرف كا خيال ركھنا ممكن ہے، ليكن واجبات اور حرام ميں بالكل كسى بھى طور پر لوگوں كى بنا پر ان كو نہيں چھوڑا جا سكتا كہ واجب كو چھوڑ ديا جائے، اور حرام كا مرتكب ہوا جائے.
بعض لوگ غلطى سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى اس حديث سے استدلال كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كعبہ كو گرا كر ابراہيم عليہ السلام كى بنيادوں پر دوبارہ تعمير كرنے كو ترك كر ديا تھا "
وہ اس سے واجب كو ترك كرنے كى دليل ليتے ہيں جو كہ صحيح نہيں بلكہ غلط ہے، اگر يہ واجب ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى بھى اسے تاليف قلب كے ليے ترك نہ كرتے، بلكہ يہ جائز تھا، ہم ذيل ميں مكمل حديث اور اس پر اہل علم كى كلام پيش كرتے ہيں:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے كہنے لگے:
" اے عائشہ اگر تيرى قوم جاہليت كے دور كے قريب نہ ہوتى تو ميں بيت اللہ كو گرانے كا حكم دوں اور پھر ميں اس ميں وہ حصہ بھى شامل كر دوں جو اس سے نكال ديا گيا ہے، اور اسے زمين كے ساتھ ملا دوں اور اس كے دو دروازے بنا دوں ايك مشرقى جانب اور ايك مغربى جانب تو اس طرح وہ ابراہيم عليہ السلام كى بنيادوں پر آ جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1509 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1333 ).
اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:
" مجھے خدشہ ہے كہ ان كے دل اسے ناپسند سمجھينگے "
شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:
" يہ معلوم ہے كہ روئے زمين پر سب سے بہتر جگہ كعبہ ہے، اور اگر اسے اس طريقہ ميں بدلنا اور تبديل كرنا واجب ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى بھى اسے ترك نہ كرتے، اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ جائز تھا، اور يہ كہ زيادہ صحيح يہى تھا اگر قريش نئے نئے مسلمان نہ ہوتے، اور اس ميں كعبہ كى تعمير كو پہلى تعمير سے تبديل كرنا پايا جاتا ہے، تو يہ معلوم ہوا كہ بالجملہ يہ جائز تھا، اور ايك تاليف كو دوسرى تاليف سے تبديل كرنا تبديل كرنے كى ايك قسم ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 31 / 244 ).
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ ايك جگہ يہ كہتے ہيں:
چنانچہ اس وقت افضل كو ترك كرنا تا كہ لوگ متنفر نہ ہوں، اور اسى طرح اگر آدمى بسم اللہ اونچى آواز سے پڑھنے كى رائے ركھتا ہو اور كسى ايسى قوم كى امامت كرائے جو بسم اللہ اونچى آواز سے پڑھنا مستحب سمجھتے ہوں، يا اس كے برعكس اور وہ ان كى موافقت كرے تو اس نے بہتر كام كيا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 268 - 269 ).
اور ايك جگہ كہتے ہيں:
" اور بعض اوقات وہ ـ يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ـ افضل كام سے مفضول كى جانب منتقل ہو جاتے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں موافقت اور تاليف قلب ہوتى، جيسا كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" اگر تيرى قوم عہد جاہليت كے قريب نہ ہوتى تو ميں كعبہ كو گرا كر اس كے دو دروازے بنا ديتا "
تو يہاں موافقت اور تاليف قلب كے ليے ترك اولى ہے، جو كہ اس اولى اور افضل سے بہتر ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 26 / 91 ).
سوم:
عمومى طور پر لباس اور خاص كر سلوار ٹخنوں سے نيچے ركھنے كے متعلق چند ايك امور پر تنبيہ كرنا ضرورى ہے:
1 - كپڑے اتنے نيچے ركھنا حتى كہ وہ ٹخنوں سے چھونے لگيں تو يہ كبيرہ گناہ ہے، اور پھر ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت غرور اور تكبر كے ساتھ مقيد نہيں، بلكہ يہ بذاتہ حرام ہے، اور يہ چيز بنفسہ تكبر كى علامت ہے، اس ليے اگر اس كے ساتھ دل كا غرور اور تكبر بھى مل جائے تو اور بھى زيادہ گناہ كا باعث ہوگا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن عربى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: مرد كے ليے كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنا جائز نہيں، اور اس كا يہ كہنا كہ: " ميں تكبر اور غرور سے تو كپڑا ٹخنوں سے نيچے نہيں ركھتا " جائز نہيں، كيونكہ بعض اوقات نہى الفاظ كو حاصل ہوتى ہے، اور جسے لفظا حكم حاصل ہو اس كے ليے يہ كہنا جائز نہيں " ميں اس ميں شامل نہيں ہوتا " كيونكہ يہ علت مجھ ميں نہيں ہے " اس ليے كہ يہ دعوى غير مسلم ہے، بلكہ اس كا كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنا ہى تكبر پر دلالت كرتا ہے " اھـ مخلص.
حاصل يہ ہوا كہ:
اسبال يعنى كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنا كپڑے كو زمين پر گسٹنے كو مستلزم ہے، اور كپڑا زمين پر رگڑنا اور زمين پر لگنا تكبر كو لازم كرتا ہے، چاہے ايسا لباس پہننے والا تكبر كا ارادہ كرے يا نہ، اس كى تائيد دوسرى سند سے درج ذيل روايت سے ہوتى ہے:
احمد بن منيع ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں انہوں نے اس حديث كو مرفوع بيان كيا ہے كہ:
" تم اپنا تہہ بند گھسٹنے سے اجتناب كرو، كيونكہ تہہ بند گھسيٹنا تكبر ميں سے ہے "
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 264 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" تم تہہ بند نيچے گھسيٹنے سے اجتناب كرو، كيونكہ يہ تكبر ميں سے ہے "
تو كپڑا ٹخنوں سے نيچے ركھنے كو تكبر ميں شمار كيا ہے؛ كيونكہ غالب طور پر يہ اسى بنا پر ہوتا ہے، اور جو ايسا تكبر سے نہ كرے تو اس كا عمل تكبر كى جانب جانے كا وسيلہ ہے، اور وسائل كو بھى غايات كا حكم حاصل ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 383 ).
اس سلسلہ ميں سوال ( 762 ) كا جواب بھى ديكھا جائے، اس ميں ٹخنوں سے نيچے كپڑا ركھنے كى حرمت كے دلائل بيان ہوئے ہيں.
2 - كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ دين كو چھلكے اور گودے ميں تقيسم كرتا پھرے، اور ايسى تقسم كرنے والے سلوار وغيرہ ٹخنوں سے نيچے ركھنے، اور داڑھى مونڈنے كو چھلكا بنائيں، يہ جائز نہيں! يہ بہت بڑى غلطى ہے، اور اس كا سبب شرعى احكام سے جہالت ہے، اور يہ دونوں فعل كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتے ہيں، ديكھيں كہ اس طرح كى تقسيم كرنے والوں نے اپنے اس برے قول كى بنا پر كبيرہ گناہوں كے ارتكاب كو كتنا آسان كر ليا ہے.
ان كا رد معلوم كرنےكے ليے آپ سوال نمبر ( 12808 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
3 - اسبال صرف ثوب ( عربى لباس ) ميں ہى نہيں، بلكہ يہ تہہ بند، اور سلوار اور پائجامہ، اور پتلون، اور جبہ وغيرہ سب اشياء ميں ہے، اور ہر اس لباس ميں جو مسلمان پہنتا ہے، اگر وہ ٹخنوں سےنيچے ہو تو يہ اسبال شمار كيا جائيگا.
4 - ہم يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ جو آدھى پنڈلى تك پہنا جاتا ہے وہ تہہ بند ہے، ليكن پتلون يا ثوب اس طرح نہيں، بلكہ يہ ٹخنوں سے اوپر ركھے جائينگے، اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ يہ اس كے ٹخنوں كے ساتھ لگيں.
ہم نے يہ دونوں مسئلے ( 4 - 5 ) سوال نمبر ( 10534 ) كے جواب ميں بيان كيے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.
5 - اگر پتلون اور پينٹ يا ٹراؤزر تنگ ہو ـ جيسا كہ ہميں سائل كے قول سلوار سے يہ معلوم ہوا ہے كہ يہى مقصود لے رہا ہے ـ اور ستر كے حجم كو واضح كرے تو اسے زيب تن كرنا حلال نہيں ہے.
اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 69789 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں:
6 - پينٹ ٹخنوں سے نيچے ركھنا كبيرہ گناہ ہے، اس ليے اسے چھوٹا كرنے اور ٹخنوں سے اونچا ركھنے ميں لوگوں كے ذوق اور ان كى رائے كا اعتبار نہيں كيا جائيگا، بلكہ اس كے برعكس سنت پر عمل كرتے ہوئے اسے ٹخنوں سے اونچا ہى ركھا جائيگا، جيسا كہ ہم جواب كے شروع ميں بيان كر چكے ہيں.
بلكہ ہميں تو ايسے شخص پر بہت زيادہ تعجب ہوتا ہے جو يہ رائے ركھے كہ سنت پر عمل كرتے ہوئے لباس ٹخنوں سے اونچا ركھنے سے مسلمان كا منظر خراب ہو جاتا ہے، اور وہ عورتوں كا آدھى ران تك اپنا لباس ركھنے ميں كوئى قباحت محسوس نہيں كرتا، اور نہ ہى اس كى رائے ميں تنگ پتلون ميں كچھ ہے جو آج كل نوجوان پہن رہے.
اور نہ ہى وہ آج كل كى نئے رواج كى پينٹيں پہننے كو غلط سمجھتا ہے، اور حيوانوں اور جانوروں كے بالوں جيسى كٹنگ بنوانے كو بھى غلط نہيں سمجھتا، جو شير كٹ، اور مرغ كلغى كٹ اور بطخ كٹ اور چوہا كٹنگ كے نام سے معروف ہيں.
ٹخنوں سے اوپر لباس پہننے والے بھائى كو چاہيے كہ وہ اس ميں مبالغہ مت كرے، لباس ٹخنوں سے نيچے ركھنا حرام ہے، اور اس سلسلہ ميں لوگوں كى باتوں پر دھيان نہيں دينا چاہيے، كہ وہ كيا كہينگے، لباس چھوٹا ركھنے ميں مبالغہ نہ كريں، اور جو بھائى اس سنت پر عمل كرتے ہيں انہيں چاہيے كہ وہ اس ميں اپنے آپ كو لوگوں كا مذاق نہ بنائيں، اور نہ ہى وہ اس مسئلہ كو كسى دوسرے كے حساب پر كھوليں، اور اس طرح كے افعال كو جس ميں شريعت نے وسعت ركھى ہے اسے اپنے اور لوگوں كے درميان حائل اور پردہ نہ بنائيں، اور ان افعال ميں انہيں اپنے ملك كے عرف كا خيال كرنا ممكن ہو تو ايسا كر ليں، يعنى اگر اس ميں شريعت كى مخالفت نہ ہوتى ہو تو وہ اس پر عمل كر ليں.
اور اگر وہ اپنا لباس ٹخنوں سے ذرا اونچا ركھ ليں تا كہ لوگ انہيں مذاق كا نشانہ نہ بنائيں، اور نہ ہى وہ اسے اپنے اور لوگوں كے مابين آڑ اور حائل بنائيں، تو ايسا كرنا جائز ہے، اميد ہے كہ انہيں اپنا لباس چھوٹا ركھنے سے اس فعل كا زيادہ اجروثواب حاصل ہو گا.
لہذا پينٹ اور پتلون وغيرہ ٹخنوں سے نيچے ركھنا ان حرام كاموں ميں شمار ہوتا ہے جس ميں لوگوں كے ذوق اور عرف و عادات كا خيال نہيں ركھا جاتا، اور كسى بھى مكلف شخص كے ليے اس معاملہ ميں لوگوں كى وجہ سے مخالفت كرنى جائز نہيں ہے، ليكن لباس چھوٹا ركھنےكى حد ( يعنى ٹخنوں سے اوپر تك ) ميں مكلف شخص اپنے ملك كے لوگوں كى عادات و عرف اور ان كے نظريہ كا خيال ركھے تو يہ افضل اور بہتر ہے، ليكن ٹخنوں سے نيچے نہ ركھے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
لباس نصف پنڈلى تك ركھنا سنت ہے، اور نصف پنڈلى سے نيچے تك ركھنا بھى سنت ہے، ليكن ٹخنوں سے نيچے ركھنا ممنوع اور حرام ہے، كيونكہ صحابہ كرام جو كہ بعد ميں آنے والوں سے زيادہ قدر كے لائق ہيں، اور بعد ميں آنے والوں سے بھى زيادہ خير و بھلائى سے محبت كرتے تھے، ان كے لباس بھى ٹخنوں تك يا اس سے كچھ اوپر ہوتے تھے، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے تہہ بند كى سائڈ نيچے چلى جاتى ہے، حالانكہ ميں اس كا بہت خيال بھى ركھتا ہوں "
يہ اس بات كى دليل ہے كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى چادر نصف پنڈلى سے نيچے تھى؛ كيونكہ اگر وہ نصف پنڈلى تك ہوتى اور ڈھيلى ہو كر زمين پر لگ جانے سے تو اوپر كا ستر والا حصہ ننگا ہو جاتا، اور صحابہ كرام كے مابين يہ معروف تھا.
تو مثلا اگر آپ ديكھيں كہ: لوگ نصف پنڈلى يا اس سے ذرا نيچے ركھنا اچھا نہيں سمجھتے، اور اگر بغير كسى اسراف اور تكبر كے لوگوں كى طرح آپ لباس پہنيں تو آپ كى بات زيادہ قبول ہو گى، الحمد للہ آپ تاليف قلب اور كلام كو منوانے كے ليے اسے چھوڑ ديں جسے كرنا چاہتے تھے.
اس ليے جو شخص لوگوں كى عادت كے مطابق لباس پہتا ہے اور وہ حرام نہ ہو تو ميں ديكھتا ہوں كہ نصف پنڈلى يا اس سے زائد اوپر لباس ركھنے والوں كى بنسبت دوسرے شخص كى كلام كو زيادہ قبول كرتے ہيں، اور بعض اوقات انسان مستحب كو اس ليے ترك كرتا ہے تا كہ اس سے بھى افضل كو حاصل كيا جا سكے، اس ليے ميرى رائے يہ ہے كہ اگر اسے اس كا والد نصف پنڈلى سے نيچے لباس ركھنے كا كہتا ہے تو وہ اس ميں ان كى بات مانتے ہوئے اطاعت كر لے؛ كيونكہ يہ سب سنت ہے، اور الحمد للہ صحابہ كرام نے اس سب پر عمل كيا ہے "
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 83 ) سوال نمبر ( 14 ).
واللہ اعلم .
.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ