لوگوں كو مسجد ميں آنے كى حرص پر مسجد ميں مرد و عورت كے اختلاط كى اجازت دينا

 

 

 

 

ہمارى مسجد ميں ماہ رمضان المبارك ميں افطارى سے كچھ دير قبل مرد و عورت كا اختلاط پيدا ہو جاتا ہے، اور يہ سلسلہ كئى برسوں سے جارى ہے، مسجد كے ذمہ داران دليل يہ ديتے ہيں كہ وہ لوگوں كو اپنى مرضى كے مطابق عمل نہ كرنے ديں تو وہ مسجد نہيں آيا كرينگے.
اس كے علاوہ بھى تروايح ميں كئى ايك بدعات كى جاتى ہيں مثلا ہر چار ركعت كے بعد اللہ كى تسبيح كى جاتى ہے، آپ اس سلسلہ كو صحيح كرنے كے ليے ہميں كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

الحمد للہ:

اول:

مردوں اور عورتوں كا اختلاط حرام ہے، كيونكہ يہ بہت سارى برائيوں اور غلط و حرام كاموں كا باعث بنتا ہے، اس كى حرمت كے دلائل سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.

جب مرد و عورت كا اختلاط عام اوقات اور جگہوں پر حرام ہے تو پھر يہ اختلاط خاص كر مساجد اور رمضان المبارك ميں تو اور بھى زيادہ شديد حرام ہو گا، كيونكہ شريعت اسلاميہ نے مسجد تو حفظ دين اور دين كى نشر و اشاعت كے ليے بنائى ہے، اور لوگوں كو خير و بھلائى كى طرف بلانے اور انہيں فتنہ و فساد اور بغاوت سے منع كرنے كے ليے بنائى ہے، اور پھر يہ اختلاط تو روزے كى حكمت كے بھى منافى ہے كيونكہ روزے سے تقوى و پرہيزگارى حاصل ہوتى ہے، اور اپنى خواہشات كے اسباب سے اجتناب كرنے كا حكم ہے.

لہذا سب مسجد والوں پر بلكہ اس كے سب ذمہ داران پر واجب ہوتا ہے كہ وہ اس برائى كو روكيں اور اسے ختم كرنے كى كوشش كريں.

كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس برائى كے جواز يا پھر اس برائى سے سكوت اختيار كرنے كے ليے يہ دليل دے كہ مرد و عورت كو اختلاط سے روكنے كى بنا پر لوگ مسجد ميں نہيں آئينگے اس كى يہ دليل كئى ايك وجوہات كى بنا پر مردود ہے قابل قبول نہيں:

پہلى وجہ:

برائى كو روكنے كى طاقت ركھنے باوجود برائى سے منع نہ كرنا اور اسے نہ روكنا گناہ كا باعث بنتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس كى استطاعت نہيں ركھتا تو وہ اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى طاقت نہيں ركھتا تو وہ اسے اپنے دل سے روكے، اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 48 ).

اور كوئى بھى عقل و دانش والا شخص اس پر راضى نہيں ہوتا كہ اس كا مسجد جانا گناہ ميں پڑنے كا باعث و سبب ہو.

دوسرى وجہ:

مسجد كا سب سے اہم ترين دور يہ ہے كہ لوگوں كو خير و بھلائى كى دعوت دى جائے، اور انہيں برائى سے روكا جائے، اس ليے مسجد كے ذمہ داران حضرات پر واجب تھا كہ وہ لوگوں كے سامنے اختلاط كے نقصانات اور اس كى حرمت واضح كرتے اور انہيں ايسا كرنے سے روكيں.

تيسرى وجہ:

يہ كہنا كہ ايسا كرنے سے يہ لوگ مسجد ميں نہيں آئينگے يہ صرف گمان اور خيال ہى ہے، اور اگر بالفرض ايسا ہو بھى تو اہل علم كا فيصلہ ہے كہ فساد و خرابى كو دور كرنا جلب نفع پر مقدم ہو گا.

چوتھى وجہ:

افطارى سے قبل عورتوں كے جمع ہونے كے ليے كوئى جگہ مخصوص كرنا ممكن ہے، چاہے مسجد كے ايك كونے ميں پردہ لگا كر يا پھر مسجد كے باہر خيمہ لگا كر انتظام ہو سكتا ہے، اور ان كے ليے وہاں اچھے پروگرام پيش كيے جا سكتے ہيں اور انہيں اچھے كام كى راہنمائى كى جاسكتى ہے، جس كا اہتمام بھى عورتيں ہى كريں.

پانچويں وجہ:

دعوت دينے والے داعى كو فى الواقع موثر ہونا چاہيے اور اسے اصلاح كى كوشش و جدوجھد كرنى چاہيے، نہ كہ وہ خود متاثر ہو كر دعوت ہى چھوڑ دے يا پھر وہ اس كے جواز اور اس سے برى ہونے كے حيلے بہانے تلاش كرتا پھرے.

اختلاط ايك ايسى مشكل ہے جو دين اور شريعت اسلاميہ سے دورى كى بنا پر پيدا ہوئى ہے، اس ليے اس كور وكنے كے ليے پورى سعى و كوشش صرف كرنى چاہيے، اور اس كو جڑ سے ختم كرنے ميں پورى طاقت صرف كى جائے، اور اگر اس كو روكنے كے ليے اللہ كے گھروں مساجد سے پہلا قدم نہيں اٹھے گا تو پھر كہاں سے ؟

آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ اپنے ساتھ كچھ صالح اور علم ركھنے افراد كو ملا كر مسجد كے ذمہ داران كو مطمئن كرنے كى كوشش كريں اور اس مشكل كے حل كے ليے ان كا تعاون كرتے ہوئے عورتوں كے جمع ہونے كے ليے ايك عليحدہ جگہ كا انتظام كرنے ميں مدد كريں اور عورتوں كے نفع مند پروگرام ترتيب ديں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى كوشش و جھد كو كاميابى سے نوازے اور آپ كو توفيق نصيب فرمائے.

دوم:

اور نماز تروايح كى ہر چار ركعت ادا كرنے كے بعد ان كا تسبيح كرنے كے متعلق تفصيلى بيان سوال نمبر ( 50718 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے اس كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں بيان ہوا ہے كہ يہ بدعت ہے اس كو ترك كرنا ضرورى ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

تراويح كى ركعات كے دوران بلند آواز سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اور صحابہ كرام كے ليے رضى اللہ عنہم كہنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہمارے علم كے مطابق تو اس كى كوئى اصل نہيں اور نہ ہى اس كى كوئى دليل ملتى ہے، بلكہ يہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہے اس ليے اسے ترك كرنا واجب ہے، كيونكہ اس امت كے آخرى لوگ بھى وہى كام كر كے اپنى اصلاح كر سكتے ہيں جس پر چل كر اس امت كے پہلے لوگ كامياب ہوئے اور اصلاح كى، اور وہ كتاب و سنت پر عمل ہے، اور جس پر سلف امت كا عمل تھا اس كى مخالفت كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 369 ).

واللہ اعلم .

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ